محفوظ احمد، ریاض، سعودی عرب
ابتداء سے ہی مجھے ان لوگوں کے حالات سے خصوصی دلچسپی رہی ہے جنہوں نے ذاتی عزم اور ذاتی جد و جہد کی بناء پر اپنی زندگی بنائی ہوکیوں کہ ایسے لوگوں کے حالات میں بڑا سبق ہوتا ہے۔ چنانچہ مصر کے معروف ادیب احمد امین انے اپنی خود نوشت سوانح ” حیاتی” میں لکھا ہے کہ انسان اپنے گردو پیش کی پیداوار ہوتا ہے یعنی ماحول کی جو مشینری اس کے ارد گرد مصروف کار ہوتی ہے وہ اس کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ انسانی زندگی کے تجربات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات بلا خوف تردید درست ہے مگر پھر لوگ دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ زیادہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جن پر ان کا ماحول حکمرانی کرتا ہے خواہ وہ ماحول اپنے جملہ اجزائے ترکیبی کے ساتھ صالح ماحول ہو یا فاسد۔ دوسری قسم ایسے انسانوں کی ہوتی ہے جو ماحول کی حکمرانی قبول نہیں کرتے بلکہ اپنی دیدہ وری سے حالات کا مشاہدہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔ قابل قبول اور مفید چیزوں کو گلے لگاتے ہیں ۔ فرسودہ و دور از کار روایات کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ چمنستان حیات کو نت نئے گلوں کی تخم ریزی و آبیاری سے سنوارتے اور نکھارتے ہیں اور اس کا دامن خس وخاشاک کی آویزشوں اورآلودگیوں سے پاک کرتے ہیں۔ کارگہۂ حیات میں فرسودہ پگ ڈنڈیوں پر قطع مسافت ان کے دل غیور اور حوصلۂ بلند کے لئے وجہ ننگ و عار ہوتی ہے۔ وہ اپنے کاروان زندگی کے لئے شاہراہ حیات خود تعمیر کرتے ہیں۔ ان کی منزلیں اور مرحلے خود ساختہ و پرداختہ ہوتے ہیں، منت کش غیر نہیں ۔
*وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے*
*زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا*
حافظ و قاری ، مولانا و پروفیسر بدرالدین الحافظ صاحب قاسمی کا شمار ہمارے نزدیک یقیناًاسی دوسری قسم کی کمیاب اور گراں مایہ ہستیوں میں ہے جن کا دیدار چشم فلک کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ دہلی کے زمانۂ طالب علمی میں پروفیسر موصوف سے ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب اچانک ایک دن لمبے، دبلے پتلے، گورے اور چھریرے بدن کے ساتھ سفید شیروانی میں ملبوس بآواز بلند سلام کرتے ہوئے ایک صا حب کلاس روم میں داخل ہوئے اور اساتذۂ کرام کی کرسی پر براجمان ہو گئے ۔ عمر تقریبا ستر سال رہی ہو گی لیکن زمانے کی یہ طویل مسافت طے کرنے کے باوجود انتہائی، فعال، نشیط اور چاق و چوبند نظر آ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپنے بارے میں صرف نام پر اکتفا کیااور کہا کہ میرا نام بدرالدین ہے، یہاں پر آپ لوگوں کی خدمت کے لئے مجھے تاریخ کا موضوع سپرد کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کی تاریخ کے یہ ہمارے استاذ ہوا کریں گے۔اپنا تعارف تو مختصر سے مختصر تر کرایا اور ہم طلبہ سے شرح و بسط کے ساتھ ہر ایک کے احوال معلوم کرتے رہے ۔ پھر کیا تھا ا سکے بعداستفادہ کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تو کسی نہ کسی شکل میں تا ہنوز جاری و ساری ہے۔
ویسے تو اپ ایک مدت مدیدہ سے ہندوستان کے دارلحکومت دہلی مین مقیم ہین لیکن آپ کا وطن اصلی یو پی کا شہر مرادآباد ہے اور آپ ہماچل پردیش کے ایک چھوٹے اور دور افتادہ گاؤں “کسولی ” میں پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیااوکچھ ہی سالوں بعد والدہ محترمہ کی بے لوث محبت سے بھی محروم ہو گئے اور اس طرح زندگی کی باد بابہاراں دیکھنے اور اس کے شجر بے ثمر کے بار آور ہونے سے پہلے ہی آپ کے والدین محترمین کا سایۂ عاطفت آپ کے سر سے ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا ۔ چنانچہ رواج زمانہ کے مطابق ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ آپ کو مدرسہ میں داخل کردیاگیا۔ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے حفظ قرآن پاک کی تکمیل کی اور بعد ازاں اسی کو بنیاد بنا کربر صغیر کی معروف اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیو بند تک کا سفر کر ڈالا۔ یتیمی کی حالت میں مدرسہ ابتدائی سے لے کر دیوبند تک کا سفر ہی کیا کم تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بچبن سے ہی زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ آپ کے رگ و پے میں خون کی طرح اترا ہوا تھا۔ آپ کے سامنے ایک سوچا ہوا نشانہ تھا اور آپ کا تابناک مستقبل آپ کی نگاہوں کے سامنے رقص کررہا تھا جس کا آپ عین یقین سے مشاہدہ کر رہے تھے چنانچہ عین اس وقت جب کہ عربی مدرسہ کا ایک فاضل زمانۂ طالب علمی کے حصار سے نکلنے کے بعد اپنی راہ حیات کے تعین میں سرگرداں نظر آتا ہے، آپکی فکر دور اندیش نے ایک بار پھرآ پ کی رہنمائی کی اور آپ نے دیوبند سے دہلی کا ارادہ فرمایا۔ خود لکھتے ہیں !
