نئی دہلی: (کاشف حسن – ملت ٹائمز) 20 اکتوبر 2021 شام بمقام ہوٹل ریور ویو میں مولانا حفظ الرحمن ندوی قاسمی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، اس تقریب میں مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی ناظر عام دار العلوم ندوۃ العلماء ، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی اور پروفیسر شفیق الرحمن خان ندوی (سابق صدر شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) بطور مہمانان خصوصی شریک رہے،
پروگرام کی نظامت زین العابدین ہاشمی ندوی نے کی، ان کے علاوہ محمد مطلوب ندوی صاحب، عبد الحفیظ ندوی صاحب، عبیداللہ جنید ندوی صاحب اور مولانا حفظ الرحمن صاحب کے فرزند عطاء الرحمن ندوی صاحب نے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
مطلوب ندوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ندوے میں تعلیم کے دوران جب کبھی کسی طرح کی تعلیمی دشواری پیش آتی یا ترجمہ نگاری میں کوئی مسئلہ پیش آتی تو مولانا ہی مشکل کا حل کیا کرتے، مولانا کی شخصیت میرے لئے مثل والد کے تھی۔
اسی طرح عبید اللہ جنید ندوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ایک تعلیمی vision رکھتے تھے، ہماری تنظیم NOBA ان ہی فکر کی غماز ہے۔
مولانا حفظ الرحمن ندوی کے فرزند عطاء الرحمن ندوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ والد صاحب کا ایک تعلیمی مشن تھا جس کو وہ نافذ کرنا چاہتے تھے، وہ بہترین معلم تو تھے ہی اور پڑھانے کا خاص انداز بھی رکھتے تھے، اور سراجی جو کہ علم وراثت کی مشہور کتاب ہے والد صاحب Mathematics Formulas کو سامنے رکھتے ہوئے پڑھایا کرتے تھے جو کہ روایتی طرز سے بلکل منفرد تھا۔ والد صاحب کئی زبانوں کے ماہر تھے، عربی ،جن میں اردو ، فارسی، ہندی فریچڑ ، سنسکرت، عبارانی شامل ہیں۔عطاء الرحمن ندوی ایک بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ افواہ گردش کرہی ہے کہ ندوہ کی انتظامیہ نے والد محترم کا کوئی خیال نہیں رکھا، میں وضاحت کردوں کہ ندوہ کی انتظامیہ نے ہر طرح کا تعاون کی پیشکش کی، یہاں تک کہ مولانا بلال صاحب نے مجھے خاموشی سے طرح کے تعاون کی یقین دھانی کرائی۔
اسی طرح اس پروگرام کے آرگنائزر بلال احمد ندوی نے اس بات پر زور دیا کہ مولانا کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کیا کہ مولانا کی وفات صرف ندوۃ العلماء کے لئے خصارہ نہیں ہے بلکہ پوری ملت کا خصارا ہے۔
مفتی مسعود حسنی ندوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا حفظ الرحمن ندوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دور رس نگاہ رکھتے تھے، وہ خلیق اور خدا ترس انسان تھے، مفتی مسعود صاحب نے کہا کہ وہ علم فقہ میں ایسی مہارت رکھتے تھے کہ ان مثال انکے معاصرین میں کم ہی نظر آتی ہے، مولانا جب ہمیں ہدایہ پڑھایا کرتے تو محسوس ہوتا کہ مولانا فقہی مصادر پر نہ صرف اچھی نگاہ رکھتے ہیں، بلکہ علم فقہ پر اچھی دسترس بھی ہے، ایک بار آلہ آباد ہائی کورٹ میں دار القضاء کے خلاف کسی نے اپیل دائر کردی کہ دار القضاء کو پورے ہندوستان سے ختم ہی کردیا جائے، مولانا رابع حسنی ندوی صاحب نے مولانا حفظ الرحمن ندوی صاحب کو تین ماہ درس و تدریس کی خدمت فارغ کرکے اس کام پر لگایا کہ وہ دار القضاء کی ایک تاریخ مرتب کریں، آپ یقین جانیے کہ مولانا نے تین ماہ کے اندر ایک اچھی اور قابل رشک تاریخ مرتب کردی۔
اسی طرح ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ایک مردم ساز شخصیت کے مالک تھے وہ افراد سازی کے ہنر سے واقف ہی نہیں بلکہ اس میں ماہر بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انسانی تاریخ میں ایسے اشخاص بہت نظر آتے ہیں جنہوں نے کتابیں تصنیف کیں ہیں، اور ایسے اشخاص بہت ہی کم مشاہدہ میں آئے ہیں جو فن مردم سازی سے واقف ہوں، مولانا حفظ الرحمن صاحب ان ہی چند شخصیات میں سے ایک تھے۔
پروفیسر شفیق الرحمن خاں ندوی نے کہا کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب رح سادگی کی ایک اعلی مثال تھے، ان کی سادگی ان کی شخصیت کا جوہر تھی۔ انسان کے دنیا سے جانے کے بعد عمل منقطع ہوجاتا ہے، سوا چند چیزوں کے ان میں سے ایک علمی کام بھی، آج مولانا نے اپنے شاگردوں کی شکل میں ایک ایسا عظیم ورثہ چھوڑا ہے جس کا اجر قیامت کے ان کے نامہ اعمال جاتا رہے گا۔
مولانا بلال حسنی ندوی صاحب مولانا حفظ الرحمن صاحب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا داعیانہ صفات سے متصف تھے، میرا ان سے ایک جذباتی تعلق تھا، وہ برادر معظم مولانا عبداللہ حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے دعوتی مشن سے شروع سے ہی جڑے رہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کئی زبانوں کے ماہر تھے، وہ قابل نہیں بلکہ قابل بہت تھے، لیکن ان سب چیزوں سے زیادہ وہ ایک داعی تھے، ان کا دعوت دینے کا ایک خاص اسلوب تھا اور وہ اسلوب ایسا تھا کہ جب وہ کسی کو دعوت دیتے تو وہ خود ہی اسلامی تعلیمات کے قریب آجاتا۔
اس کے بعد اس تقریب کے آرگنائزر جناب بلال ندوی نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا، اور حضرت مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی نے دعا کرائی اور اس طرح یہ تقریب بھی اختتام کو پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