جمعیۃ کا میڈیا شعبہ مولانا ارشد مدنی کی بے توقیری نہ کرائے

قاسم سید
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی ملک کی جلیل القدر ،برگزیدہ ،محترم ومقبول ترین شخصیت ورہنما ہیں، اس میں کسی کو کلام نہیں ۔ عالم اسلام میں بھی قدرو احترام اور نمائندہ حیثیت حاصل ہے ۔ وہ ان چند برگزیدہ ہستیوں میں سر فہرست ہیں جو نامساعد حالات اور جبرو خوف کےماحول میں بھی کلمہ حق بلند کررہے ہیں ۔ مصلحت ناشناس ہیں، نفع ونقصان اور سود وضیاں کی پروا نہیں کرتے ،یہی وجہ ہے کہ سواد اعظم کا ان پر بھروسہ واعتماد ہے۔ اس لئے جب ان کی طرف سے خلاف توقع (ہماری اپنی سوچ کے مطابق) کوئی اقدام یا بیان سامنے آتے ہیں تو سب چونک جاتے ہیں اور ان کے معتقدین ومریدین بھی جواب دینے میں مشکل محسوس کرتے ہیں ۔
مولانا مدنی بلاشبہ ایک غیرمتنازع شخصیت رہے ہیں،مگر کچھ عرصہ سے اب ان کو بھی تنازع میں گھسیٹا جانے لگا ہے ۔ سنگھ کے سربراہ سے ملاقات ہو یا آر ایس ایس کی فکر تبدیلی کےحق میں بیان دینے کا معاملہ یا اب سدرشن ٹی وی کو انٹرویو دینے کی بات ۔ ان کو زیر بحث لایا گیا ہے ، حالانکہ کسی ٹی وی کو انٹرویو دینے کا معاملہ الگ ہے ۔ ہر چینل ایجنڈے کے تحت کام کررہاہے ،لیکن سدرشن کی پالیسی تو جگ ظاہر ہے ۔ اندیشہ ہے کہ جب مکمل انٹرویو سامنے آئے گا تو مزید بحث وتنازع ہوگا۔ اسی دوران حضرت کاایک آڈیو وائرل ہو رہاہے کہ مجھ سے دھوکہ سے انٹرویو لیاگیا ہے ،گرچہ ذاتی گفتگو کو عام کرناصریحاً بدیانتی ہے ،مگر اسٹنگ آپریشن کے دور میں یہ غلطی نہیں مانی جاتی ۔ بہرحال اس سے مولانا کی حد درجہ سادہ لوحی ،معصومانہ مزاجی اور صاف گوئی ظاہر ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ مولانا کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہاہے اور ا ن کا میڈیا کاشعبہ کیا کررہا ہے ۔ کیا اس کاکام صرف یہ ہے کہ حضرت کے بیانات کو شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں شائع کرائے۔ کون لوگ ذمہ دار ہیں جو مولانا کی توقیر اور اعلیٰ درجات کو گھٹانے ، ان کی شخصیت کو متنازع بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ انہیں ہر حالت میں ’’سرخیوں‘‘ میں رکھنا ہے، بھلے ہی کسی تنازع کے حوالہ سے سہی۔ سیلاب زدگان کی مدد سے لے کر دہشت گردی کے مقدمات اور دیگر معمولی ایشو پر مولانا ارشد مدنی کے ہی بیانات جاری کرانا، صحافتی تقاضوں ، مقررہ پیمانہ ومعیار سے ہٹ کر جگہ دلانے کی کوشش سے خبر کم اور پروپیگنڈہ زیادہ لگتا ہے اور بعض اردو اخبارات ثواب دارین سمجھ کر اس کار خیر میں حصہ لیتے ہیں ۔ اس سے مولانا کی توقیر وحیثیت میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ خبروں میں رہنے کے الزام کو تقویت ملتی ہے ۔ حالانکہ حضرت مدنی ان تمام باتوں سے بے نیاز ہیں اور وہ اس طرح کی تشہیر کو ہرگز پسند نہیں کرتے ہوں گے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا جمعیۃ میں انٹرویو یا بیان دینے ،مختلف امورپر رد عمل ظاہر کرنے کے لیے مولانا کے علاوہ اور کوئی شخصیت نہیں ہے کہ وہ بیان جاری کرسکے۔ ہر معاملے میں سپہ سالار اعظم کو آگے کردینا کہاں تک صحیح ہے ۔ یہ ارباب جمعیۃ ہی جانیں۔ لیکن اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جمعیۃ میں دیگر جماعتوں کی طرح ایسے لوگ نہیں جو بیانات دے سکیں اور جمعیۃ کا موقف بیان کرسکیں یا پھر کسی اور کو اجازت ہی نہیں کہ وہ لائم لائٹ میں آئے اور خبروں میں جگہ ملے ۔ یہ فیصلہ خود مولانا ارشد مدنی کا ہے کہ صاحبان جمعیۃ کا معلوم نہیں ۔ مولانا کی شخصیت کو غیر ضروری تنازعات سے محفوظ رکھنے ،معمولی ایشو پر بیان سے گریز کی ذمہ داری شعبہ میڈیا کی ہے ۔ انہیں اتناسستا نہ بنایاجائے کہ وہ ہر ایک ایشو پر بیان دیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس مشورہ پر دھیان دیاجائے گا جو مولانا یا سر ندیم الواجدی نے بھی دیا ہے ۔