*” دیوبند سے فاضل دارالعلوم کی سند لینے کے بعد میرا جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی جانے کا ارادہ ہوااور ۱۹۵۵ میں ہائی اسکول کرنے کی غرض سے وہلی چلا گیا۔ یہاں سے میری زندگی میں ایسا انقلاب آنے والا تھا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اسی سال میں نے ہائی اسکول کا امتحان دیا مگر ہندی نہ جاننے اور انگلش کمزور ہونے کی وجہ سے امتحان میں فیل ہو گیا۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک ناکامی دوسری کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور ۱۶ / اگست ۱۹۵۶ سے مدرسہ ابتدائی جامعہ میں استاذ اسلامیات کی حیثیت سے مجھے ملازمت مل گئی کیوں کہ میں حافظ اور فاضل دیو بند تھا جو لیاقت اس منصب کے لئے کافی تھی یہاں سے مجھے دہلی میں پیر جمانے کا موقع مل گیا لیکن مقصد ابھی بھی واضح نہیں تھا”۔*
ع: مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
چنانچہ نو واردان اقلیم حیات اورطفلان مکتب کی ذہن سازی اور ان کے نیر و تاباں مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ کارگہہ حیات کی خوشہ چینیوں سے آپ نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیااور ۱۹۶۷ میں بی اے مکمل ہو جانے کے کچھ سالوں بعد دو سال کی رخصت تعلیمی لے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیاپھر ۱۹۷۴ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرکے وہاں سے دہلی واپس لوٹے اور مکتب عشق کا انداز نرالا دیکھا کے تحت تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ تا دیر چلتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۸۵ میں دہلی یونیورسٹی دہلی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کر ڈالی چنانچہ مدرسہ ابتدائی کی خدمت تدریسی نے ارتقائی شکل اختیار کی اور اراکین جامعہ کی جانب سے شعبہ عربی کے لکچرر کی حیثیت سے آپ کا پروموشن ہونا طے کیا گیا۔
*منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی*
*اتنا عظیم بن جا منزل تجھے پکارے*
پروفیسر موصوف کی حیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے اور اپ کی کتاب زندگی کے صفحات کی ورق گردانی کرنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے اور اس کے تمام دریچے اس طرح وا ہو جاتے ہیں کہ یہ سمجھنے میں تھوڑی بھی دیر نہیں لگتی کہ تعلیم نامکمل کی تکمیل کے لئے درازئی عمرکبھی سد راہ نہیں رہی ہے خواہ ہم اپنی عمر کی خمسینات ہی کیوں نہ تجاوز کر چکے ہوں۔چنانچہ ۳ اکتوبر ۱۹۹۲ کو بنارس ہندو یونیورسٹی (BHU ) میں شعبۂ عربی کے صدر منتخب ہوئے اور بہت سے تشنگان علوم عربیہ کی تشنگی کو سیراب کرنے کے بعد ۱۹۹۵ میں ریٹائرڈ ہو کر وہاں سے دہلی واپس لوٹ ایے۔
*ع : ناز کرتا ہے زمانہ، ناز کو بھی ناز ہے۔*
تقریبا ۴۰ سال تک درس و تدریس کی خدمت انجام دینے کے بعد ۱۹۹۵ میں جب ریٹائرڈ ہوئے تب بھی آپ کی فکر غیر منجمد اور حیات فعال نے آپ کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیااور ایسا ہوتا بھی کیوں ، کہ آپ کی حیات مستعار کے یتیم پس منظر نے آپ کو اس سے کوسوں دور رکھا تھا ۔چنانچہ ان رفتہ از کار اوقات کو کارآمد بنانے کے لئے صفحۂ قرطاس کو زحمت دے کر جب قلم کو مہمیز لگائی تو کبھی عربی ادب کے معروف ادیب عباس محمود عقاد کی معرکۃ الآرا کتاب “عبقریت محمد ” کا اردو ٹرانسلیشن کر ڈالا جو اپنی نوعیت کا پہلا اردو ترجمہ تھا تو کبھی انہیں کی دوسری کتاب “عبقریت عایشہ” کو اردو کا پہترین جامہ پہنا دیا یہاں تک کہ خلیفۂ اول سے کے کر خلیفۂ آخر تک بعنوان بالا ان کی تمام تصانیف کو زبان اردو کے قالب میں ایسا ڈھالا کہ آج ان کو اردو ادب کی دنیامیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان کے علاوہ نوجوانان مسلم جن کے بارے میں علامہ اقبال ؒ نے کبھی کہا تھا کہ *”کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے”* کی رہنمائی کے لئے آپ کی متعدد کتابیں علم و ادب کے شوقین حضرات کے کتب خانے کی زینت بنی ہوئی نظر آئینگی۔ روزمرہ کے معمولی واقعات اور چھوٹی چھوٹی باتیں جو عام انسان کی نظر میں کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں آپ ان سے ایسے بڑے بڑے نتائج اخذ کرتے ہیں کہ آپ کی سادہ زندگی کو دیکھ کر اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ چند سالوں قبل اخبار میں شائع شدہ آپ کے ایک مضمون بعنوان *”شیخ صاحب کا طرحدار کرتا”* کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ ہم نے بارہا آپ کو بٹلہ ہاؤس کی سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے دیکھا ہے ، سنجیدگی اور متانت سے جھکی ہوئی آپ کی نگاہوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ آپ کو راستے کے گردو پیش کی خبر بھی ہے لیکن وہیں ایک طرحدار کرتا دیکھ کر جب کوئی مضمون اخبار کی زینت بنتا ہے تو بے ساختہ زبان پر *”قلم گوید کی من شاہِ جہانم”* کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آ پ کی مذکورہ بالا خدمات کی بنا پرہی آپ کو ۱۹۹۶ میں صدر جمہوریہ اوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ایک با کمال مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ آپ طلبہ کے انتہائی بہی خواہ اور آخری حد تک ہمدرد انسان ہیں۔ طلبہ سے محبت آپ کے مکارم اخلاق کی اعلیٰ دلیل ہے۔ غریب و نادار طالب علم کی خاموشی کے ساتھ مدد کرنا آپ کی طبیعت ثانیہ ہے۔ معہد کے طالب علمی کے زمانہ میں ایک بار ہمارے ایک ساتھی سخت بیمارہو گئے، دہلی جیسے شہر میں علاج ایک مشکل ترین امر تھا۔ آپ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو از خود آپ نے خاموشی کے ساتھ مجھے ایک معقول رقم ان کے علاج کے لئے پیش کی جو بڑی حد تک معاون ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک طالب علم کمپوٹر کا ایک کورس کر رہے تھے لیکن فیس کی ادائیگی ان کے لئے ایک دشوار گذار بات تھی۔ آپ کو جب معلوم ہواتو آپ نے فیس کی معلومات حاصل کر کے ان کی فیس خود ادا کر دی۔ایسے ہی معہد کے ایک قدیم طالب علم کو ملازمت کے حصول کے لئے ایک مرتبہ ایک خطیررقم درکار تھی۔ اس نے حضرت پروفیسر صاحب سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ نے بلا کسی تامل کے اپنی چیک بک سے پچاس ہزار روپئے کا ایک چیک تیار کر اس طالب علم کے حوالہ کر دیا اور وہ دعائیں دیتا ہو وہاں سے واپس ہوگیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی واقعات ایسے ہیں جن سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں لیکن آپ کی حیات مبارکہ میں ان کا ذکر آپ کی بے لوث خدمت کے لئے شاید مناسب ن ہو۔
پوری زندگی کمیونل اور نان کمیونل ماحول میں گزارنے کے باجو د آپ نے اپنے اسلامی تشخص کو ہمیشہ برقرار رکھا۔ کرتا پائجامہ ،شیروانی اور ٹوپی ہی ہمیشہ آپ کے بدن کی زینت رہی اوار ا ن کے تئیں آپ کے پائے ثبات میں کبھی تزلزل نہیں آیاجبکہ پتلون اور کوٹ ضرور آپ کے سامنے شیروانی میں تبدیل ہو گئے ہونگے جیسا کی آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ناچیزکا اپنے ایک دوست کے ساتھ پروفیسر صاحب کے گھر جانا ہوا۔ خوردو نوش کے دوران مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیالات ہو رہے تھے کہ اسی دوران مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا اور اتفاق سے مسجد کا مائک خراب ہونے کی وجہ سے اذان نہیں سنی جا سکی۔ کچھ دیر بعددیوار پر لگی گھڑی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ نماز با جماعت ختم ہو چکی ہے۔ اس پر پروفیسر موصوف اس قدر بے چینی کے عالم میں کھڑے ہوئے کی ہمیں ایسا محسوس ہواجیسے کوئی قیمتی چیز ان سے کھو گئی ہے اور آپ اس کو انتہائی پریشانی کے عالم میں تلاش رہے ہیں۔ نشست یک لخت برخاست ہو گئی اور مسجد کا رخ کیا گیا۔ ایک مومن کے بار ے میں جو کہا گیا ہے کہ اگر اس کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا سار ا مال و متاع ضائع ہو گیاکا عملی نمونہ ہمیں پہلی بار دیکھنے کو آیا۔
اللہ تعالیٰ پروفیسر موصوف کی عjمر میں برکت عطا فرمائے۔ آپ کے سایۂ عاطفت کو مدارس اسلامیہ کے طلبہ پر تا دیر قائم و دائم رکھے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو دین اسلام کے خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
smahfoozazmi@gmail.com
Mob.: +966543591645