نئی دکان سج گئی’غلاموں‘ کو ’نئے آقا‘ کی تابعداری کی ہدایت ملنے والی ہے

قاسم سید

سماج وادی پارٹی میں بغاوت، بوڑھے باپ کو شاہجہاں بناکر اس کی تذلیل و توہین، پارٹی دفتر پر بزور قوت قبضہ، ایک دوسرے کو باہر نکالنے، پھر واپس لینے کے پے در پے واقعات، نئے بادشاہ کی تاجپوشی وغیرہ اس پارٹی کے اندرونی معاملات میں ان میں کسی کو دخل دینے اور تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، جہاں اصول و اقدار اور روایات کی کوئی حیثیت نہ ہو، قانون کی جگہ پریوار کی چلتی ہو اور پوری پارٹی اسی کے گرد گھومتی ہو، وہاں ایسے مناظر انوکھے اور نئے نہیں ہیں۔ این ٹی راما رائو کے ساتھ ان کے داماد نے یہی کیا تھا اور یہاں خون کا سب سے قریبی رشتہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ طے شدہ اسکرپٹ ہے، اس پر بھونڈے انداز میں عمل ہوا یا معاملہ ڈائریکٹر کے ہاتھ سے تھوڑا سا نکل گیا اور کہانی بکھر گئی، جتنے منھ اتنی باتیں۔
دنیا اقتدار کو سلام کرتی ہے۔ خود غرض، مفاد پرست، دھوکہ بازوں کی فطرت رکھنے اور کپڑوں کی طرح وفاداری بدلنے والے چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں، جو لوگ کل تک ملائم سنگھ زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے، انہیں اب اپنا مستقبل بلاشبہ اکھلیش کی قیادت میں محفوظ نظر آئے گا اور یہ بعد نہیں کہ جب ان کا مستقبل یقینی ہوگا تو وہ اسے پوری ریاست اور مسلمانوں کے لئے بھی یقینی ہونے کا دعویٰ کریں گے۔ جن لوگوں کو ملائم نے ذرہ سے آفتاب بنایا وہ بھی ’وقت‘ کی آواز سن کر ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ کرسی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اس جنگ میں بھلے ہی اکھلیش یادو جیت گئے، لیکن سماج وادی پارٹی ہار گئی، اس کی ساکھ مجروح ہوئی، اعتماد شکنی ہوئی اور غیر جانبدار عام آدمی جو ووٹ ڈالنے جاتا ہے اس کا بھروسہ بھی ڈگمگا گیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ کوئی اور متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کرے یا گھر بیٹھ جائے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اکھلیش نے ’شہید‘ ہونے کا موقع کھودیا۔
اب نئی دکان سج گئی ہے، وفاداران ملائم سنگھ اور محبان و بانیان ٹیکٹیکل ووٹنگ اپنے اوزار درست کرنے میں لگ گئے ہیں۔ ان کی طرف سے کوئی حکمنامہ یا قوم و ملت کے حق میں پسندیدہ امیدواروں کی فہرست جاری ہوگی اور یہ خارج از امکان نہیں کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے اکھلیش کو جتانے کی اپیلیں مختلف سیاسی خانقاہوں اور سیاسی سجادہ نشینوں کی طرف سے اخبارات کی زینت بننے لگیں اور اب غلامی کا یہ پٹہ اکھلیش کے نام میں تبدیل ہوجائے۔ کانگریس کو منھ بھرکر کوسنے والے، گالیاں دینے والے اور گالیاں کھانے والے بے شرمی و بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ساتھ اس لیے آجائیں گے کہ ان کی چمڑی بچ جائے، ان کی گردن سلامت رہے۔ ہمیں نادیدہ خوف سے ڈرا ڈرا کر اقتدار کے مزے لوٹیں۔
مودی نے نوٹ بندی کے نام پر گھر کی گلک تک بینک میں جمع کرالی۔ ہمارا ووٹ سیکولر لٹیروں نے دہائیوں قبل اپنے مفادات کے لاکر میں بند کر رکھا ہے، وہ اس کے بلاشرکت غیر نے مالک ہیں ذہنی غلامی کی روش کبھی غیرت کا تاج نہیں پہناتی، وہ ٹھوکروں میں رکھتی ہے۔ ہمارے کچھ سکہ بند لیڈروں نے نہ حالات سے سبق سیکھا نہ انجام سے ، وہ گجرات کو سینہ کھول کر پیٹتے رہے، مظفر نگر بھلانے کا اپدیش دیتے رہے۔ گجرات کے قصوروار سے ملنا گوارہ نہیں کرتے، مظفر نگر کے قصورواروں کے یہاں حاضری دینے میں غیرت و فخر محسوس کرتے اوراپنی قربت کی تشہیر بھی کراتےہیں، ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ آپ مظفر نگر، دادری، ضیاء الحق کو بھول جائیں، قومی مفاد میں سوچیں، ایک موقع اور دیں،کیونکہ ہمیں غور کرنے اور اپنی پسند پر مہر لگانے کا حق نہیں۔ یہ دکان سجائیں، فارمولہ طے کریں، ہمارے سینے کھود کر کلیجہ چبانے والوں سے ہاتھ ملا لیں۔ انتخابی سمجھوتہ میں آپ کی رائے تک لینا گوارا نہ سمجھیں، پھر گٹھ جوڑ کر کے فرمان جاری کریں کہ اب بی جے پی کو ہرانے کے لئے ہمارے ساتھ آجائیے ورنہ آپ کا سیکولرزم پر ایمان کسوٹی پر ہوگا۔ بی جے پی کو ہرانے کی ذمہ داری صرف مسلمان کیوں اٹھائے، وہ مرکز اور دیگر ریاستوں میں برسراقتدار آئی تو اس کے ذمہ دار آپس میں دست و گریباں سیکولرزم کے سپہ سالار نہیں ہیں؟ آخر بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی کیوں نہیں مل جاتے، کیونکہ دونوں بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں۔ کانگریس اور ممتا کیوں نہیں ملتے، لیفٹ کیوں الگ ہے۔یہ کیوں منافقت برتتے ہیں۔ ہم سے مطالبہ ہے کہ متحد ہوکر ووٹ ڈالیں، ہمیں بھی دوسر کے اتحاد کی بڑی فکر ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں، سب کو اپنی فکر ہے ، کسی کو ہماری آپ کی فکر نہیں ہے۔ وہ بوقت ضرورت دوست اور دشمن بناتے ہیں، آپ بھی بنائیے۔ حدوں سے نکلنا سیکھنا ہوگا، حد میں تو پانی بھی سڑاند دینے لگتا ہے۔ یہ عقیدہ ایمان کا نہیں سیاسی ضرورتوں اور سمجھوتوں کا ہے۔ بی جے پی کو ہرانے کا پرفریب نعرے کی آڑ میں ذاتی مفادات کا کاروبار کرنے والے یہ کھیل بند کردیں۔ ملت پر بڑا احسان ہوگا۔ ہراتے ہراتے مرکز تک تو پہنچا دیا، سیاست بڑی بے رحم شے ہے یہ خونی رشتوں کو پائوں تلے روندتی ہے۔ بوڑھے باپ اور چچا کا بھی لحاظ نہیں کرتی تو کیا وہ سیاست میں ہم سے باندھے گئے عارضی رشتوں کا تقدس برقرار رکھے گی۔ اقبال نے کہا ہے : اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے، ورنہ بہانوں کا کفن اوڑھ کر بے حس کے قبرستان میں سو رہئے۔

SHARE