شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اﷲ کی طرف سے جو نبی و رسول آتے ہیں ، وہ انسانیت کے لئے نمونہ اور آئیڈیل ہوتے ہیں ، ان کا ہر عمل لوگوں کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتا ہے ؛ اسی لئے وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ ترین معیار پر قائم رہتے ہیں ، ان کی عبادتیں خشوع و خضوع کا نمونہ ہوتی ہیں ، ان کے معاملات راست گوئی اور پاکیزگی پر مبنی ہوتے ہیں ، ان کی معاشرت حسن سلوک اورسماج کے مختلف طبقہ کے ساتھ اچھے برتاؤ اور حقوق کی ادائیگی کی بہترین مثال ہوتی ہے ، وہ اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر ہوتے ہیں ، یہ بات اس لئے بھی ضروری ہے کہ نبی کا بنیادی فریضہ دعوت و تبلیغ ہے اور دعوت کے مؤثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مدعو پر اس کے اخلاق وسلوک کے بہترین نقوش ثبت ہوں ؛ کیوںکہ محبت اور خوش اخلاقی سخت سے سخت دل کو بھی پگھلانے کی طاقت رکھتی ہے ، قرآن مجید میں مختلف انبیاء کرام اور ان کی اقوام کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں ، ان واقعات میں قوموں کی اپنے انبیاء کے ساتھ بد سلوکی و بد زبانی اور اس کے مقابلہ میں انبیاء کی طرف سے انتہائی درجہ تحمل و بردباری اور خوش گفتاری کا ذکر ملتا ہے ۔
جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بلند اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر تھے ؛ اسی لئے قرآن مجید میں آپ ﷺ کے بارے میں کہا گیا ہے : إِنَّـکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۴) اکثر اخلاقی کمزوریوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے ، وہ گفتگو تو بہت اونچی کرتا ہے ؛ لیکن عمل میں بہت نیچی سطح پر ہوتا ہے ، آپ ﷺ کی زندگی میں قول و فعل کا تضاد بالکل نہیں تھا ، آپ ﷺ لوگوں کو جس بات کی دعوت دیتے، اسی پر آپ ﷺ کا عمل ہوتا ؛ اسی لئے حضرت عائشہؓ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اخلاق محمدی کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ سراپا قرآن تھے : کان خلقہ القرآن (مسند احمد : ۶؍۹۱ )
تواضع و انکساری
آپ ﷺ کے مزاج کا نمایاں پہلو تواضع و انکساری تھا ، آپ مقام نبوت پر فائز ہیں اور پورا جزیرۃ العرب آپ کے قدموں میں ہے ؛ لیکن تواضع اور سادگی کا حال یہ تھا کہ گھر پر خود جھاڑو دے لیتے، بازار سے سودا لاتے ، جوتی پھٹ جاتی تو اسے سی لیتے ، بکری کا دُودھ دوہ لیتے ، (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۵۶۶۲) کھانے کے لئے بیٹھتے تو نہایت تواضع کی کیفیت کے ساتھ ، اور فرماتے کہ میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کو کھانا چاہئے : ’’ أنا آ کل کما یأ کل العبد‘‘ اگر کوئی غریب آدمی کسی معمولی سی چیز پر مدعو کرتا تو اس کی دعوت بھی قبول فرمالیتے ، مریضوں کے گھر پہنچ کر ان کی عیادت کرتے ، غلاموں کی دعوت بھی قبول فرماتے ، ہر عام وخاص کے جنازہ میں شریک ہوتے ، گدھے کو معمولی سواری سمجھا جاتا تھا ، مگر آپ اس کی بھی سواری کیا کرتے تھے اور اگر کوئی غلام دعوت دے تو اسے بھی قبول فرماتے تھے۔ (مدارج السالکین : ۲؍۳۲۸)
لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے تو منع فرما دیتے ، اگر کسی باندی کا بھی کوئی کام ہوتا اور وہ بھی سرِ راہ اپنی کسی ضرورت کے لئے روکتی تورُک جاتے ، بڑے تو بڑے ، چھوٹے بچوں کو بھی سلام فرماتے ، (بخاری ، عن انس ؓ، حدیث نمبر : ۶۲۴۷) رفقاء کے ساتھ اس طرح بیٹھتے کہ امتیازی شناخت نہ ہونے کی بناپر لوگ آپ کو پہچان نہیں پاتے ، اپنے لئے تعظیم کے جائز الفاظ بھی پسند نہیں فرماتے ، ایک بار بعض حاضرین نے عرض کیا : آپ ﷺ ہمارے آقا ( سید ) ہیں ، فرمایا : ’’نہیں ، آقا تو خدا کی ذات ہے ‘‘ ایک بار لوگوں نے عرض کیا : آپ ہم میں سب سے افضل وبرتر ہیں ، آپ ﷺ نے اس تعبیر کو بھی پسند نہیں فرمایا ، تواضع و فروتنی کا یہ حال تھا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب دس ہزار مسلح جاں نثار آپ ﷺ کے گرد و پیش تھے ، انکساری کی وجہ سے آپ کا سرمبارک اس قدر جھکا ہوا تھا کہ بار بار اونٹنی کے کوہان سے ٹکراجاتا تھا ۔
