یہ آنسو کب تک؟

محمد شاہد قاسمی
رکن لجنہ علمیہ، ریاض
یہ خوبصورت معصوم چہرہ ایک کشمیری بہن کا ہے جس کا باپ الطاف احمد ایک پولیس انکاؤنٹر میں ہمیشہ کی نیند سلادیا گیا۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو ابھی نا سمجھ ہے۔ اس بلکتی سسکتی آواز کو سن کر دل دکھی ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔ اسی کے ساتھ دوسری تصویر میں ڈاکٹر مدثر کی زوجہ ہیں، ان کے شوہر کو پولیس انکاؤنٹر میں ہفتہ کے روز ماردیا گیا۔ یہ یتیم خاتون ہیں اور ان کا چھوٹا سا بچہ بھی یتیم ہو گیا ۔
ان واقعات کو پڑھ اور دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو بھی بہ نکلتے ہین؛ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس آنسو بہانے سے اور اظہار افسوس سے کچھ بھلا ہونے والا ہے؟ کیا ان ماؤں اور بہنوں کے دکھ اور تکلیف اور اذیت کا ان آنسوؤں سے کوئی درما کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے نہیں کرسکتے ۔ کیا ایک مسلمان اور انسان ہونے کے ناطے ہماری کوئی ذمہ داری بنتی ہے؟ وہ طبقہ جن کو امت کی امامت اور قیادت کا حق حاصل ہے یا حق سمجھتے ہیں وہ ان سوالات کا جواب دئیے بغیر اللہ تعالٰی کے یہاں نجات پا سکتے ہیں؟ کیا ہم سے ان کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا؟
اس کا یقینی جواب تو روز قیامت ہی ملے گا؛ لیکن آج ہم اس قدر مجبور اور بے کس کیسے ہوگئے کہ ایک معصوم کی جان لے لی جارہی ہے اور ہم آواز بھی نہیں بلند کر سکتے؟ احتجاج بھی نہیں کر سکتے؟
آخر ہم کب تک عدلیہ کے سہارے انصاف کے لئے لڑتے رہیں گے؟ عدالت انصاف بھی کرے؛ جس کی آج امید کم ہے، تو کیا اس سے ان کے عزیز واپس آسکتے ہیں؟ اس کے بعد کسی اور ماں بہن کو یہ دن نہیں دیکھنے پڑیں گے؟ آخر ہم خود کو اس قابل کیوں نہیں بناتے کہ دشمن آنکھ اٹھا نے سے پہلے دس بار سوچے اور ہاتھ اٹھا نے سے پہلے سو بار ماتھا پکڑے کہ کہیں اسی کے ہاتھ نہ توڑ دئیے جائیں؟
اللہ تعالٰی کی مدد کاہلوں اور بزدل اقوام کے ساتھ نہیں ہوتی، اللہ تعالٰی کی مدد تو محمد بن قاسم جیسے جانبازوں کے ساتھ ہوتی ہے، اللہ تعالی کی نصرت شیخ الہند اور شیخ الاسلام جیسے ہمت و استقلال کے پہاڑوں پر نازل ہوتی ہے۔
کالی آندھی کو پہچانیں اور وقت کے رخ کو پڑھنے کی کوشش کریں۔
ہم کو رہزنوں سے گلہ نہیں ہے، امت کی رہبری کا سوال ہے۔ حالات کا یہ رخ اچانک پیدا نہیں ہوا ، بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی اور طویل مدت کی محنت ہے، جس کا پھل وہ توڑ رہے ہیں۔ اس ساری مدت میں حالات کو نہ سمجھنا اور خوش فہمی اور اغیار پر بھروسہ کئے رہنا ، ہماری قیادت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔
آج ہم کو سنبھلنا ہے اور خود کے لئے اور مظلوم اقوام کے لئے ۔ سسکتے بلکتے کشمیری ماں بہنوں اور معصوم بچوں کے لئے۔ آج کی لڑائی تیر و تلوار اور اینٹ پتھر کی نہیں ہے، آج کی لڑائی سیاسی قوت، ڈپلومیسی طاقت، ٹیکنالوجی میں پیش رفت، میڈیا کی خود مختاری اور اعلی تعلیم میں سبقت حاصل کرنے کی لڑائی ہے۔ یہودی کتنے ہیں؟ مٹھی بھر ؛ لیکن پورا عرب اور اسلامی ممالک میں اتنا دم خم نہیں کہ ان سے بیت المقدس کو واپس لے لیں۔ ان گنتی کے یہودیوں کے پاس کیا ہے؟ طاقت ہے، کیسی طاقت؟ اعلی تعلیم کی، جدید ٹیکنالوجی کی ، سیاسی اور ڈپلومیسی مہارت کی ۔ امریکہ کی سیاست میں وہ فیصلہ کن آواز رکھتے ہیں۔
یارب ! دل مسلم کو زندہ تمنا دے
جو دل کو گرما دے روح کو تڑپا دے

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com