نئی دہلی: نسائی ادبی تنطیم ‘بنات’ کا پانچواں یوم تاسیس کورونا سے پیدا شدہ حالات کے مد نظر سادگی کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع پر غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین میں ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام دو اجلاس پرمبنی تھا۔ پہلے اجلاس میں کورونا کے عہد میں رخصت ہوجانے والے قلمکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، جبکہ دوسرے اجلاس میں ‘کورونا اور تانیثی ادب’ کے عنوان سے سمپوزیم کا اہتمام کیا گیا۔
مرحوم ادبی شخصیات کے لئے منعقد تعزیتی اجلاس کی صدارت بنات کی صدر ڈاکٹر نگار عظیم اور ڈاکٹر افشاں ملک نے کی۔ معروف نقاد اور ادیب حقانی القاسمی اور معین شاداب مہمان خصوصی تھے۔حقانی القاسمی نے مرحوم ادیبوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے ایسے شعرا وادبا ہمارے درمیان سے اٹھ گئے، جن کے جانے سے شہر سونے اور گلیاں ویران ہوگئیں۔ ہماری آنکھیں انھیں تلاش کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چہروں کی گمشدگی بہت بڑا سانحہ ہے۔جن چہروں سے آنکھوں کا رشتہ ہوتا ہے وہ گم ہو جائیں تو آنکھوں کی پیاس اتنی شدید ہوجاتی ہے۔ حقانی القاسمی نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے صرف شخصیات کی موت نہیں ہوئی بلکہ بہت سے نظریات اور تصورات کی موت ہوئی ہے۔
ڈاکٹر نگار عظیم نے رخصت ہوجانے والی شخصیات کو جذباتی خراج عقیدت پیش کیا۔انہوں نے مولانا وحیدالدین خاں، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی، نصیراحمدخاں، مجتبیٰ حسین، رتن سنگھ، بیگ احساس، حنیف کیفی، افتخار امام، علی جاوید، نصرت ظہیر، گلزار دہلوی، راحت اندوری، سلطان اختر، غلام مرتضیٰ راہی، مناظر عاشق ہرگانوی، شوکت حیات، مشرف عالم ذوقی، انجم عثمانی، نسیم عباسی، ترنم ریاض، تبسم فاطمہ، سعدیہ دہلوی، حنیف ترین، مسعود ہاشمی، مولا بخش، رضا حیدر، ظفرالدین، منصور احمد عثمانی، سلطانہ خاتون، فرقان سنبھلی سمیت بہت سے لوگوں کا فرداً فرداً تذکرہ کرتے ہوئے انھیں نم آنکھوں سے گلہائے عقیدت پیش کئے۔ڈاکٹر افشاں ملک نے کوروناکے دردناک دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس عہد میں بنات نے بھی اپنے کئی اراکین کو کھو دیا۔اس ذیل میں انھوں نے شمشاد جلیل، صالحہ زریں، مینا نقوی، تبسم فاطمہ اور ترنم ریاض کا خصوصیت سے تذکرہ کیا۔
معین شاداب نے کہا کہ کووڈکے زمانے میں بڑی تعداد میں علمی و ادبی شخصیات کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا آسان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پورا عہد اور حالات دراصل انسانیت کاامتحان تھا۔انھوں نے کہا کہ دو برس کے حالات کے زیر اثر ‘کورونائی ادب’ بھی وجود میں آیا ہے۔معین شاداب نے پہلے اجلاس کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔
اس موقع پر بنات کی صدر نگار عظیم نے تنظیم کی سالانہ رپورٹ بھی پیش کی۔ انہوں بنات کے آئندہ کے منصوبوں اور عزائم سے آگاہ کیا۔ انہوں بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران بنات کی بہنوں نے دہلی سمیت کئی ریاستوں میں بنات فاؤنڈیشن کی ایما پر ضرورت مندوں کی امدادکی۔بنات نے حاجت مندوں کو راشن اور ضرورت کا دیگر سامان مہیا کرایا۔
تعزیتی اجلاس کے بعد’کورونا اور تانیثی ادب’ کے موضوع پر سمپوزیم ہوا۔ جس کی مجلس صدارت میں پروفیسر ابو بکر عباد اور ظہیر برنی شامل تھے۔غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد مہمان خصوصی تھے۔اس اجلاس کی نظامت بنات کی نائب صدر عذریٰ نقوی نے کی۔اس موقع پر بنات سے وابستہ قلم کاروں نےنثری و شعری تخیقات پیش کیں۔ سمپوزیم کے حوالے ڈاکٹرنگار عظیم نے کہا کہ کوروناکی وبا نے قلم کاروں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔اس کے اثرات ان کی تخلیقات پر بھی نمایاں ہیں۔ بنات کی نائب صدر عذریٰ نقوی نے کہا کہ ادیب اب بھی کورونا سے پہنچنے والے صدمے سے باہر نہیں آئے، حالانکہ لوگوں نے اب لکھنا شروع کر دیا ہے اوربہت سے قلم کار اس ہولناک وقت میںبھی لکھ رہے تھے لیکن لکھنے والوں کی جو ذہنی کیفیت ہے وہ نا گفتہ بہ ہے۔پروفیسر ابو بکر عباد نے اپنے صدارتی کلمات میں وبا ئی بیماری کووڈ سے پیدا شدہ حالات کانسائی ادب پرپڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا۔ ابو بکرعباد نے اس جلاس کے دوران پڑھی گئیں تخلیقات کا اجمالی تجزیہ بھی کیا۔ ظہیر برنی نے بنات کی سرگرمیوں کی ستائش کی اورگذشتہ دو برس میں رخصت ہوجانے والے احباب کو یاد کیا۔ڈاکٹر عقیل احمدنے پیش کی گئی کہانیوں اور شاعری کے حوالے سے تانیثی ادب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
اس دوران نعیمہ جعفری پاشا، نگار عظیم، افشاں ملک، شاداب علیم، رضیہ حیدر خاں، ترنم جہاں شبنم، صبیحہ ناہید، نے افسانے یا دیگر نثری تخلیقات پیش کیں جب کہ عذریٰ نقوی، نسیم بیگم، طلعت سروہا، چشمہ فاروقی، سفینہ، امیر نہٹوری اور معین شاداب نے شعری کلام پیش کیا۔ چشمہ فاروقی نے شکریہ کی تحریک پیش کی۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، ڈاکٹر شاداب علیم، بنات کے یوم تاسیس کے جلسے کی کنوینر تھیں جبکہمنتظمین میں ترنم جہاں شبنم اور ڈاکٹر سفینہ کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ شرکا میںغیاث الدین ملک، شاذیہ عمیر، محمد عرفان، شفافاروقی، سیدہ فرح، شہزاد علوی، طارق وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹرافشاں ملک کی کتاب ‘احمد ندیم قاسمی: شاعر ارض وسماء اور طلعت جہاں سروہا کے افسانوی مجموعے’درد صحرا’ اور شعری مجموعے ‘کاوش طلعت’ کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی۔