نئی دہلی: (ایجنسی) کیرل کے صحافی صدیق صدیق کپن کے بارے میں اتر پردیش پولیس نے کہا ہے کہ وہ ایک ’ذمہ دار‘ صحافی نہیں ہے اور ’صرف ‘مسلمانوں‘ کو بھڑکانے کے لیے رپورٹ کرتے ہیں۔ یوپی کی اسپیشل ٹاسک فورس ( اس ٹی ایف) نے کپن کے خلاف دائر حلف نامہ میں یہ بھی کہاہے کہ وہ ’ ماؤ نوازوں اور بائیں بازو کی حمایت‘ میں لکھتے تھے ۔
صدیق کپن کو ان کے ساتھ مسعود احمد، محمد عالم اور عتیق الرحمٰن کے ہمراہ گزشتہ سال پانچ اکتوبر کو یمنا ایکسپریس وے کے راستے ہاتھرس جاتے وقت مانٹ ٹول پلازہ پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے معاملے کی رپورٹنگ کرنے جارہے تھے ۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، تقریباً 5,000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں تفتیشی افسر کے ذریعے 23 جنوری 2021 کو تحریر ی ایک نوٹ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جس میں کپن کے ذریعہ ملیالم میڈیا ہاؤس کے لیے لکھے گئے 36 مضامین کا خلاصہ کیا گیا ہے ۔
پولیس نے ان پر دہلی فسادات کے دوران انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے افسر انکت شرما اور ہیڈ کانسٹیبل رتن لال کی ہلاکتوں کو چھپانے کی کوشش کرنے اور معطل آپ کونسلر طاہر حسین کی مبینہ رول کو کم کرنے کا بھی الزام لگایا ۔
یو اے پی اے کے تحت درج مقدمہ میں الزام لگایا گیا تھاکہ کپن اور ان کے معاون ساتھی ہاتھرس اجتماعی عصمت دری و قتل معاملے کے مدنظر فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ کپن عدالتی تحویل میں ہیں ۔ بعد میں متھرا کی مقامی عدالت نے کیرل کے کپن اور تین دیگر لوگوں کو امن میں خلل ڈالنے کے الزام سے گزشتہ 15 جون کو آزاد کردیا تھا۔ کیونکہ پولیس اس معاملے کی جانچ مقررہ چھ مہینے میں پورا نہیں کرپائی۔ گزشتہ جولائی مہینے میں ایک نچلی عدالت نے کپن کی ضمانت عرضی خارج کردی تھی۔