نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پولیس مڈبھیڑ میں ایک نوجوان کی ہلاکت پر اترپردیش حکومت پر قتل کے تقریبا دو دہائی پرانے واقعہ کے ملزم -چار پولیس اہلکاروں کی گرفتاری اور ان کی تنخواہ روکنے کے عدالتی حکم کو نظر انداز کرنے پر 7 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ یہ رقم متاثرہ کے رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
جسٹس ونیت سرن اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے جمعہ کو کہا کہ اس معاملہ میں عدالتی حکم کی عدم تعمیل ریاستی مشینری کے طرز عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ درخواست گزار یش پال سنگھ نے الزام لگایا تھا کہ 2002 میں اس کے 19 سالہ بیٹے کی پولیس مقابلے میں ہلاکت میں چار پولیس افسران ملوث تھے۔ عدالتی حکم کے بعد بھی ملزم کی گرفتاری اور تنخواہ روکنے کے مطالبے پر عمل درآمد نہ ہونے پر متاثرہ فریق نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔
دستیاب دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے بنچ نے کہا کہ ملزم پولیس اہلکار نو ماہ تک بغیر کسی عدالتی قیام کے گرفتار نہیں ہوئے۔ 2018 میں ٹرائل کورٹ نے ملزم پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کی ادائیگی پر روک لگانے کا حکم دیا تھا۔ صرف ایک پولیس اہلکار کے خلاف اس کارروائی کے بعد باقیوں کو معمول کے مطابق تنخواہ ملتی رہی۔ مقتول کے والد نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 2 اپریل 2019 کو ملزم کی تنخواہیں روکنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ کے یکم ستمبر 2021 کے حکم کے بعد اتر پردیش حکومت حرکت میں آئی اور دو ملزم پولیس اہلکاروں کو 19 سال بعد گرفتار کیا گیا جبکہ ایک نے خود سپردگی کردی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کیس کا چوتھا ملزم ابھی تک مفرور ہے۔ وہ اپنی تنخواہ سمیت تمام واجبات لینے کے بعد 2019 میں رٹائر ہوگیا۔ ریاستی حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کی اگلی سماعت 20 اکتوبر کو کرے گی۔