جنیوا امن مذاکرات میں شامی عوام کے مفاد ات کو اولین ترجیح ہونی چاہیے،بان کی مون

جینوا،2فروری
ملت ٹائمز؍ایجنسی
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جنیوا میں جاری شام کے امن مذاکرات میں شامل تمام پارٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کی بجائے شامی عوام کی بقاء کو ترجیح دیں۔بان کی مون نے پیر کو سلطنت عمان میں ڈیفنس کالج سے اپنے خطاب میں علاقائی حریف قوتوں ایران اور سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں اپنے اپنے اتحادیوں کی پُشت پناہی کی بجائے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کریں۔ بان کی مون کا کہنا تھا،ہم سب بہت خوُش ہیں کہ آخر کار شامی امن مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔ یہ بات چیت بہت پہلے ہی واجب تھی۔
بان کی مون نے شام کے تنازعے میں شہریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور اُن کی تشویشناک صورتحال کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا، میں تمام مذاکراتی فریقوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر شامی عوام کے مسائل کے حل کے لیے صدق دل سے کوششیں کریں۔ شام کے عوام، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا،شام کی جنگ کا خاتمہ جلد از جلد نظر آنا چاہیے۔ محاصروں اور انسانی حقوق کی خوف ناک پامالی کے سلسلے کا خاتمہ جلد سے جلد نظر آنا چاہیے۔پیر کو جنیوا میں شروع ہونے والے مذاکرات کے دوران اقوام متحدہ کے مندوب برائے شام اسٹیفن ڈے مستورا نے صدر بشار الاسد کے حکومتی وفد اور ان کی اپوزیشن کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
دریں اثناء شامی اپوزیشن گروپ نے پیر کو اسٹیفن ڈے مستورا کو ایک ایسا روڈ میپ دینے کا اشارہ دیا ہے جس کے ذریعے وہ امن مذاکرات میں باضابطہ طور پر شامل ہونے سے پہلے انسانی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کرنا چاہتے ہیں۔اپوزیشن کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن فراح عطاصی نے ان شرائط کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، سب سے پہلی شرط یہ ہوگی کہ شامی حکومت کی طرف سے شام کے باغیوں کے قبضے والے دمشق کے نواحی علاقوں میں ہونے والی بے مثال بمباری کا سلسلہ بند ہو۔
اس گروپ کی ایک ترجمان خولا متار کے مطابق شامی تنازعے کے فریقوں کے مابین براہ راست مذاکرات منگل سے پہلے شروع ہونے کے امکانات نہیں پائے جاتے۔ اطلاعات کے مطابق ڈے مستورا نے پیر کو شامی حکومتی وفد کے ساتھ بات چیت کا شیڈول دوبارہ طے کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ براہ راست مذاکرات سے پہلے حزب اختلاف کے ساتھ ایک سرکاری ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔
جنیوا میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کا مقصد شام کی پانچ سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کی کوشش کرنا ہے جس کا شکار ہو کر لقمہء اجل بننے والے افراد کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ چُکی ہے۔جنیوا میں ہونے والے مذاکرات دراصل گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے پیش کیے گئے امن عمل کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ اس قرار داد میں شام میں انتخابات کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے لیے ایک سیاسی ڈیل کے لیے18 ماہ کے ٹائم ٹیبل کا ذکر بھی کیا گیا اور اس میں شام میں
ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کی بات بھی کی گئی تھی۔
دریں اثناء اُردن میں برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمُند نے ایک بیان میں کہا کہ اُن کا ملک جنیوا میں منعقدہ ان امن مذاکرات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ اُن کے بقول،ہم طرفین سے یہ امید کرتے ہیں کہ جینوا مذاکرات میں دونوں فریقین نیک نیتی سے حصہ لیں گے اور شامی عوام کو وہ امن فراہم کرنے کی راہ ہموار کریں گے جو اُن کا جائز حق بنتا ہے۔

SHARE