آپ کا رہن سہن بھی تواضع کا مظہر تھا ؛ ایک بار حضرت عمرؓ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کھلی چٹائی پر آرام فرمارہے ہیں ، جس پر کوئی بستر بھی نہیں ہے اورسرمبارک کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے ، جس میں چھالیں بھری ہوئی ہیں ، بدن مبارک پر چٹائی کے نشانات ہیں ، حضرت عمر ؓیہ منظر دیکھ کر رونے لگے ، آپ ﷺ نے سبب دریافت کیا ، کہنے لگے : اللہ کے رسول ! قیصر و کسریٰ تو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے باوجود اس حالت میں ہیں ، ارشاد ہوا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ۔ (بخاری ، حدیث نمبر : ۵۸۴۳)
حج کا سفر فرمایا تو ایک پرانے کجاوے پر ، نیز اس پر ایک ایسے کپڑے کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا ، جس کی قیمت چار درہم سے بھی کم ہی ہوگی:
حج النبی علی رحل رث وقطیفۃ تساوی اربعۃ دراھم ۔ (رواہ ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۲۸۹۰)
آپ ﷺ چاہتے تو بہتر سے بہتر کپڑا آپ کو میسر آسکتا تھا ؛ لیکن آپ ہمیشہ تواضع کا راستہ اختیار کرتے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو جسم اقدس پر ایک چادر اورگاڑھی کھردری تہبند تھی ۔ (بخاری ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۵۸۱۸ )
تواضع ہی کا ایک پہلو یہ تھا کہ تعظیم میں مبالغہ کو پسند نہیں کرتے تھے ، بعض صحابہ دوسرے علاقوں میں گئے تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں ، انھوں نے آپ ﷺ سے سجدہ کی اجازت چاہی اور عرض کیا : آپ تو ان سے زیادہ مسجود بننے کے مستحق ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کسی کو سجدہ کی اجازت ہوتی تو بیوی کو اجازت ہوتی کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے ؛ لیکن خدا کے سوا کسی کے لئے سجدہ روا نہیں ، (سنن الترمذی ، ابواب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ ، حدیث نمبر : ۱۱۵۹)ایک صاحب دورانِ گفتگو بول پڑے : جو خدا چاہے اور آپ ﷺ چاہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، صرف خدا چاہے ، (مسند احمد : ۳؍۴۳۱ ، حدیث نمبر : ۱۹۶۴) ایک انصاری کی شادی میں کچھ لڑکیاں دُف کے ساتھ نغمے گارہی تھیں ، انھوں نے اس میں ایک مصرع پڑھا : ’’وفینا نبی یعلم ما فی غد‘‘ (اور ہمارے بیچ ایسے پیغمبر ہیں جو کل واقع ہونے والی باتوں کو جانتے ہیں ) آپ ﷺ نے اس مصرع کو پڑھنے سے منع فرمادیا ، (بخاری ، کتاب المغازی ، حدیث نمبر : ۴۰۰۱ ) جس روز آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓکی وفات ہوئی ، اتفاق سے اسی دن سورج گہن لگ گیا ، جاہلیت کے قدیم تصور کے مطابق لوگ کہنے لگے کہ صاحبزادۂ نبوی کے انتقال کی وجہ سے گہن لگا ہے ، آپ ﷺ نے فوراً اس کی تردید میں باضابطہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔
بلکہ بعض دفعہ آپ جس تعریف کے مستحق تھے ، وہ بھی کی جاتی تو پسند نہ فرماتے ، ایک صاحب خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے مخلوق میں سب سے بہتر شخص ( خیر البشر ) ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے ، (مسلم، عن انس ؓ ، حدیث نمبر : ۲۳۶۹) ایک موقع پر فرمایا : کسی کے لئے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ میں حضرت یونس علیہ السلام بن متیٰ سے افضل ہوں ۔ (بخاری ، عن ابن عباسؓ ، حدیث نمبر : ۳۴۱۳) آپ نے اس سلسلہ میں ایک اُصولی بات ارشاد فرمائی کہ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں مبالغہ کیا تھا ، تم لوگ میرے بارے میں اس طرح مبالغہ نہیں کرنا : لا تطری کما اطرط النصاریٰ الخ ۔ (بخاری، عن ابن عباسؓ ، حدیث نمبر : ۳۴۴۵ )
