کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں

عمر گوتم کے بعد مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری یعنی بھارت بہو سنکھیک واد کی طرف تیزی سے جارہا ہے

کلیم الحفیظ، نئی دہلی
جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو خدا کی طاقت کو للکارنے لگتا ہے نمرود، فرعون، ہامان، شداد، ابولہب اور ابو جہل سے لے کر آج تک سب کا یہی حال رہا ہے ، اللہ کا نام لینے والوں اور اس کا پیغام عام کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے دراصل خدا کے پیغام کی آفاقیت اور صداقت سے خوف کھاتے ہیں ۔ لیکن انھیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ خدا کا پیغام غالب ہوکر ہی رہا ہے اور ہرزمانے کے فرعون کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے، جیسا کہ ہم عدالتوں کے ذریعے دس، پندرہ سال جیل میں اذیتیں سہنے کے بعد باعزت رہا ہونے والوں کو دیکھ رہے ہیں یہاں تک سپریم کورٹ کو اکشردھام کیس میں کہنا پڑا کہ بے گناہوں کو پولس کے ذریعے پریشان کیا جارہا ہے۔
خدا کا نام لینا انسان کا بنیادی حق ہے۔بی جے پی کے اقتدار کے بعد ہی یہ احساس ہوگیا تھا کہ بھارت میں مذہب سے متعلق شہریوں کے بنیادی حقوق غصب ہونے والے ہیں۔ تبدیلی مذہب قانون میں ترمیم و تنسیخ ہندتوا کے علمبرداروں کے اس عزم کا اعلان تھا کہ اب بھارت میں انسانوں کو اپنی پسند کا مذہب قبول کرنے کی آزادی نہیں رہے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی والی ریاستوں میں مختلف عناوین کے تحت اسمبلیوں میں بل لائے گئے ،منظور ہوئے ، جہاں منظور نہ ہوسکے وہاں آرڈینینس لایا گیا ، اور مذہب کو بدلنے خاص طور پر اسلام اور عیسائیت کو قبول کرنے پر قدغن لگائے گئے۔
تبدیلی مذہب کی مخالفت کا یہ سلسلہ سنگھ کی بنیادی پالیسی کا حصہ ہے۔ جب وہ حکومت میں نہیں تھے تب بھی وہ اس کے خلاف تھے اور ’لو جہاد‘ کے نام پر ہنگامہ کیا کرتے تھے۔لیکن اُس وقت وہ قانون سازی نہیں کرسکتے تھے اب وہ قانون سازی بھی کررہے ہیں اور اس قانون کو ہر طرح سے نافذ بھی کررہے ہیں ۔کلیم صدیقی صاحب ہوں یا عمر گوتم ہوں یہ لوگ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے ۔یہ ان کا آئینی حق ہے ۔لیکن کسی کو زبردستی یا لالچ یا ڈرا دھمکا کر اسلام قبول کرانے کا الزام اس لیے غلط ہے کہ ان دونوں حضرات کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے اللہ ناراض ہوجائے گا ۔یعنی جس خدا کا وہ کلمہ پڑھوائیں گے وہی نہیں چاہتا کہ کوئی لالچ یا خوف سے اس کا کلمہ پڑھے۔نہ ایسے اسلام قبول کرنے والوں کا کوئی فائدہ ہے نہ کرانے والوں کا بلکہ وہ خدا اور قانون دونوں کی نظر میں مجرم ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آرایس ایس اور اس کی ہم نوا تنظیمیں ایسا کیوں کررہی ہیں ؟ بعض لوگ اسے ایک انتخابی ہتھکنڈہ کہہ رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک کیوں کہ یوگی حکومت نے وکاس کا کوئی کام نہیں کیا ہے اور کسان آندولن کی وجہ سے اس کا ووٹ بینک کھسک رہا ہے اس لیے وہ ہندوؤں کو پولرائز کرنے کے لیے ایسا کررہے ہیں ۔یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے مگر اس کی بنیادی وجہ سنگھ کی وہ پالیسی اور پروگرام ہے جس میں اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا ہدف ہے ۔سنگھ کا ماننا ہے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے ،یہاں مسلمان حملہ آور کے طور پر آئے تھے،انھوں نے یہاں کے باشندوں کو لالچ اور خوف سے مسلمان بنایا تھا اور راج کیا تھا۔اس کے بعد یہی عمل عیسائیوں نے کیا ۔اس لیے سنگھ چاہتا ہے کہ اب اس ملک کو ہندو راشٹر بننا چاہئے ۔مسلمانوں کے تعلق سے ان کا یہ بیان کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ابھی چند ماہ پہلے ہی سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ یہ بنیادی سبب ہے اسلام کے داعیوں کی گرفتاری کا۔سنگھ کے قیام اور اس کے جملہ پروگراموں کا مرکزی موضوع ہی یہ ہے کہ یہ ملک ہندو راشٹر ہے۔ اسی کو وہ پراچین سبھیتا، رام راجیہ، راشٹر بھکتی، ہندتوا وغیرہ کئی ناموں سے پیش کرتے ہیں۔ ان کا پورا تعلیمی نظام اسی کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اُن کا سارا لٹریچر اسی کا احاطہ کرتاہے ۔