چنڈی گڑھ: حکومت پنجاب نے جنوری 2021 میں یومِ جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدد کے بعد دہلی میں گرفتار کئے گئے 83 مظاہرین کے حق میں معاوضہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، اس اقدام سے پنجاب کی کانگریس حکومت اور مرکزی حکومت کے درمیان ایک نیا تنازعہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ خیال رہے کہ خصوصی طور پر پنجاب اور ہریانہ کے کسان تین نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں ایک سال سے دہلی کے آس پاس خیمہ زن ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت ان قوانین کے ذریعہ زرعی علاقہ کا انتظام نجی ہاتھوں میں دینے پر آمادہ ہے۔ وہیں، مرکزی حکومت نے ان الزات کی تردید کی ہے اور قوانین میں ترمیم پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن کسان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال 26 جنوری کو دہلی پولیس اور کسان لیڈران کے درمیان بات چیت کے بعد کچھ راستوں پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم، پولیس کو چکما دے کر بڑی تعداد میں کسان لال قلعہ پہنچ گئے، جس کے بعد صورت حال ہنگامہ خیز ہو گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے طے شدہ راستوں کو اختیار نہیں کیا اور دہلی میں داخل ہونے کے لئے رکاوٹوں کو توڑ دیا۔ وہ لال قلعہ میں بھی داخل ہو گئے اور اس پر چڑھ کر چھنڈے لہرا دئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چرنجیت سنگھ چنی نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ان کی حکومت دہلی پولیس کی جانب سے گرفتار کئے گئے لوگوں کو معاوضہ فراہم کرے گی۔ انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا، ”تین سیاہ زرعی قوانین کے خلاف چل رہی کسانوں کی تحریک کو حمایت کرنے کے اپنی حکومت کے رخ کا اعادہ کرتے ہوئے ہم نے 26 جنوری 2021 کو قومی راجدھانی میں ٹریکٹر ریلی کرنے پر دہلی پولیس کی جانب سے گرفتار کئے گئے 83 لوگوں کو 2-2 لاکھ روپے معاوضہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔”
حکومت پنجاب کا الزام ہے کہ نئے زرعی قوانین کے سبب زرعی پیداوار مارکیٹنگ کمیٹیاں یا منڈیاں نجی منڈیوں میں تبدیل ہو جائیں گی اور اس سے ریاستی حکومت کو مالی نقصان برداشت کرنا ہوگا، جس سے دیہی ترقی کو زک پہنچیں گی۔ جبکہ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ قوانین کسانوں کے حق میں ہیں اور ان کے ذریعے بچولیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