آپ ﷺ نے تواضع پر عمل بھی کیا اور اُمت کو بھی اس کی تلقین فرمائی ؛ کیوں کہ تواضع حسن اخلاق کی بنیاد ہے اور تکبر بد اخلاقی کا سب سے بڑا سبب ہے ، آپ نے فرمایا : اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو تواضع اختیار کرے : طوبٰی لمن تواضع (الترغیب والترہیب : ۳۰؍۵۵۸)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں : وما تواضع أحد للّٰه إلا غفرہ اللّٰه ۔ (مسلم ، عن ابی ہریرہؓ : ۲۵۸۸)
چوںکہ تواضع کا ایک پہلو ظاہری سادگی بھی ہے ؛ اس لئے آپ لباس و پوشاک اور رہن سہن میں سادگی کو پسند فرماتے تھے ، آپ نے فرمایا : سادگی ایمان کا حصہ ہے ، (ابوداؤد ، عن ابی امامہ حارثی ، حدیث نمبر : ۴۱۶۱) ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود تواضع اختیار کرتے ہوئے عمدہ لباس نہیں پہنا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور جو لباس وہ پسند کرے گا ، اسے اس کو پہننے کا اختیاردیا جائے گا ۔ (ترمذی ، عن معاذ بن انسؓ ، حدیث نمبر : ۳۴۸۱)
اس تواضع کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ ﷺ غرباء کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے غریب لوگوں کے درمیان تلاش کرو ، اس لئے کہ تمہیں تمہارے کمزوروں کی وجہ سے ہی رزق دی جاتی ہے اور مدد کی جاتی ہے : ’’ فإنما ترزقون وتنصرون لضعفائکم‘‘ ۔ (ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۷۰۲)
عفو و درگذر
عفو و در گزر کا باب آپ کے یہاں بہت وسیع تھا اور دوستوں اور دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا ، جب مکہ فتح ہوا تو وہ سارے لوگ آپ کے سامنے موجود تھے ، جنھوں نے آپ کے قتل کے منصوبے بنائے ، آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جسمانی اذیتیں پہنچائیں ، آپ کو بُرا بھلا کہا ، معاشی ناکہ بندی کی اور آپ کے پورے خاندان کو دانہ دانہ کے لئے ترسایا ، آپ کی صاحبزادیوں کے طئے رشتے توڑ وا دیئے ؛ لیکن آپ نے ان سبھوں کو بہ یک جنبشِ زبان معاف فرما دیا ، یہاں تک کہ ان کے جور و ظلم کا ذکر کرکے انھیں شرمندہ بھی نہیں فرمایا ، آپ نے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کے قاتل وحشی، ان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ ، بدترین دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ اور غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں مشرکین کی قیادت کرنے والے ابوسفیان سبھوں کو دامنِ عفو میں پناہ دی ، یہ سب بعد میں دامن اسلام میں آگئے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ سخت کناروں والی نجران کی بُنی ہوئی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ، ایک دیہاتی کی آپ سے ملاقات ہوئی ، اس نے بہت زور سے چادر کھینچی ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی گردن پر اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کا نشان پڑ گیا ، اس نے کہا : اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے ، مجھے اس میں سے دینے کا حکم دو ، رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہنسے ، پھر اس کو دینے کا حکم فرمایا ۔ (بخاری ، حدیث نمبر : ۶۰۸۸۱)
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ گدھے پر سوار ہوئے اور حضرت اسامہؓ کو اپنے پیچھے بیٹھالیا ، آپ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے جارہے تھے ، آپ کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا ، جہاں مسلمان بھی تھے ، مشرکین بھی تھے اوریہود بھی تھے ، انھیں میں منافقین کا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا اور مخلص صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ بھی تھے ، آپ کی سواری کا غبار اُڑا اور اس مجلس میں پھیل گیا ، عبد اللہ بن ابی نے ناک پر چادر رکھ لی اور کہنے لگا : ہمارے اوپر غبار نہ اُڑاؤ ، حضور ﷺ نے اس مجمع کو سلام کیا ، پھر اُترے اور انھیں اللہ کی طرف دعوت دی نیز ان کے سامنے کچھ قرآن پڑھا ، عبد اللہ بن ابی کہنے لگا : اس سے اچھی کوئی اور بات تمہارے پاس نہیں ہے ؟ تم جو کچھ کہہ رہے ہو ، اگر یہ سچ اورحق ہے تو ہمیں ہماری بیٹھکوں میں تکلیف نہ دیا کرو اور جاؤ اپنے گھر ، اگر ہم میں سے کوئی تمہارے پاس آئے تو اس سے بیان کیا کرو ، آپ ﷺ نے عبد اللہ بن ابی کے اس حقارت آمیز سلوک کو معاف فرمادیا۔ (بخاری ، عن اسامہ بن زید ، حدیث نمبر : ۶۲۵۴)