انھوں نے اس کام کے لیے سو سے زیادہ تنظیمیں بنائی ہیں ۔ہزاروںشاکھائیں اور لاکھوں کارسیوک ہیں جو دن رات یہی کام کررہے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے بابری مسجد گرائی گئی اور رام مندر بنایا گیا ، اسی کے لیے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا گیا۔ اسی کے پیش نظر دھرم پریورتن بل لائے گئے اور اسی ضمن میں خدا کانام لینے والوں کی گرفتاریاں ہیں۔ پولرائزیشن تو ان تمام سرگرمیوں کا ضمنی فائدہ ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر موجودہ حالات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ مگر معاف کیجیے مقابلہ تو وہ قوم کرسکتی ہے جو مقابلہ کے لیے تیار ہو ۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ قوم کی اکثریت مد مقابل کے پروگرام اور منصوبوں سے ہی ناواقف ہے ،جو لوگ واقف ہیں ان میں سے زیادہ تر اسے چناوی ہتھ کنڈہ مان رہے ہیں۔ جو لوگ حقیقت جانتے ہیں اور اہل علم ہیں وہ آپس میں ہی دست بہ گریباں ہیں ۔ آپ 27ستمبر کے اردو اخبارت اٹھا کر دیکھیے امارت شریعہ بہار میں اقتدار کو لے کر کس طرح کا دنگل ہے کہ جنگ روکنے لیے پولس کو مداخلت کرنا پڑی، وہ ادارہ جو شریعت کی روشنی میں دوسروں کے مسائل حل کرنے کے لیے قائم ہوا تھا آج خود ہی اپنے امیر کا انتخاب نہیں کرسکتا اور یہ صرف امارت شریعہ کے لیے ہی خاص نہیں ہے قارئین ملک کی مؤقر تنظیموں اور اداروں سے واقف ہیں کہ ان کے دو لخت ہونے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔جب ملت کے رہبر اس حال کو پہنچ چکے ہوں تو عوام کا شمار کیا کریں۔پھر کس طرح ہم امید کریں کہ سنگھ کی پالیسیوں اور سازشوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ اللہ بڑا کارساز ہے وہ قادر مطلق ہے وہ سب ٹھیک کردے گا۔ اللہ کی ان صفات پر کامل ایمان رکھتے ہوئے مجھے اللہ کی یہ سنت بھی معلوم ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
راقم نے مولانا عمر گوتم کی گرفتا ری پر بھی لکھا تھا کہ امت کا ردعمل مایوس کن ہے اور مشورہ دیا تھا کہ مسلم تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارموں مثلاً مسلم پرسنل لاءبورڈ،مسلم مجلس مشاورت، ملی کونسل وغیرہ کے تحت کوئی مشترکہ اور ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے۔قانون دانوں پر مشتمل ایک لیگل سیل ہو جو ایک طرف غیر آئینی گرفتاریوں پر اعلیٰ عدالت سے رجوع کرے اوردوسری طرف نرسنگھ آنندجیسے لوگوں کی گرفتاریوں کو یقینی بنائے جو سماج کے لیے ناسور ہیں ۔ ٹی وی چینلوں پر ”مذہب کا انتخاب انسان کا بنیادی حق ہے “ موضوع پر مباحثے ہوں،اس کام میں دیگر مذاہب کے علماءاور دانشوروں کو ساتھ لیا جائے۔ وہ لوگ جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے اور وہ بڑے عہدوں پر ہیں انھیں باہر لایا جائے ان کے ذریعے پریس کانفرنس کرائی جائے۔ ہندو تنظیموں کی شدھی کرن تحریک اور گھر واپسی کے نام پرظلم و زیادتی کی کارگزاریاں اجاگر کی جائیں۔بھارتی آئین پر یقین رکھنے والی سیاسی لیڈر شپ کو متحد کیا جائے۔ان کے ذریعے آواز بلند کی جائے ۔مجھے نہیں معلوم کہ میری ان گزارشات کا کیا حشر ہوا ۔مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ سلسلہ دراز ہونے والا ہے ۔ ابھی انفرادی طور پر دعوت کا کام کرنے والوں کو جیل میں ڈالا جارہا ہے اس کے بعد تنظیموں اور انجمنوں کا نمبر آسکتا ہے۔
میرے عزیزو! یہ وقت آپس میں لڑنے اور الزام لگانے کا نہیں ہے۔ یہ وقت کسی کے مسلک اور طریقہ کار پر تنقید کرنے کا نہیں ہے بلکہ یہ وقت خود احتسابی کا وقت ہے ۔ یہ طے کرنے کا وقت ہے کہ ہم اپنے زوال کو کس طرح روکیں؟ اپنی صلاحیتوں سے کس طرح قوم اور ملک کو فائدہ پہنچائیں ؟ جو تجاویز راقم نے پیش کی ہیں اہل دانش سے ان پر توجہ کرنے کی گزارش ہے۔ قانون کا مقابلہ قانون سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ علماء امت کی گرفتاریاں غیر قانونی ہیں مگر ان کی رہائی محض پریس ریلیز جاری کرکے نہیں ہوسکتی۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

رابطہ: 9897565066

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں