نئی دہلی: تریپورہ میں ہونے والے فساد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشد مدنی نے کہا کہ شرپسندوں کے خلاف اب تک کسی ٹھوس کارروائی کانہ ہونا انتہائی افسوسناک ہے یہ ردعمل انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے تری پورہ فسادزدہ علاقوں کا تین روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد پیش تفصیلی رپورٹ پر ظاہر کرتے ہوئے کہی مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مفتی سید معصوم ثاقب اور سکریٹری جمعیۃ علماء اترپردیش مولانا اظہر مدنی پر مشتمل ایک نمائندہ وفدنے تریپورہ فساد زدہ علاقہ کا دورہ کرکے اپنی تفصیلی اور تفتیشی رپورٹ مولانا مدنی کو پیش کی ہے مولانا مدنی نے کہاکہ تریپورہ کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک پرامن ریاست رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ البتہ ادھر جب سے ایک مخصوص نظریہ کو ماننے والی پارٹی اقتدار میں آئی ہے فرقہ پرست عناصر اور ان کی تنظیموں کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، فسادبرپاکرنے کی سازشیں تو پہلے سے ہوتی رہی ہیں لیکن پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں ہوئے واقعات کو بہانہ بناکر بعض فرقہ پرست تنظیموں نے وہاں حیوانیت اور بربریت کا جو مظاہرہ کیا وہ یہ بتاتا ہے کہ فرقہ واریت کا زہر کس طرح لوگوں کے دلوں میں اندرتک سرایت کرگیا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق 12 مسجدوں پر حملے ہوئے، جلوس کے دوران کی گئی آتشزنی سے مذہبی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی دوکانوں و دیگر املاک کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تریپورہ میں جو کچھ ہوا ہے اس سے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ مجروح ہوئی ہے۔ ایک ایسے جمہوری ملک میں کہ جہاں آئین کی بالادستی مسلم ہو جس میں ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ہوں ایک منتخب شدہ حکومت کے ہوتے ہوئے کسی ریاست میں اگر اس طرح کے افسوسناک واقعات رونما ہوں اور مرکز و ریاست دونوں حکومتیں کچھ نہ کریں تو اس سے آئین و قانون کے بالادستی کے ساتھ ساتھ انصاف کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ مولانا مدنی نے دعوی کیا کہ جلوس کے دوران شرپسندوں کی بھیڑمسلم اکثریتی علاقوں سے انتہائی دلآزار نعرہ لگاتی اور مسجدوں اور دوکانوں کو جلاتی ہوئی گزری اور پولس اور انتظامیہ کے ذمہ داران خاموش تماشائی بنے رہے یہ کتنے شرم اور افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ باور کرایا جارہاہے کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اس کا ردعمل تھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی غیر ملک میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا انتقام اپنے ملک کے شہریوں سے لیا جانا کہا کا انصاف ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے شرپسندعناصرکے خلاف جس طرح کی کارروائی کی ویسی کارروائی ہماری حکومت نے شرپسند عناصرکے خلاف کیوں نہیں کی؟ ہم نے بنگلہ دیش میں ہوئے تشددکی سخت مذمت کی تھی، کسی بھی مہذب سماج میں ایسانہیں ہونا چاہئے۔ تریپورہ میں فرقہ پرست طاقتوں نے مسلم اقلیت کے خلاف جو کچھ کیا ہم اس کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تریپورہ کی سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ریاست میں مسلمانوں کے جان ومال کے تحفظ کو نہ صرف یقینی بنائے بلکہ خاطیوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی کرے، اگر ایسے لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا یا انہیں سیاسی تحفظ فراہم کیا گیا تو ان کے حوصلہ مزید بڑھ سکتے ہیں اور وہ مستقبل میں بھی اس طرح کی مذموم کارروائیاں انجام دیکر امن و قانون کے لئے خطرہ بنتے رہیں گے۔ مولانا مدنی نے اس امر پر بھی سخت افسوس کا اظہار کیا کہ تریپورہ کئی دنوں تک شرپسند عناصر کے نشانہ پر رہا اور آئین کی پاسداری کا حلف لینے والے ہمارے رہنما تماش بین بنے رہے۔ ملک کے آئین اور سیکولر روایت کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑی اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ تری پورہ ہائی کورٹ نے از خود ان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی سرکار اپنا فرض ایمانداری سے پوراکرنے میں ناکام رہی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ میڈیا نے ایک بارپھر اپنا دوہراچہرہ دکھادیا، بنگلہ دیش کے پر تشدد واقعات کو تو اس نے خوب نمک مرچ لگاکر پیش کیا لیکن جب تریپورہ میں حیوانیت کا کھیل ہواتو اس کی کوئی خبر نہیں دکھائی گئی۔ انہوں نے کہاکہ جمعیۃعلماء ہند شرپسندوں کے ہاتھوں جلائی ومسمارکی گئی مسجدوں کی تعمیر نوکرائے گی اور متاثرین کی بازآبادکاری بھی کرے گی لیکن تریپورہ کے مسلمانوں کے دلوں میں ان واقعات کے بعد جو ڈر اور خوف بیٹھ گیا ہے وہ اتنے بھرسے دورنہ ہوگا بلکہ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ پورے معاملہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہواور اس کی بنیادپر شرپسندعناصر کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتاکہ انہیں ملک کے قانون کے مطابق قرار واقعی سزامل سکے۔انہوں نے کہاکہ جو لوگ امتیاز اور تعصب کا رویہ اختیارکرکے ایک خاص کمیونٹی کو قومی دھارے سے الگ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں درحقیقت وہ ملک کوتباہی کے راستہ پر ڈال رہے ہیں۔ جمہوری نظام سے ہی ملک کی ترقی ممکن ہے، ملک کی بڑی آبادی کا خود کو غیر محفوظ تصورکرنا انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔،حکومتیں ڈراورخوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے چلتی ہیں۔