اگر آج سوشل میڈیا، یو ٹیوب چینل اور غیر جانبدار صحافی نہیں ہوتے تو ملک کے عوام کو صرف حکومت کی قصیدہ خوانی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا
ڈاکٹر یامین انصاری
’نیشنل پریس ڈے‘ یعنی قومی یوم صحافت کے موقع پر اچانک انقلابی شاعر حبیب جالبؔ کی ایک نظم یاد آئی گئی۔ اگرچہ یہ نظم انھوں نے کئی دہائی پہلے لکھی تھی، لیکن اس کی معنویت آج اس سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صحافت کی موجودہ صورت حال پر اس سے بہتر اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس نظم کے پہلے شعر میں ہی وہ ملک کی موجودہ صحافت کی بھرپور عکاسی کر تے نظر آتےہیں۔ نظم کے پہلے مصرعہ میں ان صحافیوں کی تصویر نظر آتی ہے، جنھیں آج ہم ’گودی میڈیا‘ کے نام سے جانتے ہیں، جبکہ دوسرے مصرعہ میں وہ صحافی نظر آتے ہیں جو تمام مشکلات اور نا مساعد حالات کے باوجود آج بھی صحافتی اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ صحافیوں کے تعلق سے آج حالات یہ ہو چکے ہیں کہ یا تو ’اِدھر‘ یا ’اُدھر‘۔حبیب جالبؔ کی نظم کا مطلع بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں؎
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
ہندوستان میں پہلے’ پریس کمیشن‘ نے ملک میں صحافت کی آزادی کے تحفظ اور صحافتی اصولوں کو مزید تقویت دینے کے مقصد سے ایک پریس کونسل کا تصور کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ۴؍ جولائی ۱۹۶۶ء کو پریس کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ اس کونسل نے ۱۶؍ نومبر ۱۹۶۶ء سے با ضابطہ طور پراپنا کام شروع کیا۔ تبھی سے ہر سال ۱۶؍ نومبر کو ’نیشنل پریس ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ہم نے ۲۰۲۱ ء کا ’نیشنل پریس ڈے‘ ان حالات میں منایا، جب صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد یا تو ’حرف صداقت‘ لکھنا بھول گئے ہیں، یا پھر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا گیاہے اور جو ایسا نہیں کر رہے ہیں، ان کے کام کو ’بغاوت‘ کے زمرے میں ڈال دیا جا رہا ہے، انھیں ہراساں کیا جا ہا ہے، ان پر شکنجہ کسا جا رہا ہے، جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔بہت زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تری پورہ میں پیش آنے والے واقعات اور پھر ان کی خبر گیری کرنے پر کس طرح صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑ رہی ہیں، وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ تری پورہ میں مسلمانوں پر حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے خلاف بولنے والے تقریباً۷۰؍ افراد اور تنظیموں کے خلاف پولیس نےیو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا ۔ ان میں صحافیوں کے علاوہ سماجی کارکن اور وکلا بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ دہلی سے تری پورہ واقعہ کی حقیقت جاننے گئیں دہلی کی دو نوجوان خاتون صحافیوں پر بھی مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ محض بیس اور بائیس سال کی سمردھی سکونیا اور سورنا جھا کا قصور یہ تھا کہ وہ زمینی سچائی جاننے کے بعد اپنی کچھ رپورٹس اپنے ادارے ’ایچ ڈبلیونیوز نیٹ ورک‘ کے ذریعہ منظر عام پر لائیں۔ بھلے ہی انھیں ضمانت مل گئی ہے، لیکن قانونی چارہ جوئی اور اس سے متعلق معاملات کے لئے انھیں آئندہ بھی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کام کر رہی تھیں۔ کاش، مقامی انتظامیہ اس وقت بھی ایسی ہی مستعدی اور سرگرمی کا مظاہرہ کرتی جب اس کے سامنے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ظاہرہے اگر ایسا کیا ہوتا تو تری پورہ کا معاملہ قومی میڈیا سے لے کر بین الاقوامی میڈیا تک کی سرخیوں میں نہیں آتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس سے کچھ اور پیچھے جائیں تو کسان تحریک کے دوران ایک نوجوان صحافی مندیپ پونیا کی گرفتاری بھی قومی سطح پر سرخیوں میں رہی۔یہ خوش قسمت تھے کہ انھیں بھی چند روز میں ضمانت مل گئی۔لیکن کیرل کے ایک نوجوان صحافی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، کیوں کہ اس کا نام ’صدیق کپن‘ ہے۔وہ ایک سال سے زائد عرصہ سے یو پی کی جیل میں قید ہیں۔ اس دوران انھوں نے اپنی ماں کو بھی کھو دیا۔صدیق کو گزشتہ برس پانچ اکتوبر کو ہاتھرس جاتے وقت گرفتار کیا گیا تھا۔ جہاں ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد موت ہو گئی تھی اور پولیس نے رات کے اندھیرے میں اس کی آخری رسوم ادا کر دی تھیں۔ پورے ملک میں اس واقعہ پر ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ یو اے پی اے کے تحت درج مقدمہ میں الزام لگایا گیا تھاکہ کپن اور ان کے دیگر ساتھی ہاتھرس اجتماعی عصمت دری و قتل معاملے میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ اس سے پہلے یوپی میں ہی راج دیپ سردیسائی اور سدھارتھ ورداراجن جیسے نامور صحافیوں پر بھی مقدمات درج کئے گئے ۔ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا ہندوستان میں صحافت کا مطلب صرف جی حضوری اور حکومت کی مدح سرائی ہی رہ گیا ہے؟ کیا ملک میں صحافت اور اظہار رائے کی آزادی بالکل ختم ہورہی ہے؟ کیوں کہ آج ملک میں مین اسٹریم میڈیا کا یہ حال ہے کہ حکومت سے سوال کرنے کے بجائے حزب اختلاف سے سوال کیا جا رہا ہے۔مشہور صحافی رویش کمار نے کچھ عرصہ پہلے حالات کی بالکل صحیح عکاسی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جیل کی دیواریں آزاد آوازوں سے اونچی نہیں ہوسکتی ہیں، جو اظہار خیال کی آزادی پر پہرہ لگانا چاہتے ہیں، وہ دیش کو جیل میں بدلنا چاہتے ہیں۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج سوشل میڈیا، یو ٹیوب چینل اور غیر جانبدار صحافی نہیں ہوتے تو ملک کے عوام کو صرف حکومت کی قصیدہ خوانی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا۔آزاد اور غیر جانب دار صحافیوں نے کافی حد تک صحافتی اصلوں کی لاج بچا رکھی ہے۔
رواں سال کے جولائی ماہ میں صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے ایسے ملکوں کے سربراہان کی فہرست جاری کی تھی، جو ان کے مطابق اپنے ملک میں سنسرشپ، صحافیوں کو قید کرکے انھیں تشدد کا نشانہ بنانے، ہراساں کرنے یا انھیں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کروا کر آزادی صحافت کو مسلسل دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان۳۷؍ ممالک کے سربراہان میں وزیر اعظم مودی سمیت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان، ترکی کےصدر رجب طیب اردوغان، ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای، چین کے صدر شی جن پنگ، روس کے ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کے نام بھی شامل تھے۔ جبکہ ایشیا کی دو خاتون سربراہان مملکت بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام شامل تھیں۔ جبکہ چند یورپی ممالک کے سربراہ بھی اسی فہرست میں نظر آئے۔ ہندوستان کی اگر بات کی جائے تو اس کے علاوہ ’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ کی رپورٹ میں ہندوستان کو بھی صحافت کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل کیا گیا۔ تنظیم کے ذریعہ جاری کردہ۲۰۲۱ء کے’ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس‘ میں ہندوستان کو۱۸۰؍ ممالک میں ۱۴۲؍ ویں نمبر پر رکھا گیا ، جو میڈیا کی آزادی کی خراب حالت کی عکاسی کرتا ہے۔اس کے علاوہ مئی ۲۰۱۹ء سے اگست ۲۰۲۱ء کے درمیان ہندوستان میں صحافیوں پر ۲۵۶؍ حملے ہوئے۔ نیو یارک میں واقع تنظیم ’پولیس پروجیکٹ نے ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد پر ایک تحقیق کی ، جس میں ان حملوں کا ذکر کیاگیا ۔پولیس پروجیکٹ نے مختلف موضوعات کی کوریج کے دوران پیش آنے والے واقعات کو جمع کیا ہے۔ اس کے مطابق جموں و کشمیر میں۵۱؍ واقعات، سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران۲۶؍، دہلی فسادات کے دوران۱۹؍ اور کورونا بحران کی کوریج کے دوران۴۶؍واقعات رونما ہوئے۔ کسانوں کی تحریک کے دوران صحافیوں پر تشدد کے اب تک۱۰؍ واقعات ہو چکے ہیں۔ باقی۱۰۴؍ واقعات ملک بھر میں مختلف اوقات اور کوریج سے متعلق ہیں۔ ان سب کے باوجودملک میں اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے والے صحافی موجود ہیں۔ ایمانداری اور دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ حبیب جالب کے اس شعر کو جلا بخش رہے ہیں، کہ ؎
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا