شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندو سماج میں ایک عرصہ سے مذہب کی تبدیلی کا سلسلہ جاری ہے ، ہندو مذہب میں بنیادی طور پر کوئی ایسا ٹھوس عقیدہ نہیں پایا جاتا ، جس کو ہندو عقیدہ اور آئیڈیا لوجی کا نام دیا جاسکے ، جو لوگ ’’ رام ‘‘ کو بھگوان اور خدا مانتے ہوں، وہ بھی ہندو ہیں، اور جوگ ’’ راون ‘‘ کو خدا قرار دیتے ہیں اور رام کو بُرا بھلا کہتے ہیں، وہ بھی ہندو مذہب ہی کے علمبردار ہیں، اور نہرو وغیرہ جیسے دانشور جو مورتی پوجا اور دیوی دیوتاؤں کے وجود کو توہم پرستی قرار دیتے ہیں، وہ بھی ہندو ہیں ، توہم پرستی ہی کے نتیجے میں طبقاتی تقسیم ہندو عقیدہ کا اٹوٹ جزء ہے اور اسی لئے ہندستان میں ہزاروں سال سے دبے کچلے ہوئے لوگوں کا احساس ہے کہ ہندو مذہب در اصل مذہبی قالب میں ’’ برہمن واد‘‘ کی حفاظت سے عبارت ہے ، اس نظام نے صدیوں سے دلت اور پست طبقات کو اپنے طاقتور پنجہ میں دبا رکھا ہے ، جب بھی انھوں نے انگڑائی لینے کی کوشش کی ، نہایت ذہانت کے ساتھ ان پر اپنی گرفت اور مضبوط کردی گئی ۔
حالاں کہ ہمارا موجودہ جمہوری ڈھانچہ ذات پات کے تصور کی نفی کرتا ہے ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی برہمنوں کی تعداد تو چار ، پانچ فیصد سے زیادہ نہیں؛ مگر حکومت کے کلیدی عہدوں پر ان کی تعداد ۶۴ فیصد ہے ، سیاسی تبدیلیوں سے چہرے بدلتے ہیں ؛ لیکن اس حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، آج تک پست اقوام میں کوئی شنکر اچاریہ اور مٹھ کا سربراہ نہیں بن سکا ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندو قوم میں یہ مسئلہ محض ایک سماجی مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کی جڑیں عقیدہ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں ، ان حالات نے دبے کچلے لوگوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ہندو ازم کے اس قید خانے سے اپنے آپ کو باہر نکالیں اور باعزت انسان کی طرح سماج میں زندہ رہیں ، اس کے لئے مشہور رہنما امبیڈکر نے بودھ ازم کو قبول کیا ؛ لیکن جلد ہی سمجھ دار اور باشعور لوگوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ یہ شراب کو آب سمجھنے کے مترادف ہے، بدھسٹ سماج کو ہندو سماج نے اس طرح اپنے اندر جذب کر لیا ہے کہ گویا یہ قید خانہ کی ایک کوٹھری سے نکل کر دوسری کوٹھری میں داخل ہونا ہے ، وہی سماج، وہی تہذیب، وہی رسوم و رواج ، بس خداؤں میں ایک خدا کا اضافہ یا کچھ دیوتاؤں کی تبدیلی ، یہاں تک کہ دستورِ ہند کے مطابق بھی اس تبدیلیٔ مذہب کے باوجود وہ ہندو ہی شمار کیا جاتا ہے ، لوگ یہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ جن مذاہب کی پیدائش اور نشوو نما ہندوستان کی سر زمین میں ہوئی ہے ، برہمنوں نے اپنی ذہانت سے ان کا ایسا ’’ ہندو کرن ‘‘ کر دیا ہے ، کہ اب کسی کے لئے ان مذاہب میں سے کسی کو اختیار کرنے کے باوجود ہندو سماج کے مظالم سے نجات پانا اور انصاف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
