جسٹس چندر چوڑ کے بیان کا مقصد حکومت کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت: ڈاکٹر محمد منظور عالم

نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس چند چوڑ نے ملک کے دانشوران اور ارباب دانش کی توجہ جس جانب مبذول کرائی ہے اور انہیں جو کام کرنے کیلئے کہاہے یہ بہت اہم اور قابل غور ہے۔ دانشوران کو چاہیے کہ وہ اسے سنجیدگی سے لیں ۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کیا ۔

ڈاکٹر محمد منظور عالم نے مزید کہاکہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج کا یہ بیان بتارہا ہے کہ واقعی ملک کی صورت حال بہت زیادہ سنگین ہوچکی ہے ، عوام سے سرکار جھوٹ بول رہی ہے ۔ حقائق اور سچائی عوام سے چھپائی جارہی ہے۔ میڈیا اپنی ذمہ داری نبھانے اور ایمانداری برتنے کے بجائے مخصوص طبقہ اور گروپ کے ایجنڈا پر کام کررہی ہے۔ اب تک یہ احساس عوام ، دانشوران اور ارباب دانش و بینش کا تھا، کچھ لوگ خامو ش تھے اور کچھ لوگ بولنے کی کوشش کررہے تھے لیکن مجبور ہوکر اب خود سپریم کورٹ کے ایک جج کو بولنا پڑا ہے ۔ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں دانشوران سے یہ اپیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ وہ سرکار کے جھوٹ کا پردہ فاش کریں ۔
جج موصوف کے بیان نے یہ بھی بتادیا ہے کہ ملک کی صورت حال بہت زیادہ خراب ، تشویشناک اور پریشان کن ہے ۔ عام لوگوں کے ساتھ خواص بھی پریشان ہیں ۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اپنے پریس نوٹ میں ملک میں پیش آرہے لگاتار ماب لنچنگ کے واقعات پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہاکہ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں روزانہ دو تین ماب لنچنگ ، کرائم اور مسلمانوں ، دلتوں اور آدی واسیوں پر حملہ کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے ، لاء اینڈ آڈر بے قابو ہے جس کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے اور بڑھ گئے ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاء اینڈ آڈر پر قابو پائے اور شرپسندوں کے خلاف سخت ایکشن لے تاکہ دوسرے ایسے جرائم کو کرنے سے باز رہیں اور عوام میں خوف نہ پھیلے ۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم نے جسٹس چندر چوڑ کے بیان کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کہاکہ دانشوارن اور اہل علم کو ان باتوں پر توجہ دیتے ہوئے سرکار کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہیئے ، آگے آنا چاہیئے ، میڈیا ، صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو اس سلسلے میں نمایاں رول ادا کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضرروی ہے کہ ملک میں محبت اور گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جائے ، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کیا جائے ، گفتگو میں عزت نفس کو ملحوظ رکھا جائے اور باہمی ادب و احترام کا خیال کیا جائے ۔