امریکہ کا افغانستان سے نکلنا بہترین اور درست فیصلہ، بائیڈن نے امریکی عوام کو جواب دیا

امریکی صدر جو بائیڈن نے عوام سے خطاب کے دوران یہ اعتراف کیا کہ کابل چھوڑنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ وہ جنگ کو اور طویل نہیں کرنا چاہتے تھے
واشنگٹن: صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھی، جسے بہت عرصہ قبل بند ہو جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی انخلا کا فیصلہ انہی کا فیصلہ ہے اور درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔ منگل کے روز وائٹ ہاؤس سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ اب یہ جنگ ختم ہو چکی ہے، چونکہ اب سرزمین پر لڑائی لڑنے کا وقت نہیں رہا، اسے اب سفارتی میدان میں لڑا جائے گا۔
صدر نے کہا کہ یہ لڑائی اس وقت ختم ہو جانی چاہیے تھی جب مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا اور القاعدہ کا قلع قمع کیا گیا۔ انھوں نےکہا کہ11 ستمبر 2001ء کے امریکہ کے خلاف حملوں میں القاعدہ ملوث تھا؛ لیکن یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمین سے وار کر رہا تھا، جسے نیست و نابود کرنے کی ضرورت تھی، اور یہ کام بخوبی کیا گیا۔
لیکن، صدر نے یاد دلایا کہ داعش خراسان جیسے دہشت گرد گروہ کے ساتھ لڑائی ختم نہیں ہوئی، اسے نہ معاف کیا جائے گا، نہ بھلایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر دولت اسلامیہ خراسان کےخلاف فضائی حملے کیے جائیں گے۔
حالیہ کابل مشن کا ذکر کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کا انخلا کیا گیا، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا انخلا کسی بھی اور ملک نے نہیں کیا۔
اس مشن کی کامیابی کی وجہ ہماری افواج، ہمارے سفارت کار اور انٹیلی جنس ہے۔ وہ ہفتوں تک لوگوں کی مدد کرتے رہے، اور انہوں نے یہ سب داعش خراساں کی موجودگی میں کیا۔ آج کے بعد امریکہ دوسرے ممالک میں فوج بھیج کر وہاں قوم سازی نہیں کرے گا۔ افغانستان میں جس طرح ہم قوم سازی اور جمہوریت لانا چاہتے تھے، ایسا وہاں صدیوں میں نہیں ہوا۔
صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز قوم سے اپنے خطاب میں افغانستان سے انخلا کی آخری تاریخ پر قائم رہنے کے فیصلے پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے وہاں سے ہزاروں امریکی اور افغان شہریوں کو نکال لیا گیا ہے اور اب وہاں محض ایک سو سے دو سو تک امریکی شہری باقی رہ گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے سٹیٹ ڈائننگ روم سے ٹیلی ویژن پر خطاب میں بائیڈن نے طالبان کی تیز رفتار پیش رفت کے خلاف معزول افغان حکومت کی نااہلی کو تنقید کا نشانہ بنایا ، جس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو جلد بازی سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