انسانی حقوق کی پامالی اور وزیر اعظم کا شکوہ

سہیل انجم
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں یوم انسانی حقوق کے موقع پر ان لوگوں پر تنقید کی جو ملک میں پیش آنے والے پریشان کن واقعات پر اظہار تشویش کرتے اور حکومت سے جواب چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کو شکایت ہے کہ ایسے لوگ اپنی پسند اور سہولت کے حساب سے واقعات کا انتخاب کرتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رجحان کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ اللہ اللہ کیسی باتیں کر رہے ہیں مودی جی!
خمار بارہ بنکوی نے کہا ہے:
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے
ان کو شکایت ہے کہ اپوزیشن کے لوگ صرف انھی معاملات پر بولتے ہیں جو ان کو سوٹ کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے واقعات پر خاموش رہتے ہیں۔ اگر ان کو ایسا لگتا ہے تو وہ ذرا اپنا جائزہ لے لیں۔
ابھی تازہ بہ تازہ واقعہ لکھیم پور کھیری کا ہے جہاں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کی گاڑی سے روند کر چار کسانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس گاڑی میں ان کا بیٹا آشیش مشرا بھی تھا۔ حالانکہ وہ لوگ اس کی تردید کرتے ہیں۔ اس واقعہ پر پورے ملک میں شدید احتجاج ہو رہا ہے جو بظاہر ان کو برا لگتا ہے۔ اگر وہ بھی اس واقعہ پر اسی طرح رنجیدہ اور دکھی ہوتے جس طرح اپوزیشن رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن ہوئے ہیں تو شاید ان کو برا نہیں لگتا۔
انھوں نے اس واقعہ پر آج تک ایک بھی لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔ جبکہ اس واقعہ میں بی جے پی کے چا رکارکن بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعہ کے دو روز بعد ہی وہ لکھنؤ میں تھے اور وہاں انھوں نے تقریر بھی کی، لیکن انھیں مقتولین کی یاد نہیں آئی۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہو یا ہندوستانی آئین کی دفعات۔ ہر جگہ انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اظہار خیال کی آزادی، آمد و رفت کی آزادی، زندگی جینے کی آزادی وغیرہ ہر شہری کا حق ہے۔ یہ حق کسی سے بھی چھینا نہیں جا سکتا۔
مبصرین سوال کرتے ہیں کہ کیا ان لوگوں کے انسانی حقوق نہیں ہیں جنھیں 2018 میں بھیما کورے گاؤں کیس میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ اربن نکسل ہیں۔ یہاں تک کہ اسی الزام میں گرفتار ایک بزرگ پادری فادر اسٹن سوامی کی پولیس تحویل ہی میں اسپتال میں موت ہو گئی۔ باقی لوگوں کو آج تک رہا نہیں کیا گیا۔ جیل میں ان کے انسانی حقوق کس طرح سلب کیے جا رہے ہیں اس کی تفصیل سامنے آتی رہتی ہے۔ ایک قیدی گوتم نولکھا کی نظر کمزور ہے۔ ان کا چشمہ جیل میں کہیں گر گیا اور جب ان کی اہلیہ نے ایک جوڑی چشمہ پارسل کیا تو جیل کے عملہ نے چشمہ لینے اور نولکھا کو دینے سے انکار کر دیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیا یہ گوتم نولکھا کے انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فادر اسٹسن سوامی کو رعشہ کا مرض تھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے پانی یا کوئی بھی مشروب پی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے پہلے جیل انتظامیہ اور پھر عدالت سے درخواست کی کہ انھیں مشروب پینے کے لیے پائپ یعنی اسٹرا دیا جائے لیکن انھیں اسٹرا دینے سے انکار کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ انھیں بار بار درخواست دینے کے باوجود ضمانت نہیں دی گئی اور انھیں سرکاری اسپتالوں کے رحم و کرم پر رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ حالانکہ ان گرفتار شدگان کا کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جب سی اے اے کے خلاف شاہین باغ سے تحریک اٹھی اور وہ پورے ملک میں پھیل گئی تو پولیس کی جانب سے مظاہرین پر کریک ڈاون کیا گیا۔ مختلف مقامات پر انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین تک کو نہیں بخشا گیا۔ جب سی اے اے کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے دوران یو پی کے مختلف مقامات پر فسادات ہوئے تو پولیس کا جو رویہ تھا وہ انسانی حقوق کی پامالی والا ہی تھا۔ لیکن یو پی کی یوگی حکومت نے ان لوگوں کے انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کیا بلکہ انھی لوگوں سے سرکاری املاک کے نقصان کی بھرپائی کروائی گئی۔
مظاہرے میں شامل لوگوں کی تصاویر لکھنؤ کے گلی کوچوں میں لگوا دی گئیں اور اس طرح ان کی پرائیویسی کے بخیے ادھیڑے گئے۔ وہ تو عدالتیں سخت تھیں ورنہ وہ تصاویر اب بھی مجرموں کی تصاویر کی مانند سڑکوں پر لگی رہتیں۔ جے این یو میں کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا اور متعدد طلبہ کو زخمی کر دیا۔ جن میں اس وقت کی طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش بھی شامل تھیں۔ ان کے سر میں تقریباً ایک درجن ٹانکے لگے تھے۔ لیکن انھی لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔ حملہ آوروں کا آج تک پتہ نہیں چلا نہ ہی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی۔
سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے کی وجہ سے جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے متعدد طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو متعدد دفعات کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور ان پر انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ بڑی مشکل سے چند طلبہ کی ضمانت منظور ہوئی ہے لیکن اب بھی انسانی حقوق کے کئی کارکن جیلوں میں ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ہی شمال مشرقی دہلی میں فساد برپا کیا گیا جن میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد دہلی پولیس نے متاثرین کے خلاف ہی کارروائی کی اور انھی کو جیلوں میں بند کیا۔ لیکن جن لوگوں پر فساد بھڑکانے کا الزام ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بلکہ اس کے برعکس جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کو فساد کی ساز ش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور آج تک ان کی ضمانت نہیں ہوئی۔

کیا افغانستان میں ہندوستان کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کا قتل کوئی معمولی واقعہ تھا۔ اس پر پوری دنیا میں سوگ منایا گیا اور ان کے قتل کی مذمت کی گئی۔ ہندوستان میں بھی بڑے پیمانے پر اس پر احتجاج کیا گیا۔ متعدد سیاست دانوں نے اظہار غم کیا۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ معمولی معمولی واقعات پر ٹوئٹ کرنے والے وزیر اعظم مودی کو دانش کا خیال نہیں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو طالبان نے ہلاک کیا۔ حالانکہ طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔ کم از کم مودی جی طالبان کی مخالفت ہی میں اس قتل کی مذمت کر دیتے۔

کھاد کے داموں میں اضافہ، پرینکا گاندھی کا حکومت پر حملہ، کہا- ‘صرف مودی کے دوست امیر ہو رہے ہیں’

اگر گنایا جائے تو 2014 کے بعد سے لاتعداد واقعات ایسے ملیں گے جن میں شہریوں کے انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔ یہ تو محض چند واقعات تھے جن کا ذکر کر دیا گیا۔ سیاسی مبصرین سوال کرتے ہیں کہ کیا وزیر اعظم نریندرمودی اپنی سہولت اور پسند کے مطابق واقعات کا انتخاب نہیں کرتے۔ لیکن انھیں شکایت ہے تو اپوزیشن سے کسی اور سے نہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com