فاروق اعظم قاسمی، جے این یو نئی دہلی
جی سمجھ گئے حضرت! اب ہمیں سمجھانے والے ایک مشفق استاذ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے. دادی اماں سے قرآن پڑھا ہے، کہاں کا ہے رے. یہ اور اس طرح کے کئی شفقت و محبت بھرے جملے آج بھی ذہن و دماغ میں تازہ ہیں. حضرت مولانا عبد الحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ یقیناً ایک مشفق و مخلص استاذ اور مربی تھے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہمارا دورہ حدیث شریف کا سال(2007) تھا اس وقت حضرت کی آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا ،نگاہوں کی کمزوری کے ساتھ اور بھی کئی اعذار تھے. گھر یلو الجھنیں، جسم کا بھاری پن اور سب سے بڑھ کر بڑھاپا اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی جیل نما رہائش گاہ سے پل صراط عبور کر کے دارالعلوم (دارالحدیث) آنا. سوئے اتفاق اسی سال حضرت الاستاذ شیخ نصیر احمد خان علیہ الرحمہ سخت بیمار پڑے اور یہ سلسلہ چار مہینوں تک جاری رہا، ان کی جگہ ہمیں ہمارے ترمذی کے استاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب نے پڑھا ئی. عموماً شیخ ثانی کا درس عشا بعد سے بارہ بجے شب تک جاری رہتا. شیخ ثانی کے ضعف چشم کے عذر کی وجہ سے یہ طے پایا کہ عشا بعد مفتی صاحب پڑھائیں گے اور شیخ اول کے گھنٹوں میں شیخ ثانی پڑھائیں گے. پھر کیا تھا جناب میرے ہم نشیں گواہ ہیں کہ حضرت شیخ ثانی کی طلبہ دورہ حدیث پراس قدر شفقت و عنایت کی بوچھاڑ ہوئی کہ چار پانچ گھنٹے بخاری ثانی کا درس جاری رہتا اور غریب قریب الفضیلت طلبہ پانی پانی ہو جاتے بلکہ کسی بھی استاذ کا گھنٹہ بھولے چوکے خالی ہوجاتا تو اسے بھی حضرت ضائع ہو نے نہیں دیتے یہاں تک کہ بعد عصر کے ہمارے سیر و تفریح اور کھیل کود کو بھی عبادت بنانے سے وہ نہیں چوکتے. اللہ حضرت کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے اور ہمیں معاف فرمائے کہ ہمیں یہ بد گمانی ہونے لگی کہ اتنی نیکی کماکر کیا کریں گے. ہمارا مانیٹر خادم الاسلام کشمیری ہوا کرتے تھے اللہ جھوٹ نہ بلوائے وہ جھارکھنڈ و بنگال کے پورے لگیں یا نہ لگیں لیکن کسی زاویے سے کشمیری نہیں لگتے تھے. وہ عبارت خوانی اور دیگر امور کا نظام طے کر تے. حضرت کے یہاں بخاری کی حدیث خوانی کے لیے بسطۃفی العلم والجسم و الصوت کی شرط لازمی تھی بسا اوقات کوئی عبارت خواں ایسا پلے پڑجاتا جس کے اندر محض حصول ثواب کا جذبہ کارفرما ہوتا اور بس. اب جوں ہی ذرا اٹک پھٹک ہوتی خواہ صرف و نحو میں ادنی لغزش ہو یا تجوید و تحسین میں کوئی کمی یا پھر آواز میں کسی قسم کا ضعف،تو بڑی شفقت سے اعظم گڑھی لہجے میں فرماتے! رے رے! قرآن کس سے پڑھا ہے، دادی اماں سے پڑھا ہے. پھر تو سارا دارالحدیث قہقہوں کی گونج سے زعفران زار ہو جاتا. اگر کوئی طالب علم کبھی کوئی اوٹ پٹانگ کرتا تو فرماتے : کہاں کا ہے رے. سب بیک زبان ہو کر بول اٹھتے : حضرت! اعظم گڑھ کا ہے. حضرت کبھی زیر لب مسکرادیتے اور کبھی خاموشی سے آگے بڑھ جاتے. یہ ساری ادائیں اپنے شاگردوں پر حضرت کی حد درجہ شفقت و محبت کی علامت ہوا کرتی تھیں. خاص خاص مواقع پر حضرت کی پند و نصائح سے ہم طلبہ مستفید ہو تے. بڑے خوبصورت انداز میں بر محل واقعات کے ذریعے حضرت اپنے بیان کو مزید دل چسپ بنا دیتے. ایک نصیحت برابر کرتے کہ کبھی کسی انسان سے اپنی امیدیں وابستہ مت کرنا بس اللہ پر بھروسہ کرو. رزق کے لیے بھی زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے ہاں کسب حلال کی کوشش ضرور کرنا لیکن جتنا رزق مقدر ہوگا اتنا مل کر رہےگا. اس موقعے سے حضرت ایک بڑا دلچسپ واقعہ بھی بیان کر تھے. مجھے تھوڑا تھوڑا یاد پڑتا ہے کہ ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا رہتا ہے، یوں ہی کہیں پڑا رہتا، کچھ لوگ اسے پکڑ لے جاتے ہیں، وہ بہت ڈرتا ہے اور جانے پر آمادہ نہیں ہوتا ہے تو وہ لوگ اسے زبردستی لے جاتے ہیں اور کچھ کھانا پیش کر تے ہیں وہ خوف کے مارے کھانے سے انکار کر تا ہے تو وہ لوگ اسے جوتے مار مار کر کھلاتے ہیں.
حضرت فرماتے کہ دیکھا اتنے تمہارا مقدر رزق پورا نہ ہوجائے تمہیں موت نہیں دبوچ سکتی، تم کھانا نہیں بھی چاہوگے تو اللہ جوتے مار مار کر تمہیں تمہارا مقدر رزق کھلائے گا تب موت دے گا. آپ کے دم اور دعا میں بڑا دم تھا. آپ سے دعا کرانا تو آسان تھا لیکن تعویذ وغیرہ کی درخواست بھی بہت مشکل تھی، حضرت ناراض ہوجاتے اور فرماتے تمہیں کس نے بتایا. تاہم اشد ضرورت مندوں کو اگر عنایت کردیتے تو وہ بفضل الہی بڑا کارگر ثابت ہو تا. حضرت کی رقت آمیز دعا ہر کسی پر رقت طاری کر دیتی تھی.
آج وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں لیکن ان کی ایک ایک ادا نگاہوں کے سامنے ہے. پاک پروردگار حضرت الاستاذ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرما!