محمد سلیمان اختر فاروقی
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
سورہ عبس میں اللہ تعالی نے قیامت میں لوگوں کی بےبسی کا منظر کھینچتے ہوئے کہاہےکہ یہاں کسی کی طاقت و قوت، مال و زر اور رشتہ داری کام نہیں آئے گی، یہاں طاقت و قوت کے تمام سرچشموں کی نفی ایک خاص ترتیب سے کی ہے، یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن نے جس ترتیب سے جو بات کہی ہے اس میں بھی اعلی درجےکی حکمت ہے، چناں چہ فرمایا ہے:
یوم یفر المرء من أخیہ و أمه و ابیہ و صاحبتہ و بنیہ
ترجمہ: جس دن انسان اپنے، بھائی ، ماں، باپ ، بیوی اور بیٹے سے بھاگے گا۔
ا س آیت کریمہ میں انسان کے اپنے بھائی ، ماں، باپ ، بیوی اور بیٹے سے راہ فرار اختیار کرنے کی بات کہی گئی ہے، یہ سب باوجودیکہ بالترتیب دنیا میں باہم ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے تھے، لیکن آخرت میں ان کی بے وفائی اور مدد سے بے اعتنائی قابل عبرت ہوگی، یہ سب کسی کو بھی تعاون فراہم کرنے سے قاصر اور درماندہ ہوں گے۔
قربان جائیے قرآن کی ترتیب پر! قرآن نے سب سے پہلے بھائی کا ذکر کیا ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسان مدد کے لیے سب سےپہلےبھائی کو approach کرتاہے، پریشانی میں بھائی اپنے بھائی کی پناہ لیتا ہے، آپ کو اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہوگا، آپ لامحالہ اپنی پریشانی اپنے بھائی سے بیان کرتے، پھر جب یہاں مسئلہ حل نہ ہوتا، تو آپ ماں سےفریاد کرتے، وہ خود کرتی یا پھرآپ کے ابا سے manage کراتی، یہ سلسلہ تو آپ کا بچپن سےلےکرجوانی تک چلتا رہا، آپ بھائی سے، پھرماں سے، پھرباپ سے، اپنی مشکلات کا حل تلاش کرتے تھے، لیکن جب شادی ہوئی تو بیوی سےاپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے مدد کی درخواست کرتے، کبھی بھی اس کی مدد کےبغیرآپ اپنی اولاد کو نہ پال سکتے تھے، اور نہ ہی کچھ اور کرسکتے تھے، زندگی بھرآپ کو اپنی بیوی کا تعاون ضروری تھا، ورنہ کہیں کےنہ رہتے، پھرایک وقت آیا، جب آپ بوڑھےہو گئے، تب آپ کو اپنے بیٹوں کی مدد کی ضرورت پڑی ۔ پوری زندگی انسان کے باہمی تعاون کی یہی ترتیب ہے، انسان اسی ترتیب سے مدد اور تعاون کی اپیل کرتا ہے، ہر ایک کے تعاون کا ایک وقت ہے، بچپن میں بھائی اور والدین، سے، شادی کے بعد بیوی سے، اور بڑھاپے میں بیٹوں سے، البتہ بھائی سدا بہار ہوتا ہے، بچپن سے لے کر جوانی بلکہ بڑھاپے میں بھی اس سے ایک امید اور آس ہوتی ہے، اس طرح قرآن نے طاقت و قوت اور مدد و تعاون کے تمام سرچشموں کوکالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ یہ سارے لوگ جو تم کوزندگی کے تمام مراحل میں مدد کرتےتھے، آج بے بس و مجبور ہیں، آج یہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ قرآن کی الہامی ترتیب ہمیں یہ بتاتی ہےکہ طاقت و قوت اور تعاون میں جو ذات سب سےپرتھم اور پہلے نمبر پر ہے، وہ بھائی کی ذات ہے، جو ہمیشہ طاقت و تعاون کا symbolic icon ہوتا ہے، اس سےبھی انسان بروز قیامت تعاون اور مدد حاصل کرنے کے بجائے، راہ فرار اختیارکرےگا۔ معلوم ہواکہ بھائی دنیا میں تعاون ہی کے لیےپیدا ہواہے، یہ نہ صرف اسلامی نظریہ ہے، جیساکہ قرآن جب بھی مسلمانوں کےدرمیان باہم رشتےداری اور تعلق کو بیان کرتا ہے، تو یہ نہیں کہتا کہ تمام مسلمان باہم دوست ہیں، یا باپ اور بیٹا ہیں، بلکہ ان تمام کےبجائے یہ کہتاہےکہ تمام مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:
انما المؤمنون اخوۃ، فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلكم ترحمون۔ (سورہ حجرات)
