مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
شخصیت کی تشکیل اور ارتقاء (پرسنالٹی ڈولپمنٹ) کے کام نے ان دنوں ایک فن کی شکل اختیار کر لی ہے ، باضابطہ اس کے لیے کیمپ لگائے جاتے ہیں ، محاضرات ہوتے ہیں، اور بڑی بڑی رقمیں اس پر خرچ کی جاتی ہیں، شرکاء کو بتایا جاتا ہے کہ اپنی شخصیت کی تشکیل ، ارتقاء اور مارکیٹنگ کے لیے کیا کچھ کرنا ضروری ہے ، بہت لوگ اس فن سے واقفیت کے بعد بڑے بڑے کام کرنے اور اپنی شخصیت منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ جب آپ کسی کے سامنے پیش ہوں ، موقع سمینار، سمپوزیم، جلسے جلوس یا انٹرویو کا ہو تو اپنے خیالات مجتمع کرلیں، شخصیت کو سب سے زیادہ نقصان انتشار ذہنی ، عجلت پسندی اور بے سوچے سمجھے اپنی بات رکھنے سے پہونچتا ہے ، آپ کہیں انٹر ویو کے لیے جا رہے ہیں، کسی سمینار اور سمپوزیم میں آپ کی شرکت ہونی ہے ، تو وہاں کے حالات اور انٹر ویو لینے والے کی ذہنیت کا پتہ چلا لینا کامیابی کا پہلا زینہ ہوتا ہے ، جس کمپنی یا ادارے میں آپ جا رہے ہیں وہاں کے مالکان اور ذمہ داران کی ذہنیت اور ماحول سے واقفیت بھی آپ کے لیے انتہائی ضروری ہے، ماحول کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کا اندرونی ماحول مشرقی تہذیب سے متاثر ہے یا مغرب کی بے راہ روی کا بول بالا ہے ، جسے آج کی اصطلاح میں ’’کُھلا پن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جو سوالات کیے جائیں اس کے جواب میں عجلت سے کام نہ لیں، سوال کرنے والے کی نفسیات کی تسکین کے لیے اسے بہتر سوال قرار دے کر سوچنے کا تھوڑا وقت آپ کو مل سکتا ہے ، آپ کسی ایسے جملے کا بھی استعمال کر سکتے ہیں جو ذو معنی اور مجمل ہوں، اس جملے کی تہہ تک انٹر ویو لینے والا جب تک پہونچے، آپ اس کو صحیح جواب دینے کی پوزیشن میں ہو جائیں گے ، آپ سوال کرنے والے سے تھوڑا وقت غور وفکر کے لیے بھی مانگ سکتے ہیں، لیکن کبھی اس کا اثر الٹا ہوجاتا ہے ، اس لیے بہت سوچ سمجھ کر اس جملے کا استعمال کریں۔
ممکن ہے سوال کرنے والے نے جو بات پوچھی ہے وہ آپ کے نظریہ کے خلاف ہے، ایسے میں اگر سیدھے سیدھے آپ نے اپنا نظریہ بیان کرنا شروع کر دیا تو انٹرویو لینے والے کی انا کو ٹھیس پہونچ سکتی ہے ، انا کو ٹھیس پہونچنے کا مطلب آپ کی ناکامی ہے، کیوں کہ ہر انٹر ویو لینے والا اپنے کو بڑا سمجھتا ہے ، بعض بعض میں بڑے پن کا یہ احساس اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ اپنے کو ’’عقل کل‘‘ کا مالک سمجھنے لگتا ہے ، ایسے میں ضروری ہے کہ آپ اپنا نظریہ اس انداز میں رکھیں کہ بلا واسطہ اس کی سوچ پر حملہ نہ ہو، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس بات کو الگ انداز میں دیکھتا ہوں اور آپ اجازت دیں تو میں اپنے نظریات کو آپ سے شِیَر کر سکتا ہوں، گفتگو میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپ ’’باتونی‘‘ بن کر سامنے نہ آئیں، بہت بولنا بھی آپ کی شخصیت کو کمزور کرتا ہے، بولنے میں سامنے والے کی عزت و احترام کا خیال بھی بہت ضروری ہے، بد زبانی بدکلامی، گالی گلوج کسی شریف آدمی کا کام نہیں ہے ، بولنے کے مقابل خاموشی زیادہ مناسب ہے، خاموشی بھی کبھی کبھی وجہ قتل بن جاتی ہے ، اس لیے اعتدال و توازن ہی بہتر ہے، نہ زیادہ بولیے اور نہ بالکل چپ رہیے، حدیث میں ’’خیر الامور اوسطھا‘‘ کہا گیا ہے ۔