بعض لوگ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس ملک میں جبرا تبدیلیٔ مذہب کرایا ہے ؛ لیکن یہ ایسا جھوٹ ہے کہ خود عقل عام اس کو جھٹلا تی ہے ، ہندوستان کے جنوبی اور ساحلی علاقوں میں تو اسلام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں آچکا تھا اور نہ صرف پَرْجَا بلکہ بعض راجاؤں نے بھی اسلام قبول کیا تھا ، اس وقت یقیناً درۂ خیبر سے کوئی فوجی قافلہ ہندوستان نہیں پہنچا تھا ، اس وقت جبر و دباؤ کی کیا گنجائش ہو سکتی تھی ؟ پھر غو ر کیجئے کہ مسلمانوں نے اس ملک کے مختلف حصوں پر کم و بیش آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے ، آج جب حکومت کے بغیر ہندو سماج میں تبدیلیٔ مذہب کا طوفان اُٹھا ہوا ہے اور کئی ریاستوں میں آبادی کا توازن بدل چکا ہے ، تو اگر اتنا طویل عرصہ جبر و دباؤ سے کام لیا جاتا تو کیا یہ ملک مسلم اکثریت نہیں بن گیا ہوتا ؟ حقیقت یہ ہے کہ جبرو دباؤ تو الگ چیز ہے ، مسلمان حکمرانوں نے تو عام طور پر اسلام کی تبلیغ ودعوت کی طرف بھی توجہ نہیں کی اور انتہائی تغافل برتا ، ورنہ اگر اس سلسلہ میں تھوڑی بھی کوشش کی جاتی تو اسلام کی کشش ہی لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے کافی ہوتی ۔
اس لئے بے چین اور بے قرار ذہن و فکر رکھنے والوں کے لئے دو ہی راستے رہ گئے ہیں : عیسائیت یا اسلام ، اس سے کسی حقیقت پسند غیر مسلم کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ اسلام کے عقائد واُصول جتنے صاف و شفاف ، عقل و فطرت سے ہم آہنگ ، متوازن اور انسانی ضروریات کے لئے موزوں اور مناسب ہیں ، کسی اور مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی ، جس کا خلاصہ ہے: اللہ کی وحدت اورانسانوں کی وحدت ، یہ اسلام کا انقلابی تصور ہے اور دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ، اگر خدا ایک ہے ، اس کا کوئی خاندان و کنبہ نہیں، اور کسی انسانی طبقہ سے اس کی قرابت مندی اوررشتہ داری نہیں تو اس سے خود بخود انسانی وحدت اور مساوات کا تصور اُبھرتا ہے ، پھر اسلام میں کوئی عقیدہ ’’ پہیلی‘‘ کی طرح نہیں ہے کہ اس کا سمجھنا مشکل اور سمجھانا مشکل تر ہو ، جیساکہ ہمارے عیسائی بھائیوں کے یہاں ایک میں تین اور تین میں ایک کا تصور (Concept of the Trinity) ہے ، یا ’’ عقیدۂ کفارہ ‘‘ (The Atanement) ہے کہ غلطی کوئی کرے اور سزا حضرت مسیح ں کو جھیلنی پڑے ، اسی لئے مسلمان حالاں کہ اس ملک میں بہت تھوڑی تعداد میں آئے ؛ لیکن اس ملک کے باشندوں نے جو طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ظلم وجور سے دو چار تھے اور برہمنوں کو نذرانہ دیتے دیتے عاجز آچکے تھے ، انھوں نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہا ، افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش اور برما تک جو مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے وہ اسلام کی اسی کشش کا نتیجہ ہے !