ترجمہ: حقیقت تو یہ ہےکہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ ، اور اللہ سےڈرو تاکہ تمہارےساتھ رحمت کا معاملہ کیاجائے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھائیوں کے بہتر اور صلح و آشتی پر مبنی تعلقات رحمت خداوندی کے ضامن ہیں، اور باہم ناچاقی اور عدم تعاون تباہی کا ذریعہ ہیں۔
البتہ اگر باہم تعاون علی البر کی بات کرتا ہے، تو مومنین کو باہم مددگار اور رفیق کہتا ہے، چناں چہ ارشاد باری ہے:
و المومنون و المومنات بعضہم اولیاء بعض، یأمرون بالمعروف و ینہوں عن المنکر و یقیمون الصلاۃ و یؤتون الزکاۃ و یطیعون اللہ و رسولہ اولئک سیرحمہم اللہ۔ (9:71)
مومن مرد اور مومن عورتیں باہم ایک دوسرے کے مددگار ہیں، وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، اور یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا۔
اس آیت کریمہ میں مومن مردوں اور عورتوں کی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ان کی رفاقت اور دوستی تعاون علی البر سے عبارت ہے۔ لیکن جب وہ معاشرے اور سماج کا حصہ ہوتے ہیں تو وہ باہم بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ چنان چہ ایک حدیث میں صراحت کےساتھ یہ کہا جارہاہےکہ بھائی بھائی بن جاؤ، یہ نہیں کہا جارہا کہ باہم دوست بن جاؤ، کیوں کہ بھائی ہونا ہی ایک ایسا وصف ہے جو، خلوص و محبت اور باہمی تعاون وغیرہ امور سے عبارت ہے، یہی وہ رشتہ ہے جو زندگی کےہرموڑپرکسی بھی پریشانی کے عالم میں سہارا بنتا ہے، یہ رشتہ انسان کو کہیں اور کبھی بھی تنہا و بےیار و مددگارنہیں چھوڑتا ہے، اسی رشتے سے معاشرتی اقدار قائم رہتی ہیں۔
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَقَاطَعُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا. (مسلم: ۲۵۵۹)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ نبی ﷺ نےفرمایا : ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے بندے، ( ایک دوسرے کے ) بھائی بن کررہو۔
در اصل ایک دوسرے سے بغض نہ رکھنا، باہم تعاون کرنا اور قطع تعلق سے باز رہنا ہی وہ خوبیاں ہیں جو ایک بھائی میں فطری طور پرہوتی ہیں، اسلام چاہتا ہےکہ یہ خوبیاں جو سگے بھائیوں میں تو واجبی طور پرہوتی ہیں، یا ہونی چاہیے، کہ ان کےبغیربھائی ہونےکا تصور ہی نہیں ہوسکتا ہے، یہ عام مسلمانوں میں بھی پیدا ہوجائیں اور وہ بھی باہم بھائی بھائی بن جائیں، جو ایک دوسرےکےلیےکھلی کتاب ہوں، نہ ان میں، حسد ہو، نہ بغض ہو، نہ کینہ ہو، نہ وہ ایک دوسرےسےالگ ہوکر رہیں، نہ حسی طور پر، اور نہ ہی ذہنی طور پر۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا، وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ، حَرَامٌ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ ”
(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ ،باب تحریم ظلم المسلم (2564 )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: “مسلمان مسلمان کابھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کوذلیل کرے، نہ اس کوحقیرجانے، تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے۔ اور اشارہ کیا آپ ﷺ نےاپنے سینے کی طرف تین بار (یعنی ظاہرمیں عمدہ اعمال کرنےسےآدمی متقی نہیں ہوتا جب تک سینہ اس کا صاف نہ ہو) ” کافی ہے آدمی کو یہ برائی کہ اپنے مسلمان بھائی کوحقیرسمجھے، مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت اور آبرو۔”
