چیف جسٹس این وی رمنا ملک میں پولیس افسران کے رویہ سے فکرمند

سی جے آئی رمنا نے ایک سینئر پولیس افسر کے خلاف مجرمانہ معاملے میں سماعت کے دوران پولیس افسران کے رویہ پر فکر کا اظہار کیا، رمنا شکایتوں کے لیے پینل بنانے پر بھی غور کر چکے ہیں۔
ہندوستان کے چیف جسٹس این وی رمنا نے جمعہ کو ایک سماعت کے دوران زبانی طور پر کہا کہ انھوں نے نوکرشاہوں، خصوصاً پولیس افسران کے خلاف مظالم اور شکایتوں کی جانچ کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جج کی صدارت میں ایک پینل بنانے کے بارے میں سوچا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے اس تعلق سے بہت سارے اعتراض ہیں، نوکرشاہی، خصوصاً اس ملک میں پولیس افسران کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔‘‘
چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ ’’میں ایک وقت ہائی کورٹ کے چیف جج کی صدارت میں نوکرشاہوں، خصوصاً پولیس افسران کے خلاف مظالم اور شکایتوں کی جانچ کے لیے ایک اسٹینڈنگ کمیٹی بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں اسے ریزرو رکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ سی جے آئی نے ایک سینئر پولیس افسر کے خلاف مجرمانہ معاملے کی سماعت کے دوران یہ تبصرہ کیا۔ معاملے پر سماعت کر رہی بنچ میں سی جے آئی کے علاوہ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہما کوہلی بھی شامل تھے۔ بنچ چھتیس گڑھ کے معطل ایڈیشنل پولیس ڈائریکٹر جنرل گرجندر پال سنگھ کے ذریعہ داخل عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس میں ان کے خلاف مجرمانہ معاملوں میں گرفتاری سے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان پر ملک سے غداری، جبراً وصولی اور آمدنی سے زیادہ ملکیت کے سنگین الزامات ہیں۔
اس معاملے میں عدالت عظمیٰ نے 27 ستمبر کو گرجندر پال سنگھ کے وکیل سے کہا تھا کہ ان کے موکل ہر معاملے میں گرفتاری سے تحفظ نہیں لے سکتے ہیں۔ گزشتہ سماعت میں سی جے آئی نے کہا تھا کہ آپ ہر معاملے میں سیکورٹی نہیں لے سکتے۔ آپ نے پیسہ وصولنا شروع کر دیا، کیونکہ آپ حکومت کے قریب ہیں۔ یہی ہوتا ہے اگر آپ حکومت کے قریب ہیں اور ان چیزوں کو کرتے ہیں تو آپ کو ایک دن واپس ادائیگی کرنی ہوگی۔ جب آپ حکومت کے ساتھ اچھے ہیں، آپ وصولی کر سکتے ہیں، لیکن آپ کو سود کے ساتھ ادائیگی کرنی ہوگی۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے تبصرہ کیا تھا کہ اس طرح کے پولیس افسران کی حفاظت نہیں کی جانی چاہیے، بلکہ انھیں جیل میں ہونا چاہیے۔ وہیں 26 اگست کو عدالت عظمیٰ نے زبانی طور پر ایک پریشان کرنے والی روش کی طرف اشارہ کیا تھا، جہاں پولیس افسر، اقتدار میں پارٹی کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں اور بعد میں جب ایک اور سیاسی انتظام برسراقتدار ہوتا ہے تو انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’’جب کوئی سیاسی پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے، تو پولیس افسر اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ پھر جب کوئی نئی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو حکومت ان افسران کے خلاف کارروائی شروع کرتی ہے۔ یہ ایک نئی روش ہے جسے روکے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘
چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف عدالت عظمیٰ کے سامنے تین خصوصی اجازتی عرضیاں داخل کی گئی ہیں، جہاں عدالت نے سنگھ کے خلاف ایف آئی آر رد کرنے سے انکار کر دیا۔ گرجندر پال سنگھ کے خلاف ریاست کے انسداد بدعنوانی بیورو کے ذریعہ تحریری شکایت کے بعد معاملہ درج کیا گیا تھا۔ ان پر لزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے آمدنی سے زیادہ ملکیت جمع کی ہے۔ ان کے پاس سے کچھ دستاویز ضبط کیے گئے جو حکومت کے خلاف سازش میں ان کے شامل ہونے کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