بالفور اعلامیہ ایک برطانوی جرم اور اس کی بین الاقوامی ذمہ داری

محمد انعام الحق قاسمی 
رياض، سعودي عرب

سال بہ سال، ہم منحوس بالفور اعلامیہ کی یاد مناتے ہیں، اور ہم اس کے قانونی جہتوں، اس کے ناجائز نقطۂ آغاز اور اس کے تباہ کن نتائج پر مطلع ہوتے ہیں۔ ہم اُس كي تاریخی دور پر روشنی ڈالتے ہیں جو اس وقت کے سیاسی حالات کے ساتھ وقوع پذیرہوا تھا۔ ہم خستہ حال اسلامی خلافت (عثمانیہ) کے حالات کو پیش کرتے ہیں، اور عرب ریاستوں کے نہایت بگڑے ہوئے حالات و معاملات کو بھی یاد کرتے ہیں اور ایک آزاد فلسطینی شناخت کی عدم موجودگی، جس کے دگرگوں حالات اور کمزور لیڈروں کی بزدلی نے بلفور اعلامیہ کے نفاذ میں سہولت فراہم کی اور اسکی حصولیابی میں مدد فراہم کی، اگر حالات ایسے نہ ہوتے تو، نا ہی یہود فلسطین پہنچ کر وہاں آباد ہو پاتے، نا ہی اپنے فوجی نظام اور قیادت کی تشکیل کر پاتے، نا ہی فلسطین کے باشندوں پر پابندیاں لگا پا تے، اور ناہی ان میں سے بیشتر کو نکال باہر کرتے اور در در کی ٹھوکریں نے پر مجبور کردیتے۔ اور ناہی یہود ان کی زمینوں اور گھروں پر قابض نہ ہوتے.
بالفور اعلامیہ کے اجراء کو ایک سو چار سال گزر چکے ہیں۔اور ہم اب بھی اسے یاد کرتے ہیں اورہم اسے یقیناً ناجائز اور جائر اعلامیہ مانتے ہیں. سالوں سال گذرگئے گویا کہ پوری عمر گذرگئی۔ عرب اور عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اپنا منحوس سایہ یہ پوری دنیا میں پھیلا چکا ہے۔ اس نے اپنی خونی نشانات اور دردناک اثرات فلسطین کے پتھروں، درختوں ، باشندوں ، مقدسات، صلاحیتوں اور نعمتوں پر اور عربوں اور پوری ملت اسلامیہ پر چھوڑا ہے ۔ ہر لمحے و ہر ثانیہ کے گذرنے کے ساتھ ہی ایک اصلی و استحقاق والے فلسطینی عوام کے خواب چکنا چورہوگئے ہیں۔ اصل وطن کے مالکان کے حقوق ضائع ہو گئے ہیں۔ ان کے مقدس ترین سرزمین اور پاک ترین مقامات پر قبضہ کر لیا گیاہے، اور شاید اس نے نہ صرف خطہ بلکہ پوری کائنات کی خصوصیات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان تغیرات کے آثار باقی رہیں گے اور انصاف کا توازن ٹوٹتا اور بگڑتا رہے گا، جب تک کہ وہ دن نہ آئے جس میں وقت کا چکر پورا ہو جائے۔ تاریخ اپنے نقطۂ آغاز کی طرف لوٹ جائے گی، انصاف حاصل ہو، امن قائم ہو، زمین کے مالکان کو ان کے حقوق مل جائیں ، اور وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں ۔
برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے 1917ء کے آخر میں جو ا اعلامیہ بالفور جاری کیا تھا. جو اصل میں محض ایک اعلان یا بیان تھا، جو ایک مقدس سیاسی وعدے اور ایک مضبوط بین الاقوامی عہد کی شکل اختیار کرگیا، بایں اعلامیہ فلسطینی سرزمین میں یہودیوں کو بااختیار بنا دیا گیا، ان کی ریاست کی تعمیرکرکے ان کی امن و سلامتی کی ضمانت دے دی گئی اور ان کے وجود کو مستحکم کردیا گیا۔ یورپی رہنماؤں اور امریکی انتظامیہ نے اس وعدے پر عمل کیا، جس نے صیہونی ادارے کو فعال بنایا اور مدد فراہم کی، اور اسے پیسہ، ہتھیار، تجربہ اور ٹیکنالوجی فراہم کی۔ اور اس کی طرف یہودی ہجرت کی لہروں کو سہولت فراہم کی، ان کی حکومتوں نے فلسطینی زمینوں کی ضبطی اور ان میں بستیوں کی توسیع میں سہولت فراہم کی، یہاں تک کہ اس کی فوج خطے میں سب سے مضبوط، اور سب سے زیادہ جارح اور بدعنوان بن گئی۔