بہرکیف، قرآن و حدیث کےمطالعےسےیہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہےکہ امن و آشتی ، محبت اور باہمی تعاون کےساتھ رہنا بھائیوں کی فطرت ہے، اس کے خلاف رہنا فطرت سے بغاوت ہے، اور جو اپنی فطرت سےبغاوت کرتےہیں، وہ یا تو ہلاک و برباد ہوجاتےہیں، یاپھر تاریخ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے۔ لہذا، اگرحقیقی بھائی لوگ بھی باہم دست و گریباں رہے اور بھائیوں کی بجائے اجنبیوں کی طرح رہے، اور ایک دوسرےکوپس پشت ڈال کر باہم ایک دوسرے کےاخلاقی حقوق، جو بحیثیت بھائی کےحقیقی مفہوم کے واجبی حقوق ہیں، پامال کرتےرہے، باہم ایک کھلی کتاب کےبجائے، بغض و کینہ سے اپنے سینےکی آگ کو دو آتشہ کرتےرہے، باہمی تعاون کےبجائے، بھائیوں کی اقتصادی و سماجی حالت سے بے خبر رہے، یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دئیے، نہ مالی تعاون کیا، اور نہ ہی ان کی قولا و مشورۃ خیر خواہی کی، تو ہلاکت ان کا مقدر بن جائےگی، اور عزت و شہرت ان سےروٹھ کرہمیشہ کےلیےانھیں بے نام نشان کردےگی۔
بھائی باہمی مدد و تعاون کا وہ ستون ہوتا ہے جس کی نظیرکسی رشتے اور تعلق میں نہیں ملتی، چناں چہ ابھی ابھی میں نے اس کی نشان دہی قرآن اور حدیث دونوں سے کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ بھائی ہی ایک ایسی فطرت اور جبلت کا حامل ہوتا ہے جو تعاون و نصرت سےعبارت ہوتی ہے، اس کی پیدائش اور شناخت ہی اپنے بھائی کے ساتھ تعاون کے وصف کے ساتھ ہوتی ہے، قرآن و حدیث کے علاوہ خود انسانی سماج بھی بھائی کو مدد اور تعاون کا symbol سمجھتا ہے، چناں چہ عربی زبان میں یہ کہاوت مشہورہے کہ:
“کثرۃ الاخوان تدل علی کثرۃ الاعوان”
بھائیوں کی کثرت مددگاروں کی کثرت پردلالت کرتی ہے۔ یعنی آپ کےجتنےزیادہ بھائی ہوں گے، اتنے ہی زیادہ مددگارہوں گے۔ عربی زبان وادب کی تاریخ کے مطابق اس کہاوت کے پس منظر کے متعلق ایک واقعہ ذکر کیا جاتا ہے، چناں چہ کہاجاتا ہےکہ ہے مذکورہ بالا جملہ اس وقت کاہے جب حضرت عبد المطلب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نے چاہا کہ زمزم کے کوئیں کوکھود کردوبارہ حاجیوں کےلیےجاری کردیں، تو قریش نےتلواریں سونت لیں، اور کہا کہ یہ بابرکت کام آپ انجام نہیں دے سکتے، بالآخر وہ یہ کارخیرنہ کرسکے، البتہ انھوں نےیہ منت مانی کہ “اے خدا اگر تو مجھے دس بیٹےدے، تو میں ان کی مدد سےتیرے مقدس گھر کا یہ کنواں دوبارہ جاری کردوں گا اور ان میں سےایک کوتیری راہ میں قربان بھی کردوں گا۔” اللہ پاک نے انھیں دس بیٹے دئیے، پھرکیا تھا، جب بیٹے ذرا بڑے ہوئے تو سبھی کو لےکر حرم کعبہ میں آئے اور چاہ زم زم کھودکر اسے حجاج کے لیے دوبارہ جاری کردیا،۔ اس بار دس جوان بھائیوں کودیکھ کرکوئی بھی سامنےنہیں آیا، اور پھر یہیں سے یہ کہاوت بھی مکہ مکرمہ میں زبان زد خاص و عام ہوگئی کہ: “کثرۃ الاخوان تدل علی کثرۃ الاعوان” یعنی بھائیوں کی کثرت مددگاروں کی کثرت پردلالت کرتی ہے، یعنی آپ کےجتنےزیادہ بھائی ہوں گے، اتنےہی زیادہ مددگارہوں گے۔
اخوت (بھائی ہونا) ایک ایسا وصف اور خوبی (characteristic) ہے جو ہر اعتبار سے باہمی تعاون، مدد اور خیرخواہی سےعبارت ہوتا ہے، یہ ایسا وصف ہے جو اپنی تاثیرمیں زمان و مکان کی قید سےآزادہوتا ہے، زندگی کے ہر موڑ پر بھائی اپنےبھائی کا ہمدم و ہمساز اور غم خوار ہوتا ہے، اگروہ ان اوصاف سے خالی ہے تو پھر خدا تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعین کردہ اخوت کے معیار پر وہ بھائی نہیں ہے، بلکہ صرف اور صرف شریک وراثت و جائداد (property