بعض لوگ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس ملک میں جبرا تبدیلی ٔ مذہب کرایا ہے ؛ لیکن یہ ایسا جھوٹ ہے کہ خود عقل عام اس کو جھٹلا تی ہے ، ہندوستان کے جنوبی اورساحلی علاقوں میں تو اسلام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے عہد میں آچکا تھا اور نہ صرف پَرْجَا بلکہ بعض راجاؤں نے بھی اسلام قبول کیا تھا ، اس وقت یقیناً درۂ خیبر سے کوئی فوجی قافلہ ہندوستان نہیں پہنچا تھا ، اس وقت جبر و دباؤ کی کیا گنجائش ہو سکتی تھی؟ پھر غو ر کیجئے کہ مسلمانوں نے اس ملک کے مختلف حصوں پر کم و بیش آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے ، آج جب حکومت کے بغیر ہندو سماج میں تبدیلیٔ مذہب کا طوفان اُٹھا ہوا ہے اور کئی ریاستوں میں آبادی کا توازن بدل چکا ہے ، تو اگر اتنا طویل عرصہ جبر و دباؤ سے کام لیا جاتا تو کیا یہ ملک مسلم اکثریت نہیں بن گیا ہوتا ؟ حقیقت یہ ہے کہ جبرو دباؤ تو الگ چیز ہے ، مسلمان حکمرانوں نے تو عام طور پر اسلام کی تبلیغ ودعوت کی طرف بھی توجہ نہیں کی اور انتہائی تغافل برتا ، ورنہ اگر اس سلسلہ میں تھوڑی بھی کوشش کی جاتی تو اسلام کی کشش ہی لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے کافی ہوتی ۔
اسلام کے بعد اس ملک کے لوگوں کے لئے زیادہ قابل توجہ مذہب عیسائیت ہے اوراس میں شبہ نہیں کہ پچھلے سو سال میں ہندؤوں کی بہت بڑی تعداد نے عیسائیت کو قبول کیا ہے ،کئی ریاستوں میں تو عیسائیت اکثریتی مذہب بن گیا ہے، میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ دو ہے: ایک تو مادی وسائل کا استعمال ، ہسپتال ، درسگاہیں اور معاشی فلاح کے مراکز کے قیام و انتظام نے عیسائیت کو اس بات کا موقع فراہم کیا کہ مقامی آبادی میں اثر و نفوذ حاصل کرے اور ان میں داخل ہو سکے ، دوسرے اگرچہ عیسائیت کو ایک عالمی مذہب اور ترقی یافتہ قوم کا مذہب ہونے کی وجہ سے ہندو ازم کے ساتھ مکمل طور پر جذب نہیں کیا جاسکتا ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عیسائیت کا کوئی سماجی تشخص ، نہیں ہے ، شادی ، بیاہ ، سماجی رسم و رواج وغیرہ میں وہ ہندو سماج ہی کا ایک حصہ بن گئے ہیں ، ان کے پاس حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی مکمل نظامِ حیات نہیں ہے، جو ان پر قیود و حدود عائد کرتا ہو اور اپنے پہلے معمولات سے روکتا ہو ، اکثر اوقات تو نام بھی تبدیل نہیں کئے جاتے ، بس کچھ تہواروں کا فرق ہوتا ہے ، شرک پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے ، مورتی کی پرستش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے ، اس لئے جب کوئی ہندو عیسائی مذہب قبول کرتا ہے تو اسے بہت ہی معمولی تبدیلیوں سے گذرنا پڑتا ہے ، اس کی عملی زندگی میں تو کوئی انقلاب آتا ہی نہیں ہے، اور اسے فکر و عقیدہ کے اعتبار سے بھی کسی غیر معمولی تبدیلی سے گذرنا نہیں پڑتا ۔
اسلام مذہب کے معاملہ میں ایسی دو رنگی اور دو عملی کوروا نہیں رکھتا ، اسلام قبول کرنے کا مطلب خداؤں میں ایک خدا کا اضافہ نہیں ؛ بلکہ اللہ سے رشتہ جوڑ کر تمام توہمات سے رشتہ توڑنا ہے ، اس کی عبادتیں الگ ہیں ، اس کے تہوار الگ ہیں ، وہ غیر مسلم خاندانوں سے شادی بیاہ کا تعلق قائم نہیں رکھ سکتا ، وہ ایمان لانے کے بعد اپنے والدین کے ترکہ سے حصہ نہیں پاسکتا ، اس کو کھانے ، پینے ، خریدنے ، بیچنے ، کمانے غرض زندگی کے ہر شعبہ میں حلال و حرام کی حدیں قائم کرنی پڑتی ہیں اور حرام سے بچنا پڑتا ہے ، دین یقینا آسان ہے ؛ لیکن جو نفس کی ہر خواہش پر لبیک کہنے کا عادی بن چکا ہو ، اس کے لئے حق پر گامزن ہونا لوہے کا چنا چبانے کے مترادف ہے ، گویا مسلمان ہونے کے بعد انسان ایک سماج سے دوسرے سماج کی طرف ہجرت کرتا ہے ، اس لئے یہ پھولوں کی سیج نہیں ؛ بلکہ کانٹوں کا فرش ہے ، اسی بنا ء پر جو لوگ خدا سے ڈر کر سچائی اورحقیقت کی تلاش کے جذبے سے معمور ہو کر اور عزم و ارادہ کی قوت سے مسلح ہو کر قدم اُٹھانا چاہیں ، وہی اس راہ پر آسکتے ہیں ، کسی بھی شخص کو حقیر ، معمولی اور مادی مقاصد کے تحت اس راہ میں آبلہ پائی کا حوصلہ نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ ایک تو ان مشکلات اور دوسری طرف دعوتِ اسلام کے کاموں سے غفلت کی بناء پر آزاد ہندوستان میں عیسائیت کی طرف ہندو سماج کا رجوع زیادہ ہوا ہے ۔
ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے ، جو ہر شخص کو اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے ؛ چنانچہ دستورِ ہند کے بنیادی حقوق کی دفعہ : ۲۵ میں تمام شہریوں کے لئے آزادیٔ ضمیر ، آزادی سے مذہب پر عمل کرنے کا اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق شامل ہے ، اس لئے سنگھ پریوار کا ’’ دھرم پری ورتن ‘‘ پرچیں بہ جبیں ہونا یقینا ہندوستان کے دستور سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے ، اپنی بیماری کو دور کرنے کے بجائے ان لوگوں کو بُرا کہنا جو بیماری کو بیماری سمجھتے ہیں ، بے وقوفی ہی کہی جاسکتی ہے ۔
اسلام نے بھی ضمیر و اعتقاد کی آزادی کو تسلیم کیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرمایا کہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ واضح ہو چکی ہے ؛ لہٰذا دین کے معاملہ میں کوئی جبر و دباؤ نہیں ہے : لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ( البقرۃ : ۲۵۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صاف ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام صرف نصیحت کرنا ہے ، آپ داروغہ نہیں ہیں کہ ان کو اپنی بات ماننے پر مجبور کردیں : اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیہ : ۲۱-۲۲) ایک موقع پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسان ہی مومن ہو جاتے ، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دیں گے ؟: اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ ( یونس : ۹۹) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی کہ اگر وہ آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، آپ پر تو محض یہ ہے کہ پیغامِ ہدایت کو صاف صاف اور کھلے طور پر پہنچا دیں اور بس : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ (النحل : ۸۲) آپ سے فرمایا گیا کہ جو لوگ کفر پر بہ ضد ہیں، ان سے کہہ دو کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین : لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْنْ (الکافرون: ۶) ایک اور موقع پر آپ کی زبان سے کہلا گیا کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال : لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ( الشوریٰ : ۱۵)، غرض عقیدہ و ضمیر کی آزادی کا قائل اسلام بھی ہے ، وہ کسی شخص کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتا ۔
اس وقت دعوت اسلام کا کام کرنے والی بعض شخصیتوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، دعوت کے کام کو جبر ودباؤ یا مالی تحریص کے ذریعہ دھرم پریورتن کا نام دینا سفید جھوٹ اور کھلی ہوئی زیادتی ہے، ہندوستان اور بالخصوص ریاست اترپردیش میں کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مسلمان یا عیسائی زور زبردستی سے کسی ہندو کا مذہب تبدیل کرا دے اور مسلمان جو بنیادی ضروریات کے لئے محتاج ہیں، کیا وہ پیسوں کے بَل پر برادران وطن کا مذہب تبدیل کرا سکتے ہیں؟ یہ صرف ایک پروپیگنڈہ اور سچائی کا قتل ہے ، جو میڈیا اور سرکاری ادارے کر رہے ہیں، اور اس کا مقصد نفرت پھیلانا اور ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ سے لڑانا ہے، جو سازشیں سنگھ پریوار کے لوگ اقلیتوں کے خلاف کر رہے ہیں، اگر وہ اس کی بجائے ہندو سماج کی اصلاح کی طرف دیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ مفید ہوتا۔