بلفور اعلامیہ کے وقت برطانیہ اپنی فوجوں کے ساتھ ہر طرف اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھا، اور اس کے جنگی بیڑے جو قریب و بعید سمندروں میں گشت کر رہے تھے، اس کی بڑی بڑی کالونیاں جو شہروں اور میٹروپولیسز (Metropolises) کے قلب میں، اور ایشیا کے مشرق اور امریکی مغرب میں پھیلی ہوئی تھیں، دنیا میں اسوقت اسی کا بول بالا تھا اور چند ممالک ہی بین الاقوامی فیصلوں کے صادرکرنے پر خود ہی کنٹرول کرتے تھے اور کوئی بھی ان کے خلاف کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا تھا وہ اپنے اس نازیبا کرتوت سے اچھی طرح واقف تھے اور اس کے اعلان کی برے نتائح سے بخوبی واقف تھے، اور وہ جانتے تھے کہ انہوں نے کتنا بڑا جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس لیے فلسطینی عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی سیاسی، انسانی اور قانونی طور پر پوری تاریخی ذمہ داری اس بلفور اعلامیہ پر عائد ہوتی ہے، اوراسی طرح ان پر آنے والی آفات، ان کے نقصانات، ان کی مقبوضہ زمین میں ان کے حقوق جو پامال ہوئے ہیں اور مسلسل ہورہے ہیں، ان کی صلاحیتوں کی بربادی، اور ان کی نسلیں جو بے گھر ہوگئیں ہیں ان سب کی پوری پوری ذمہ داری اس ظالم و قاتل حکومت برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
اگرچہ فلسطینی عوام کے خلاف برطانوی جرائم کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن یہ ایک ایسا جرم ہے جس نے نہ اپنے ابواب کو بند کیا اور نہ ہی وہ کسی وعدے تک محدود رہا، اور اگرچہ اس کا کردار اور اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے، اور اب وہ سپر پاور نہیں رہا ہے۔ اور نہ ہی سات سمندروں کا مالک ہے جیساکہ اس کا دعوی تھا، یہ وہی ہے جو اب بھی دنیا کے پانچ عظیم ممالک میں سے ایک ہے، اور اس کا اب بھی دنیا کے انتظام میں بڑا اثر و رسوخ اور فعال کردار ہے۔ اس کو اپنے جرم کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے، اور اسے درست کرنے کے لیے کام کرنا چاہیئے، اور فلسطین کے اصل باشندوں اور فلسطین کی زمین کے مالکان کے حقوق بحال کرنا چاہئے، یہ وہی متعصب و ظالم ملک ہے جس نے اس بحران کو پیدا کیا، اور اسی نے اس تنازعہ کی بنیاد رکھی، اور اسی نے ہمارے درمیان صیہونی وجود کو نصب کیا، اور اسے نگلنے اور تباہ کرنے کے لیے اسے عرب قوم کے جسم میں کینسر کی طرح ڈال دیا ۔
