امام علی مقصود فلاحی
(متعلم جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن)
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
نوجوان نسل ہر قوم کے قیمتی اثاثہ ہوا کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ تاریخ انسانی کا سب سے عظیم اور پاکباز انقلاب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تھا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عظیم تبدیلی کو لانے میں نوجوان صحابہ نے بنیادی کردار ادا کیاتھا۔
اسی لئے اقبال کو بھی سب سے زیادہ اُمیدیں نوجوانوں سے ہی وابستہ تھیں، اسی لیے نوجوانوں کیلیے علامہ اقبال نے ہمیشہ شاہین کا استعارہ استعمال کیا کرتے تھے، اور وہ یہ امید رکھتے تھے کہ اُمّتِ مسلمہ کے شاہین صفت نوجوان اُن کی فکر کو عام کرنے اور نظامِ زندگی کو اُس کے مطابق استوار کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
وہ چاہتے تھے کہ جو خصوصیات اللہ نے شاہین میں پیدا کی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی پیدا ہو جائیں۔
جیسے شاہین بلند پرواز ہے عام پرندوں کی طرح نیچی پرواز اس کے شایانِ شان نہیں ہے بالکل اسی طرح نوجوانوں میں بلند پروازی کی صفت پیدا ہوجاے، مسلم نوجوانوں کے مقاصد بھی بلند ہو جائیں،ان کی سوچ میں پستی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
جس طرح شاہین کی آنکھ بہت دور تک دیکھ سکتی ہے، اسی طرح نوجوانوں میں بھی دور اندیشی ہونی چاہئے، آنے والے حالات کو پہلے سے بھانپ کر منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔
شاہین کسی اور کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا یعنی وہ خود دار ہوتا ہے ،اپنی محنت اور کوشش پر انحصار کرتا ہے گویا مسلم نوجوانوں میں بھی خودداری کی صفت ہونی چاہئے کہ وہ دوسروں کے بجائے اپنی ذات کی محنت اور کوشش پرانحصار کرنے والے بن کر اللہ سے مدد کی توقع رکھنے والے ہوں۔
جیسے شاہین آشیانہ بنا کر کسی ایک جگہ پابند رہنا پسند نہیں کرتا، اسی طرح مسلم نوجوانوں کو بھی ہونا چاہئے کہ وہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ترقی اور عظمت کے خواب دیکھنے کے بجائے علوم و فنون کے حصول کے لئے پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی جانا پڑے،جانے سے گریزنہ کریں، ترقی اور بہتری کے مواقع جہاں بھی نظر آئیں ان تک رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔
جس طرح فقرواستغنا شاہین کی اعلیٰ صفات میں سے ایک صفت ہے کہ وہ دوسرے پرندوں کی سرگرمیوں اور کھیل کود سے بے نیاز ہوتا ہے، دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، اسی طرح مسلم نوجوانوں کی تربیت میں بھی یہی چیز شامل ہونی چاہئے۔
قارئین! شاہین کی صفات اگر کسی نوجوان میں جمع ہو جائیں تو اس کی شخصیت ایک خود دار اور خود شناس انسان کے روپ میں ڈھل جاتی ہے، پھر جس قوم میں ایسے نوجوان تیار ہوجاتے ہیں، تو وہ ترقی کے راستوں پر انتہائی کامیابی سے گامزن ہوسکتے ہیں اور بلا شبہ مصاف حیات صورت فولاد پیدا کر لیتی ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
کیونکہ اقبال کہتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو ، تو نہیں خطرۂ افتاد
قارئین: علامہ اقبال کی شاعری اقوام مسلم کے لیے بالعموم اور مسلمانان ہند کے لیے بالخصوص ایک صور اسرافیل کا درجہ رکھتی ہے۔
اقبال کے تصور شاہین میں ان تمام صفات کا ذکر ملتا ہے جو ایک مرد مومن یا مرد درویش میں پائی جاتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اقبال نے نوجوانوں کے لئے ایسے دل کشکش اور ولولہ انگیز اشعار کیوں کہا کرتے تھے؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ اقبال کی دوربین نظروں نے پہلے سے یہ دیکھ لیا تھا کہ جو انقلاب مغرب سے اٹھ کر مشرق کی طرف امڈ رہا تھا ان میں بُلبل نفس قومیں زندہ نہیں رہ پائیں گی، بلکہ صرف وہی قومیں رہ پائیں گی جو شاہین صفت ہوں، جو دور اندیش اور خوددار ہوں۔
علامہ صاحب نوجوانوں سے مخاطب ہیں کہ وہ اپنے اندر عقاب جیسی ہمت پیدا کریں، اپنے اندر دوسروں کا خوف نہ رکھیں، بلکہ اپنی بلند منزل کا تعین کر کے اس کی طرف گامزن رہیں۔
لیکن آج اگر دیکھا جائے تو نوجوان نسل فکر اقبال سے دور بالکل دور ہوچکی ہے اور مغربی تہذیب کی دلدادہ بن چکی ہے۔
بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ھے کہ آج اقبال کے شاہین اپنی منزل کو خودی کے راستوں پر تلاش کرنے کے بجائے کسی اور ہی سمت رواں دواں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا حضرت علامہ محمد اقبال کی شاعری صرف انہی کے دور کے نوجوانوں کیلئے تھی؟
ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اقبال کے افکار ہر نسل کیلئے مشعل راہ ہیں، آج کی نسل کیلئے بھی اور آنے والی نسلوں کیلئے بھی، کیونکہ اقبال نے کبھی نہیں چاہا کہ ہماری نسل مغرب کی تقلید کرے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔
اقبال جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک مادی ترقی کی طرف لے تو جاتی ہے لیکن روحانی اقدار کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے جبکہ ہماری اسلامی تہذیب اور ہمارے اسلاف کی حیات انسانی بھلائی اور پائیدار روحانی ترقی کی راہیں دکھاتی ہے۔
اقبال آج کے نوجوانوں کیلئے یہ بھی فرماگئے تھے کہ:
خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سرِزندگی ہے نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا۔
لیکن آج ہم صبح شام کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں
اقبال کی روح تڑپا دینے والی شاعری کو ہم پس پشت ڈال چکے، ہم اپنے تعلیمی اداروں میں’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ تو پڑھاتے ہیں لیکن اس کے معنی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے کوسوں دور ہیں۔
ہمیں خودی کے فلسفہ پر عمل کرنا چاہئے لیکن ہم خودی کو سمجھنے میں الجھے ہوئے ہیں اور جب تک ہم اس خودی کے فلسفے پر عمل نہیں کریں گے ، اپنے اندر شاہین جیسی صفات کبھی بھی پیدا نہیں کرسکیں گے۔