نئی دہلی: (پریس ریلیز) انڈین یونین مسلم لیگ (آئی ایو ایم ایل) کے اراکین پارلیمان ای ٹی محمد بشیر، پی وی عبدالوہاب، ایم پی عبدالصمد صمدانی، کے نواز غنی نے گزشتہ 24ستمبر کو مشترکہ طور پر عزت مآب صدر ہند، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور قومی انسانی حقوق کمیشن کو آسام معاملے پر ایک مکتوب روانہ کیا ہے۔ مکتوب میں کہاگیا ہے کہ آسام ریاستی حکومت کی طرف سے 23ستمبر کو گوروکوٹھی گاؤں، سیپاجھار، دارنگ میں بے دخلی مہم کے دوران مسلمان دیہاتیوں پر پولیس تشدد اور فائرنگ میں 2افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ حکومت کی سرپرستی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایک مثا ل ہے۔ 22ستمبر کی رات جب ضلعی انتظامیہ نے ان خاندانوں کو بے دخلی نوٹس دیئے انہوں نے اپنے چھوٹے بچوں کو اسی وقت بیدار کیا اور انہیں کھلے میں سونے پر مجبور کیااور خود ہی گھروں کو خالی کرنا شروع کردیا۔ 12گھنٹے کے انخلاء کے مطالبے کے نوٹس سے انہیں اگلے دن صبح 6بجے تک کا وقت ہی ملا۔ اس طرح کا نوٹس جاری کرنا خود غیر انسانی، من مانی، بے حسی اور قدرتی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ریاستی پولیس نے لوگوں کو اپنے گھروں کو خالی کرنے کی اجازت نہیں دی اور ان پر بلڈوزر چلانے لگے، اس سے رہائشیوں کو غصہ آیا کیونکہ وہ غریب ہیں اور وہ ٹن شیڈس اور دیگر مواد کو دوبارہ استعمال کرنے کے قابل نہیں ہونگے جو ان کے مکانات کو دوبارہ دوسرے مقام پر تعمیر کرنے کیلئے درکار ہونگے۔ جس نتیجے میں انہیں پولیس فائرنگ اور دو افراد کھونا پڑا۔ پولیس کی مداخلت پہلے سے طے شدہ تھی کیونکہ وہاں سے نکالے جانے والوں کی طرف سے کوئی اشتعال نہیں تھا کیونکہ وہ پرامن طور پر ضلعی انتظامیہ کا انتظار کررہے تھے تاکہ وہ انہیں ایک دوسری جگہ منتقل کرے۔ اس معاملے میں بنیادی اور پوشیدہ منصوبہ یہ ہے کہ کسانوں کو ان کے چاول کے پلاٹوں سے بے دخل کیا جائے اور اجارہ داروں کو زمین فراہم کیاجاسکے۔ یہ کارپوریٹس اور حکومتوں کی ملی بھگت ہے جن کا محاسبہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت آسامی شاونزم کی چال کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس کا مشکل سے مطلب یہ ہے کہ آسامی کسان اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ آسام حکومت کا عمل جو انسانی حقوق کی خلاف ورز ی کا باعث بنتا ہے اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس وقت اس معاملے میں مرکزی حکومت کی مداخلت انتہائی ضرور ی ہے۔