اعلان بالفور کے سیاہ سائے میں، ہمیں رونا اور واویلا بند کرنا چاہیے، گالوں پر خود ہی تھپڑ مارنا و نوچنا اور جیبیں پھاڑنا چھوڑنا چاہیے، اور برطانیہ کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ فلسطینی عوام بے گھر ہونے کے جرم کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر قبضے کا مطالبہ کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے جرم کو تسلیم کرے اور اس کی ذمہ داری کو تسلیم کرے اور بالفور اعلامیہ کو واپس لے کر فلسطینی عوام و عرب اور اسلامی اقوام سے حقیقی معافی مانگے۔ اعلان بالفور كو ایک باطل اور غیر ذمہ دارانہ بیان سمجھ کر اسے واپس لے ، اور پوری عالمی برادری کے سامنے، اور اس کے بین الاقوامی اداروں کے بینر تلے کام کرنے کا عہد کرتے ہوئے، اس وعدے کے بعد اور اس سے مستفید ہونے والے تمام حقوق کو منسوخ کرنے کا عزم کرے جو اس وعد بلفور کے نتیجے میں پامال ہوئے-
بے حسی کے عالم میں کھڑے ہو کر سالوں کو گننا اور دردناک یاد میں سال بہ سال نئے سال کا اضافہ کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ، اسے بین الاقوامی قانونی ماہرین، سینئر وکلاء، اور تجربہ کار اور کارآمد مشیروں کے تعاون سے ایک واضح وژن، ٹھوس منصوبہ بندی، اور کام کے ایک درست پروگرام کے مطابق آگے بڑھنا چاہیے۔ برطانیہ کا محاصرہ کرنے اور اسے گھیرنے کے لیے کام کرنا، اسے پوری طرح سے ذمہ دار ٹھہرانا، اسے تمام بین الاقوامی سطحوں پر زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنے پر مجبور کرنا، اور اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنا، تاکہ فلسطینی عوام کے مصائب کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔اور اس کی نسلوں کی زندگیوں اور اپنے ملک کے مستقبل میں زخم سے رستے ہوئے خون کو روک دے ، میں سمجھتا ہوں کہ وہ یہ کردار اداء کرنے کے قابل ہیں اور وہ پرانی نوآبادیاتی حکومتوں کی جانب سے اپنے قبضے میں لیے گئے ملک کے عوام کے فائدے کے لیے ایسا کرنے کے پابند ہیں اور انہوں نے ہی فلسطینیوں کا کو قتل کیا، گرفتارکرکے جیلوں میں ڈالا، تباہی و بربادی کا ارتکاب کیا ہے۔
ہمیں صیہونی دشمن کے خلاف تمام محاذ کھولنے ہوں گے۔ اور اسے اسکے ماضی میں واپس لے جائیں گے اور اسے انہیں مقامات پر واپس بھیجیں گے جہاں وہ پروان چڑھا۔ اور ان پر پورا پورا بھروسہ کیا۔ ہم سیاست اور قانون، عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ، ہم ان کی قومی عدالتوں اور بین الاقوامی اداروں کے سامنے ان کے ملک کی پالیسی کے خلاف شکایات درج کرائیں گے جس کی وجہ سے یہ گھناؤنا جرم ہوا، ہم ہم جھوٹے وعدے اور گناہ گار بیان کے بارے قطعاً میں خاموش نہیں رہیں گے۔ اور ہم عالمی برادری کو مجبور کریں گے جس نے صیہونی وجود کو گلے لگایا اور پروان چڑھایا، اس کی سرپرستی کی اور اس کی حفاظت کی، اسے تسلیم کیا اور اسے اپنایا، اسے اپنی ذمہ داری کے تئیں متحرک ہونا پڑے گا اور اس ناجائز اعلامیہ پر نظر ثانی کرکے اسے واپش لینا ہوگا۔ ، اس کے فیصلوں کے نتائج برداشت کرنا ہوگا اور ان غلطیوں کو دور کرنا ہوگا ، اس لئے کہ برطانیہ اپنی مجرمانہ خاموشی، ناپاک منصوبہ بندی، اس سازش میں شرکت، فلسطینی عوام کی سرزمین پر قبضہ اور فلسطینی وطن میں آفت و مصائب کا براہ راست ذمہ دار ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com