sharer) ہے، اور اس کی اپنے بھائی کے ساتھ رفاقت اور دل چسپی بس اسی وقت تک کے لیے ہوتی ہے جب تک ان کا باپ مر نہ جائے، اور وراثت میں حصہ نہ مل جائے، باپ کے مرتے ہی ایسا بھائی، بھائی کے تمام اوصاف سے عاری ہوکر محض شریک جائداد رہ جاتا ہے، وہ نہ اس کے ساتھ کھلے پن کا مظاہرہ کرتا ہے، نہ اس کی مدد کرتا ہے، نہ اس کی خوشی، اپنی خوشی سمجھتا ہے، نہ اس کا غم، اپنا غم سمجھتا ہے، اپنے کردار و گفتار، اخلاق و اعمال سے اپنے بھائی کے ساتھ ذرا بھی دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
خاندان کا سب سے بڑا ستون اور زندگی کی گاڑی کو منزل تک پہنچانے میں بھائی کے کلیدی کردار اور بنیادی رول کے تعلق سے بعض واقعہ نگاروں نے ایک واقعہ لکھا ہےکہ ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا، بھائی اور شوہرتینوں گرفتارہوگئے، اور تینوں کوپھانسی کی سزا ملنی طے پائی، بادشاہ بڑا رحم دل تھا، اس نےسوچا کہ عورت کی زندگی کہیں برباد نہ ہوجائے، اس لیے ان میں سےکسی ایک کی جان بخش دی جائے، چناں چہ اس نے عورت کواختیاردیاکہ بھائی، شوہر اور بیٹا میں سےکسی ایک کواختیارکرلے، اس پر اس نےاپنےبھائی کواختیارکیا، بادشاہ کوحیرت ہوئی کہ بیٹے اور شوہرکےہوتےہوئےبھائی کوکیوں اختیارکیا، عورت نےکہاکہ بیٹا اور شوہر تو مل سکتےہیں، چنانچہ اگر دوسری شادی کر لی جائے تو شوہر مل جائے گا، اور پھر جب توالد و تناسل کا سلسہ چلے گا، تو بیٹا بھی مل جائے گا، لیکن بھائی کا ملنا ناممکن ہے، اس لیےمیں نےبھائی کواختیارکیا۔
مختصر یہ کہ بھائی ہی وہ عظیم ہستی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پرانسان کےکام آتی ہے، زندگی کی مایوسیوں میں حوصلوں کی روح پھونکتی ہے۔ جب کوئی بھائی، بھائی کی عظمت سے واقف ہو جاتا ہے، تو اپنے ان بھائیوں سے بھی، جن سے وہ لا تعلقی اختیار کیے رہتا ہے، یا ان سے پہلو تہی کیے رہتا ہے، ان کے کاموں، پیشوں اور تمام سماجی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں روڑے اٹکاتا ہے، یا اس کی معاشرتی ترقی و تنزلی، کی طرف ایک نگاہ غلط بھی ڈالنا گوارہ نہیں کرتا، بلکہ اسے یوں چھوڑ دیتا ہے جیسے کہ وہ ایک اجنبی ہے، اور اس کے پڑوس میں آکر بس گیا ہے، اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ وہاں محل تعمیر کرتا ہے، یا جھونٹرا بناتا ہے، موسم گرما میں گرمی کی تمازت سے جھلستے ، یا جاڑے کی یخ بستہ ہواؤں سے ٹھٹھرتے ہوئے بھائیوں پر نگاہ ڈالنے یا ان پر سوچنے کی اسے فرصت نہیں ہوتی، وہ ان کی دامے، درمے ،قدمے ، سخنے مدد اور تعاون تو دور کی بات ہے، اس کے ترقی کرنے کی شکل میں نہ حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور نہ ہی پریشانی کی صورت میں ڈھارس بندھاتا ہے، وہ مرض و تکلیف، خوشی و شادی اور دوسرے مراسم سے بھائیوں کو آگاہ کرکے نہ پریشانیوں کو دور کرتا ہے، اور نہ ہی خوشیوں کو دوبالا کرتا ہے، بلکہ وہ بھائیوں کے تعلق سے گاڑی کا ایک نیوٹل گیر بن جاتا ہے، ہاں دوستوں کے ساتھ ضرور ٹچ میں رہتا ہے۔ لیکن ان تمام کے باوجود وہ بھائی کی عظمت اور خاندان میں اس کے عظیم کردار سے واقف ہوتا ہے، وہ اسے اپنی طاقت و قوت کا مظہرسمجھتا ہے، وہ اچھی طرح یہ سمجھتا ہے کہ انھیں بھائیوں سےاس کی شان اور آن بان قائم ہے، اوروں کےسامنے انھیں سے اس کی واہ واہی ہوتی ہے، اور عزت و شہرت قائم رہتی ہے، اسی سے اس کےاعلی خاندان کا وقار اور بھرم برقراررہتا ہے، اور اس کی ایک بہترین شناخت اور پہچان قائم ہوتی ہے، چناں چہ وہ حسب موقعہ بھائیوں کو اپنی بڑے خاندان کے حصے کے طور پر پیش کرتا ہے، شادی بیاہ اور اس جیسے مواقع پر جہاں حسب و نسب کا مسئلہ پیش آتا ہے، وہ اپنا رشتہ ضرور جوڑتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بھائی کی بہر حال ایک عظمت ہے، اس کی عظمت کو تاراج ہونے سے بچانا خاندان کے ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے۔
