تبلیغی جماعت پر میڈیا کے ایک گروہ کی خبریں مذہبی منافرت سے پُر تھیں: سپریم کورٹ

عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا اس پر لگام لگانے کے لئے آپ کے پاس کوئی نظام موجود ہے؟ آپ کے پاس الیکٹرانک میڈیا اور اخباروں کے لئے تو نظام ہے لیکن ویب پورٹل کے لئے بھی کچھ کرنا ہوگا
نئی دہلی: مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا میں چلائی گئی خبروں کے تعلق سے عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میڈیا کے ایک گروہ کی خبریں منافرت سے پر تھیں اور اس سب پر لگام لگنی چاہیئے۔ جمعیۃ علما ہند، پیس پارٹی وغیرہ کی عرضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف فرضی خبریں چلائی گئیں اور اس سے ملک کی شبیہ داغدار ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ جمعیۃ علما ہند، پیس پارٹی، ڈی جے ہلی فیڈریشن آف مسجد مدارس، وقف انسٹی ٹیوٹ اور عبد القدوس لشکر کی جانب سے دائر کی گئی عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کی رپورٹنگ یکطرفہ تھی اور ان میں مسلم طبقہ کی غلط شبیہ پیش کی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا اس پر لگام لگانے کے لئے آپ کے پاس کوئی نظام موجود ہے؟ آپ کے پاس الیکٹرانک میڈیا اور اخباروں کے لئے تو نظام ہے لیکن ویب پورٹل کے لئے بھی کچھ کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بنچ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہر چیز اور ہر موضوع کو فرقہ ورانہ رنگ کیوں دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ آخر سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر نگرانی کے لئے کمیشن تشکیل دینے کے وعدے کا کیا ہوا؟ اس پر کیا پیشرفت ہوئی ہے۔
گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ان ٹی وی پروگراموں پر لگام لگانے کے تعلق سے کچھ نہیں کرنے پر پھٹکار لگائی تھی، جس کے اثرات بھڑکانے والے ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اس طرح کی خبروں پر لگام لگانا اسی طرح سے ضروری ہے جس طرح سے نظم و نسق کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے احتیاطی اقدامات اٹھانا۔ اس دوران سپریم کورٹ نے دہلی تشدد کے دوران احتیاطی قدم کے طور پر انٹرنیٹ خدمات کو بند کرنے کے فیصلہ کی بھی مثال پیش کی۔