لکھنؤ: وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے زرعی قوانین کو واپس لئے جانے کے اعلان کے بعد کئی مسلم تنظیموں اور سماجی کارکنان نے اب حکومت سے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امروہہ سے بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے سی اے اے کو بلا تاخیر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
کنور دانش علی نے ٹوئٹ کیا، ”تین زرعی قوانین کو منسوخ کرنا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ میں طاقتور ریاستی اقتدار اور ان کے سرمایہ دار دوستوں سے لڑنے، قربانی دینے اور جیتنے کے لیے کسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وزیر اعظم مودی کو ‘بغیر کسی تاخیر کے’ سی اے اے پر نظر ثانی کر کے قانون کو منسوخ کرنا چاہیے۔”
جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی تین زرعی قوانین کو واپس لینے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور کسانوں کی کامیابی کو سراہا۔ ارشد مدنی نے دعویٰ کیا کہ سی اے اے کے خلاف تحریک نے کسانوں کو زرعی قوانین کی مخالفت کرنے کی ترغیب دی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ زرعی قوانین کی طرح سی اے اے کو بھی واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی قوانین کو واپس لینے کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت اور عوام کی طاقت سب سے اہم ہے۔ مدنی نے الزام لگایا کہ کسانوں کی تحریک کو اسی طرح دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جس طرح ملک کی دیگر تمام تحریکوں کے معاملہ میں کیا گیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے ترجمان مولانا سفیان نظامی نے کہا کہ زرعی قوانین کی طرح حکومت کو سماج میں ہم آہنگی اور امن و امان کے لیے سی اے اے کو بھی واپس لینا چاہیے۔
سماجی کارکن ایس آر داراپوری نے بھی کہا ہے کہ سی اے اے کو منسوخ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے جذبات کا احترام کیا جانا چاہئے۔
سی اے اے کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے والے ایک اور کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہم خیال لوگ اپنی تحریک کو دوبارہ شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں، جسے وبا کے دوران بند کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں نے راستہ دکھایا ہے اور اگر ان کی طرف سے مسلسل احتجاج زرعی قوانین کو منسوخ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
خیال رہے کہ سی اے اے کو 12 دسمبر 2019 کو نوٹیفائی کیا گیا تھا، اور 10 جنوری 2020 سے نافذ العمل قرار دیا گیا۔پارلیمنٹ سے سی اے اے کی منظوری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ سی اے اے کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندوؤں، سکھوں، جینوں، بودھوں، پارسیوں اور عیسائیوں جیسی ظلم کا شکار اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنا ہے لیکن اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے۔