تاریخ اسلامی میں مواخات کا واقعہ ناقابل فراموش ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انصار و مہاجرین کےدرمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا، تو اس وقت تاریخ کی آنکھوں نےدیکھا تھا کہ ایک انصاری اپنےمہاجربھائی کو جو دراصل حقیقی بھائی نہیں تھا، بلکہ اسے حقیقی بھائی کی مانند مان لیا گیا تھا، اپنی دولت ، پراپرٹی، گھر بار حتی کہ ایک سے زائد بیویوں کو طلاق دےکراس سےنکاح کرادیا تھا، انسانی تاریخ میں اس طرح کی کوئی ایک مثال بھی ملنی بہت مشکل ہے۔دراصل بھائی ہونے کا یہی وہ معیار ، parameter اور کسوٹی ہے، جس پر کسی کے بھی وصف اخوت کو پرکھا جاسکتا ہے، اگر وہ ان اصولوں اور کسوٹیوں پر پورا اترتا ہے تو وہ بھائی ہے، ورنہ پھر وہ ایک پڑوسی اور شریک جائداد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، ہمیں، خود اپنے آپ، اپنے گھر اور خاندان پر ان اصولوں کو منطبق کر کے دیکھنا ہے کہ آیا ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں یا کچھ اور!
حضرتِ ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سےایک روایت آئی ہے کہ انصار نےنبی کریم ﷺسے عرض کیا:”آپﷺہمارےدرمیان اور ہمارےبھائیوں (مہاجرین) کےدرمیان ہمارے کھجورکے باغات تقسیم فرما دیں۔ آپﷺنےفرمایا:”نہیں” انصار نےکہا: “تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کوشریک رکھیں گے۔” انہوں نےکہا:”ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی۔ (صحیح بخاری، باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل ، 1/213)
زاد المعاد میں اس بھائی چارہ کی مزید تفصیل یہ بھی درج ہے کہ آپ ﷺ نے ان مہاجر بھائیوں کو ان انصار کا وارث بھی بنایا ، یعنی اگر انصاری کا انتقال ہوا تو مہاجر (جو کسی طور پر رشتہ دار نہیں ہے، بس ایک اسلامی بھائی ہے) اس کے مال کا وارث ہوگا، جو غزوہ بدر تک چلتا رہا، حتی کی آیت میراث نازل ہوئی تو وراثت سے اس کا نام خارج ہو گیا، البتہ اس کے علاوہ تمام حقوق (جو ایک نہیں بہت سے ہیں) بعینہ باقی رہے۔
غور کرنے کا مقام ہےکہ بھائی ہونے کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکیاسمجھایا، صحابہ نے اسے کس طرح سمجھا، اور پھر کس طرح اسےصحابہ نے باہم implement کیا. اور آج ہم بھائی ہونے کا کیا مطلب لیتے ہیں۔
بعض انصار نےاپنےگھروں کےبیچوں بیچ دیوار کرکے ایک حصہ اپنے لئےرکھ لیا اور دوسرا حصہ اپنےمہاجربھائی کودے دیا۔ اس طرح کےایثارکے واقعات اور بھی ہیں۔ کچھ انصار صحابہؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے پاس چند زرعی زمینیں ہیں، یافلاں باغ ہماری ملکیت میں ہے، آپ یہ باغ اور زمین ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائی کےدرمیان تقسیم فرمادیں، مگرآپ نےیہ پیشکش قبول نہیں فرمائی، بلکہ حکم دیا کہ وہ اپنی زمینیں اور باغات اپنے پاس رکھیں اور محنت کے عوض اپنے بھائی کو اس کی پیداوارمیں شریک کرلیں۔ تمام انصار صحابہؓ اپنےمہاجر بھائیوں کےساتھ ہمدردی کےساتھ پیش آتے، ہرچیزمیں ان کوترجیح دیتے، اور ان کی خدمت اور دل جوئی کےلئے ہمہ وقت تیاررہتے۔ دراصل یہی وہ مراعات و حقوق ہیں جو ایک بھائی کے دوسرے پر لازم ہوتے ہیں، کسی بھی بھائی کا ان میں کوتاہی کرنا اس کی اپنی عرفی، شرعی اور اخلاقی حیثیت سے بغاوت اور غداری کے مرادف ہے۔