ایک بنیادی بات یہ بھی ہے کہ ناکامی کا خوف دل سے نکال دیجئے آپ کی کامیابی اسی وقت طے ہوجاتی ہے جب آپ کے ذہن و دماغ سے ناکامی کا خوف نکل جاتا ہے ، یہ خوف آپ کو پژمردہ ، بے حوصلہ اور جوش وجذبہ سے عاری کر کے چھوڑ دیتا ہے ، اس لئے نا کامی کے خوف کی نفسیات سے باہر آئیے اور خوب اچھی طرح جان لیجئے کہ ناکامی کا مطلب ہے کہ کامیابی کے لیے کوشش صحیح ڈھنگ سے نہیں کی گئی ، آپ کے اندر حوصلہ کی آگ ہونی چاہیے، کچھ کر گزر نے کا جنون ہونا چاہیے، یہ جنون آپ کو کامیابی تک پہونچا کر دم لے گا، ہو سکتا ہے اس میں کئی ماہ وسال لگ جائیں ، ذہن میں یہ بات بھی رکھنی چاہیے کہ خواہشوں کی تکمیل فوراً ہوجائے ضروری نہیں ، جلد خواہشات پورے کرنے کی لگن بھی کبھی ناکامی اور ہزیمت کا سبب بن جاتی ہے ، ایک پودے کو تناور درخت بننے اور بیج سے انکوڑے نکلنے کے لیے جو وقت درکار ہے اس کو کسی اور طریقے سے آپ بدل نہیں سکتے، پرائمری سے ایم اے تک پہونچنے کے لیے آپ کی خواہش کے ساتھ ماہ و سال کو بھی دخل ہے، اس کو آپ روپے وغیرہ سے پارٹ نہیں سکتے، بہت سارے کام میں مال و دولت سے زیادہ وقت کی اہمیت ہوتی ہے ۔
اپنا ہدف مقرر کرتے وقت اپنی پسند کا بھی خیال رکھیں، صرف گارجین کے کہنے سے کوئی ہدف مقرر نہ کریں، آپ اپنی دلچسپی اس کا پورا پورا خیال رکھیں، دوسروں کے مشورے اور گارجین کی رائے اگر آپ کی پسند اور دلچسپی کے خلاف ہے تو کامیابی میںرکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ جب آپ اپنی پسند اور دلچسپی سے کسی کام یا مطالعہ کے لیے کسی موضوع کا انتخاب کریں گے تو آپ پُرجوش ہوں گے اور آپ کا پُر جوش ہونا ہدف تک پہونچنے میں معاون ہوگا، نپولین بونا پارٹ کا قول ہے کہ ناممکن کچھ نہیں ہے ، ہر کام ممکن ہے ،ایسا ہو سکتا ہے کامیابی تک پہونچتے پہونچتے بہت سارے خد و خال بدل چکے ہوں۔
آپ جو کچھ کر رہے ہیں، یا کرنا چاہتے ہیں، اس سے تمام لوگ متفق ہوں ، عملی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا، آپ سے جو بعض وعداوت رکھتا ہے یا آپ کے بارے میں اس کے دل میں نفرت بھری ہوئی ہے وہ آپ کی مخالفت کرے گا، یہ آپ کا کمال ہے کہ منطقی اور مثبت انداز میں آپ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوجائیں، مزاج کی نرمی ، دوستانہ روابط کے ذریعہ ایسا ہو سکتا ہے، ایسے موقع سے غصہ بھی بہت آتا ہے، اس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ لوہا جتنا گرم ہوجائے ہتھوڑا کو ٹھنڈا ہی رہنا چاہیے، ورنہ لوہے کی طرح اس کے گلنے کا عمل شروع ہوجائے گا اور وہ اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گا۔
کبھی ایسا بھی ہو سکتاہے کہ سامنے والے نے آپ کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھا، ایسے میں آپ کی قوت بر داشت اس قدر ہونی چاہیے کہ آپ اسے جھیل سکیں، یہ بات بھی یاد رکھیے کہ عزت و احترام کسی کے دینے سے نہیں ملتی، اللہ جسے چاہتا ہے ، عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، اسباب کے درجہ میں غور کریں تو آپ کی قابلیت ، صلاحیت ، کام کرنے کی لگن ، کچھ کر گزرنے کے جذبے سے عزت ملا کرتی ہے ، جس نے آپ کو بُرا بھلا کہا اس نے اپنی ذہنیت آپ کے سامنے رکھ دی، اس سے آپ کا کچھ نہیں بگڑا، آپ نے بر داشت کیا، اس سے لوگوں پر آپ کے جو ہر کھُلے۔
ہدف کو پانے اور مقاصد کے حصول میں سستی اور کاہلی بڑی رکاوٹ ہے، نیند جسم کی کار کر دگی کو بڑھا تا ہے ، لیکن بڑا وقت سو کر گزار دینا آپ کے کام کرنے کی صلاحیت اور وقت دونوں کو بر باد کر تا ہے، آپ کا جو خواب ہے اسے پورا کرنے کے لیے آپ کا جاگنا انتہائی ضروری ہے ، اے پی جے عبد الکلام نے کہا تھا کہ خواب وہ نہیں ہیں، جو آپ سوئے میں دیکھتے ہیں، خواب وہ ہیں جن کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے آپ راتوں کو جاگ کر گذارتے ہیں۔
ہدف کو پانے کے لیے یک سو ہو کر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، یک سوئی کو نقصان پہونچانے میں تناؤ اور ٹینشن کا اہم رول ہوتا ہے ، اس لیے تناؤ سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے ، کیوں کہ وہ دماغ کے اس حصہ کو متاثر کرتا ہے جسے ہم ’’ورکنگ میموری‘‘ کہا کرتے ہیں، ورکنگ میموری کی حیثیت سادے بورڈ کی ہوتی ہے ، جب یہ تناؤ ، فکر مندی ، جذبات اور اس سے متعلق تصویروں سے بھر جاتا ہے تو دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے ، آپ نے بار ہا لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ ’’میرا دماغ کام نہیں کر رہا ہے‘‘ تناؤ کی وجہ سے ہمارا ذہن سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے ، مزاج میں چڑچڑا پن جھنجھلاہٹ اور بلاوجہ غصہ آنے لگتا ہے ۔ ایسے میں آپ کا یکسو ہونا انتہائی ضروری ہوگا، یکسوئی سے آپ کے اندر صوفیاء کی اصطلاح میں ’’خلوت در انجمن‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگی اور مجمع میں بیٹھ کر بھی آپ اپنے ہدف، منصوبے اور منزل تک پہونچنے کے اسباب وعلل پر غور کر سکتے ہیں، اس کے لیے صوفیاء کے یہاں مختلف قسم کے مراقبے اور سائنسدانوں کے یہاں کسرت اور ریاضت کے آسان طریقے بتائے گئے ہیں، اس کے کرنے سے انسان تناؤ سے پاک زندگی گزارنے پر قادر ہوجاتا ہے اور اسے خیالات مجتمع کرنے کا ہنر آجاتا ہے۔
خوش رہنا بھی آپ کی ذہنی صلاحیت کو بڑھاتا ہے، یقینا زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، پریشانیاں دکھ اور مصیبتیں زندگی کے ساتھ لگی ہوتی ہیں، لیکن جب آپ راضی برضاء الٰہی رہتے ہیں تو خوش رہنا آپ کے لیے مشکل نہیں ہوتا، بے اطمینانی ، بے چینی اور پریشانی سے ہم اسی وقت متاثر ہوتے ہیں، جب مرضی الٰہی اور مشیت خدا وندی پر آپ کا اعتماد کمزور ہوتا ہے ۔
عام طور پر ایک منزل پر پہونچ کر آدمی مطمئن ہوجاتا ہے کہ ہم نے ہدف کو پالیا، یہ اطمینان انسان کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے ، ایک ہدف کے بعد دوسرا طے کیجئے اور مسلسل آگے بڑھتے رہیے، ہدف تک پہونچنے سے قبل آپ کی زندگی مکمل ہو گئی تو بھی اس کا فائدہ آنے والی نسل کو یقینا پہونچے گا اور آپ جہاں پر کام چھوڑ کر گیے ہیں،آنے والے کو اس کے آگے کرنا ہوگا، یہ خود اپنے میں بڑی بات ہے ۔
دنیا امید پر قائم ہے ، اس لیے ہمیشہ پُر امید رہیے، ہماری زندگی برف کی سل کی طرح پگھلتی رہتی ہے ، لیکن اللہ رب العزت نے ہمارے ذہن و دماغ کو امید سے بھر دیا ہے ، یہ امید ہمیں جینے کا حوصلہ دیتی ہے، امید ختم ہوجائے تو زندگی گزارنا دو بھر ہوجاتا ہے، اس لیے خود کو برتنے میں امید کی بڑی اہمیت ہے۔ پر سکون، کامیاب ، پر امید زندگی گذاریے اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیجئے، منزل ، ہدف اور نشانے آپ کے قدم چومیں گے، اور آپ کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