ایک موقع پر ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : تمہارے پاس جو کچھ مال ہے ، نہ تمہارا ہے نہ تمہارے باپ کا ، مجھے بھی اس میں سے دو ، آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے اور کچھ لاکر عنایت فرمایا ، عرب کے دیہاتی عام طورپر تہذیب سے ناآشنا ہوتے تھے ، وہ کہنے لگے : آپ نے بہتر برتاؤ نہیں کیا اور نہ اچھے اخلاق کا ثبوت دیا ، آپ اندر تشریف لے گئے ، جو کچھ بچ گیا تھا ، وہ بھی لے آئے اور عنایت فرمادیا ، دیہاتی بہت خوش ہوگیا ، کہنے لگا : آپ نے بہت اچھا سلوک فرمایا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا : ’’ قد اجملت وقد أحسنت‘‘ ، پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا : میری مثال اس شخص کی ہے جس کا اونٹ بِدک گیا ہو ، لوگ اس اونٹ کو پکڑنے کے لئے دوڑیں ، لوگ جس قدر دوڑتے ، اونٹ اسی قدر بھاگتا جاتا ، یہاں تک کہ اونٹ کے مالک کو خبر ہوئی ، اس نے لوگوں کو منع کردیا اورپیار کے ساتھ اپنے ہاتھ میں چارا لے کر اونٹنی کو آواز دی ، اونٹنی واپس آنے لگی ، مالک اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے واپس لے آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : جو سلوک بِدکی ہوئی اونٹنی کےساتھ اس کے مالک کا ہوتا ہے ، وہی سلوک میرا اُمت کے اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے ، جو بِدک گیا ہو ۔ ( مسند بزار : ۱۵؍۲۹۴ ، حدیث نمبر : ۸۷۹۹ )
رسول اللہ ﷺ نجد کی طرف سے واپس آرہے تھے ، راستہ میں ایک وادی ملی ، جہاں ڈھیر سارے درخت تھے ، وہاں پہنچ کر دوپہر کا وقت ہوگیا ، لوگ مختلف درختوں کے سایہ میں ٹھہر گئے ، آپ ﷺ بھی ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گئے ، ایک شخص آیا ، اس نے آپ پر تلوار سونت لی اور پوچھا : تم کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : ’’ اللہ ‘‘ اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور ہاتھ سے تلوار گر گئی ، آپ ﷺ اس سے بدلہ لے سکتے تھے ؛ لیکن آپ نے معاف فرما دیا ۔ (بخاری ، عن جابر بن عبد اللہ ؓ ، حدیث نمبر : ۳۹۱۰ )
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی عفو و درگذر سے عبارت ہے ، آپ ﷺ خود بھی عفو و درگذر سے کام لیتے تھے اور اپنے رفقاء کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے ،ایک صاحب نے اپنے خادم کے بارے میں دریافت کیا ، جس سے بار بار تکلیف پہنچتی تھی ، کہ ہم کتنی بار اسے معاف کریں ؟ آپ ﷺ خاموش رہے ، انھوں نے پھر یہی سوال دُہرایا ، تب بھی آپ خاموش رہے ، انھوں نے تیسری بارپھر یہی سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہردن ستر بار معاف کیا کرو ۔ (ابوداؤد ، عن عبد اللہ بن عمرؓ ، حدیث نمبر : ۵۱۶۴ )
عام طورپر لوگ سمجھتے ہیں کہ بدلہ لینے میں ان کا وقار اور رُعب بڑھ جائے گا اور معاف کرنے میں کم ہوجائے گا ، آپ نے لوگوں کی اس نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو بندہ عفو سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں : وما زاد اللّٰه عبداً بعفو إلاعزا ۔ (مسلم ، حدیث نمبر : ۲۵۸۸) ایک موقع پر فرمایا : تم رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا ، تم معاف کرو تو اللہ تم کو معاف کرے گا : واغفروا یغفر اللّٰه لکم ۔ (مسند احمد ، عن عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ ، حدیث نمبر : ۶۵۴۱) (جاری)