ایک مرتبہ مہاجرین نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! ہمدردی اور ایثارمیں انصار بھائیوں کا کوئی ثانی نہیں ہے، ہمیں ڈرہےکہ آخرت کا سارا اجرو ثواب ہمارے یہ بھائی ہی نہ سمیٹ لیں۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۰/۳۶۱، رقم الحدیث:۱۳۰۷۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ان کے ممنون احسان رہوگے، اور ان کی تعریف کرتےرہوگے، اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی لئے دُعا کرتے رہوگے تو اللہ تعالیٰ اس شکرگزاری، احسان شناسی اور دعا کی برکت سےتمہیں بھی اجر و ثواب سےنوازے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی: ۱۹/۱۰۸، رقم الحدیث: ۸۸۱۱، المعجم الاوسط للطبرانی: ۱۶/۷۸، رقم الحدیث: ۷۵۰۲، مسند احمد بن حنبل: ۲۶/۱۹۵، رقم الحدیث: ۱۲۶۴۸)
مذکورہ بالا احادیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ بھائی کے بھائی پر بے پناہ حقوق ہیں، اگر ایک بھائی کسی وجہ سےکمزور ہے، اس کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہے، تو جس بھائی کے پاس وسعت ہے تو محض چند بہانوں سے جیسے اپنے کھیت کی نگہبانی، رکھوالی، اور اپنے کام کی دیکھ ریکھ پر ہی وہ اس کو اس کی پیداوار اور آمدنی میں سے حصہ دے، اور اس طرح اس کی عزت نفس کے تحفظ کے ساتھ اس کی مدد کرے، گھر بار، یا کسی بزنس و تجارت میں بھی اگر وسعت ہو، تو اسے ضرور کچھ حصہ دے، جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی باہمی اخوت کی اعلی اقدار سے ثابت ہوتا ہے۔ مہاجر و انصار صحابہ رضی اللہ عنہم جو کہ حقیقی بھائی نہ تھے، پھر بھی جس طرح کی مثال قائم کی ہے وہ ہمارے معاشرے کے لیے مشعل راہ ہے، اور اسی طرز عمل کواختیار کرکے ہی صحیح معنوں میں ہم بھائی کہلانے اور پھر آخرت میں اجر و ثواب کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ورنہ اس وقت ہماراجس طرح کا طرز عمل ہے ، اس سے ہم کو ثواب کیا ملے، کچھ عجب نہیں کہ کہیں عتاب خداوندی کے شکار نہ ہوجائیں۔ آج ہم میں باہمی تعاون، پراپرٹی الاٹ کرنے، زمین، عمارت اور فلیٹ وغیرہ میں کچھ حصہ دینےکا رواج تو دور کی بات ہے اس کا تصور تک نہیں ہے، معروف و مروج طریقے پر ایک دوسرے سے ملنے، خوشی و مسرت کے مواقع پر باہم مبارک بادیوں کے تبادلے، اس طرح باہم خوش کلامی کے مواقع تلاش کرکے بات کرنے، ایک دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹانے، باہم ایک دوسرے کے حالات پوچھ کر ان پر غور و فکر کرنے اور ان کی بہتری کے لیے دانشورانہ کوشش (intellectual efforts) پیش کرنے، نیز کمزور بھائیوں کے تجارت و پیشے میں بہتر مشاورت اور تعاون دینے، اور ان کے کسی بھی اقتصادی و تعمیری پروجیکٹ سے خوشی کا اظہار کرنے، یا حوصلہ افزائی کے چند کلمات ادا کرنے تک کا فقدان ہے۔
اوپر کی سطور میں صحابہ کے بھائیوں کا جو حال بیان ہوا ہے جیسا کہ معلوم ہے کہ وہ باہم حقیقی بھائی نہیں تھے بلکہ انھیں بھائی بنایا گیاتھا،لیکن آج ہم حقیقی بھائی کا کیا معنی سمجھتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، آج ہم شریعت کے اس اصول کوسامنےرکھتےہیں کہ بھائی بھائی کا وارث نہیں، بھائی کا بھائی پرخرچ واجب نہیں، حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک وقت میں ان اخلاقیات کو فرض قرار دیا تھا، ظاہرکہ ایسے یا اس جیسے حالات اگر ہمارے خاندان میں پیدا ہوجائیں تو اخلاقیات کی یہ ساری تعلیمات واجب اور فرض ہوں گی، جب بھائی کسی بھی طرح کسی بھی چیزمیں محتاج ہو، چاہے وہ خورونوش کا مسئلہ ہو، چاہےرہائش کی ضرورت ہو، ہمیں ان اخلاقی ذمہ داریوں کوپوری کرنی ہوگی، ہماری یہ عجیب دوغلی پالیسی ہےکہ ہم ساری اخلاقی ذمہ داریاں بیویوں پر فرض کرکے ان سے پورےاخلاقی حقوق بدرجہ فرض وصول کرتے ہیں، اور ان کی بھی اخلاقی ضروریات واجبی طور پرپوری کرتے ہیں، لیکن باہم بھائیوں میں اسے محض اخلاقی، نہ کہ واجبی کہہ کرپلہ جھاڑ لیتے ہیں، ہماری مسلم سوسائٹی کا یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے، اور کسی بھی طرح شریعت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
افسوس کہ آج ہمارا سماج بھائی پن کے ان تمام جذبات اور اقدار سےخالی ہوگیا ہے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمتعین فرمائےتھے، اور جن اقدار ہی کی وجہ سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں بھی باہمی محبت و تعاون کےساتھ رہنےکی بات کی ہے وہاں بھائی بن کررہنے کی، کی ہے۔ آج ہم میں بےاعتنائی کی وہ خصلت پیداہوگئی ہےکہ ہم بھائیوں کے مسائل سے دل چسپی لینا تو دور کی بات ہے، ان سے بات تک نہیں کرتے، اگر کبھی کچھ بات کرتےبھی ہیں تو محض موسم کے احوال ، کرونا کے احوال کے متعلق چند رسمی باتوں کےسوا کچھ نہیں کرتے، ان کی مالی، اقتصادی، عائلی اور بچوں کے تعلیمی مسائل، گھر گرہستی سے جڑی ہوئی مشکلات کی بو تک نہیں سونگھتے، مبادا کہیں خود نہ پھنس جائیں، حالاں کہ اخوت کی گاڑی انہیں راستوں سے ہوکر آتی ہے، آج ہم اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، دوست آئے تو کئی دن سے اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں، لیکن کبھی بھائی اگر آجائے، تو اس کا خاطر خواہ استقبال نہیں کرتے، نہ ہی اسے وقت دیتے ہیں۔ آج کے سماج نے ایک ماں کےشکم میں پلنےوالےبھائیوں کوباہم خود غرض اور انٹرورڈ بنا دیاہے۔
ایک وقت تھا جب کم از کم باپ کی حیات میں بھائی اپنےباپ اور ماں کی رعایت میں اپنی پراپرٹی اور عیش و عشرت کے سامان الگ نہیں کرتاتھا، وہ والدین کی حیات تک اپنی کمائی کی ایک ایک پائی باپ کےقدموں میں ڈال کر اس کےسائےتلےاپنےبھائیوں کےلیےزندگی کے مراحل آسان کردیتا تھا، وہ باپ کی موروثی جائداد کوبڑھاتا تھا، تاکہ تمام بھائی جس طرح ایک ماں کے شکم سے ایک ہی جگہ سے خوراک لے کر آئے ہیں، اور ایک باپ کی تربیت اور پسینے کی کمائی سے پلے اور بڑھے ہیں، آئندہ بھی کم ازکم ایک نسل تو آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کر لے، چاہے اس کاتعلق گھر بار اور عمارت سے ہو، یا زراعت سے ہو، زرعی یا تجارتی زمینوں کی بڑھوتری سے ہو، ہر جگہ وہ مشترکہ طور پر بڑھاوا دے کر زندگی کی ڈگر کو آسان کر دیتا تھا، حالاں کہ اس طرح کبھی کبھی اس کےساتھ مسائل بھی پیدا ہوجاتےتھے، مگروہ ان کی پروا کیےبغیرباپ کی حیات تک کم از کم اپنے لیے نہیں، اپنوں کےلیے جیتا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےبھائی پنےکی جو وسیع حدود متعین کی تھیں ان کی پابندی کرتا تھا، اس طرح ایک خوش حال خاندان کو وجود میں لاتا تھا۔ مگر بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ رسم و ریت بدل گئی، اور اب بھائیوں کی ترجیحات بدل گئیں۔ مادیت پرستی، اور مال کی ہوس نے جب انھیں خود غرض اور self-centered بنا دیا تو انھوں نے اپنے بچوں کے لیے ایک باپ کی طرف سے اٹھائے گئے کاسۂ گدائی کو بڑی حقارت کےساتھ اچھال دیا، اور باپ کی موروثی جائداد منقولہ و غیرمنقولہ میں اضافہ کرنے، اور اس کے بچوں یا اپنے سگے بھائیوں کو خود کفیل بنانے کے بجائے، اپنی الگ شناخت اور پہچان بنانےکی تگ و دو شروع کردی، اس تگ و دو نے انھیں جہاں ایک طرف بھائیوں سےبےنیاز اور بے گانہ کردیا وہیں دوسری طرف والدین کے ان ارمانوں اور ِخواہشات و تمناؤں کا گلابھی گھونٹ کررکھ دیا، کہ کاش ہمارے سارے بچےباہم شراکت کےساتھ اولا پراپرٹی، جائداد اور آمدنی کے ذرائع بڑھاتے، پھر خود کفیل ہوکرزندگی بسر کرتے، تاکہ ان میں باہم کافی حد تک سماجی ، معاشی اور اقتصادی مساوات باقی رہتی، مگر عام طور سے ایسا نہیں ہوتا، جس کےنتیجےمیں ایک ترقی پذیر اور خوش حال خاندان غربت اور امیری کے مختلف خانوں میں بٹ جاتا ہے، باہم سگے بھائیوں کےبیچ دولت کی بنیادوں پربرتری اور کہتری کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں، ایک بھائی، باپ اور دوسرےبھائیوں کےزیرسایہ دعاؤں اور قربانیوں سے حاصل شدہ علم و ہنرکےنتیجےمیں، بیش بہا دولت کا مالک اور عزت و وقار کی علامت بن جاتا ہے، تو دوسرا بھائی اپنی کم مائیگی، اور مختصر سےسرمائےکی وجہ سےذلیل و خوار سمجھا جانےلگتا ہے، ، ایک چھپ چھپا کر کسی شہر یا لب روڈ محل بنا لیتا ہے، یا اپنی آمدنی کے ذرائع پختہ کر لیتا ہے، تو دوسرا باپ کے ساتھ گاؤں کے جھونپٹرے ہی میں رہ جاتا ہے، کوئی اپنے بچوں کے لیے اعلی تعلیم کا انتظام کروا کر ان کا مستقبل تابناک بنا دیتا ہے، تو دوسرا نان شبینہ کا محتاج ہوکر اپنے بچوں کی تعلیم کا تصور ہی ترک کردیتا ہے۔، دولت کسی کو سماج میں بظاہر عقل و دانش اور تہذیب و تمدن کا شاہکار بنا دیتی ہے تو دوسرے کو غربت، حماقت و وقوفی اور کم عقلی کا آیکن بنا دیتی ہے، ایک بھائی، سماج کےلیےمسیحا بن جاتاہے تو دوسرا سماج پربوجھ بن جاتاہے، اس طرح ایک خاندان جو کبھی خوش حال اور فارغ البال سمجھا جاتا تھا، اور عزت و وقار کا آئینہ ہواکرتا تھا، سماج میں بحیثیت خاندان اپنا وقار اور اپنی پہچان کھودیتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انفرادی دولت اور عزت علیحدہ طور پرکسی کے بھی کام نہیں آتی، اپنے لوگ، ایسےخاندان سےمنہ موڑلیتےہیں، پرانےملنسار اس در سےدوری بنا لیتےہیں اور پھراعلی اخلاق و کردارسےدیوالیہ خاندان کو پوچھنے والا کوئی نہیں رہتا، ملنےجلنے اور دعائیں دینےوالےگھرکےدروازےسےہی لوٹنےلگتے ہیں، یہ ایسا نقصان ہوتاہے، جس کی تلافی صدیوں میں ممکن نہیں ہوتی، چنان چہ لوگ جس خاندان کواپنی قیادت اور رہبری کےلیے پہلی پسند قرار دیتے تھے، اب وہ خاندان، ان کے لیے محض ایک پارینہ داستان بن جاتاہے، اور وہ اس خاندان کےمتعلق اس کے پرکھوں کی داستان سرائی تو کرتے ہیں، لیکن موجودہ نسل کو گھاس ڈالنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ظاہرہے کہ ایسے حالات اس لیےآتےہیں کیونکہ ہم اجتماعی طور پرایک مضبوط و منظم اور خوش حال خاندان کی طرح جینےکےبجائےانفرادی ترقی اور خود غرضی کی راہ اپناتے ہیں، جس سےہم اگرچہ انفرادی طور پرمادی بد حالی سےبچ جاتےہیں، لیکن اخلاقی، معاشی، اقتصادی ، سماجی اور ہمارے قائدانہ اقدار کی بدحالی ہمارا مقدر بن جاتی ہے، جس کی تلافی بہت صدیوں میں بھی بہت مشکل سے ہوتی ہے۔
آئیے ہم اپنا اور اپنے خاندان کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ ہم اخوت و بھائی چارگی کے بحران میں کہاں stand کرتے ہیں، تاکہ اس کی تلافی کی کوشش کریں۔ وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ یکم ربیع الاول ۱۴۴۳ہ مطابق ۹ اکتوبر ۲۰۲۱ء