مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے زرعی قوانین کے خلاف شروع ہونے والی کسان تحریک کو آج ایک سال مکمل ہو گیا۔ پنجاب اور ہریانہ سے دہلی کی سرحدوں پر پہنچنے والی اس تحریک نے مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور اس ملک کے لوگوں کو یہ دکھا دیا کہ جمہوریت میں حکومت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو اگر عوام اٹھ کھڑے ہوں تو کسی بھی فیصلے کو تبدیل کرا سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تحریک سے اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کے خلاف بھی چھیڑی گئی تھی۔ اس تحریک میں ہندوستان کے اقلیتی طبقہ کی ان خواتین نے جان ڈالی تھی جنہیں ملک میں سب سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ سی اے اے تحریک تمام عالم میں مقبول تو ہوئی مگر مودی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کو واپس نہیں لیا۔ لہذا سبھی کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ آخر کسان تحریک میں ایسا کیا تھا جو سی اے اے تحریک میں نہیں تھا؟
اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ حکومتوں کے فیصلے وقت، حالات اور سیاسی نفع نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے لئے جاتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو ہماچل پردیش میں کراری شکت کا سامنا کرنا پڑا اور اسے لگا کہ اگر کسان تحریک لگاتار جاری رہی تو اس کا خمیازہ اسے اتر پردیش میں بھگتنا پڑ سکتا اور اس نے زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ لے لیا۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، ہمیں دونوں تحریکوں کے فرق کو بھی سمجھنا ہوگا۔ کسان تحریک کی باگڈور سنیوکت کسان مورچہ نے سنبھال رکھی تھی اور دوسری متعدد تنظیمیں اس میں تعاون کر رہی تھیں۔ اس تحریک کا مغربی اتر پردیش میں اتنا اثر نظر نہیں آ رہا تھا جتنا پنجاب اور ہریانہ میں اس کے باوجود مظفرنگر سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت غازی پار بارڈر پر ڈٹے رہے، یہاں تک کہ تحریک کا چہرہ بھی بن گئے لیکن اس سے سنیوکت کسان مورچہ کے ذمہ داروں کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
شاہین باغ اور ملک کے مختلف علاقوں میں چلائی گئی سی اے اے تحریک میں شامل مظاہرین کو جس طرح کئی طرح کے الزامات کا سامنا رہا اسی طرح سے کسان تحریک میں شامل مظاہرین پر بھی حملے کئے گئے۔ سی اے اے تحریک کو مسلمانوں کی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں دہشت گرد اور پاکستانی قرار دیا گیا۔ تو کسان تحریک میں لوگوں کو بھی خالصتانی اور دہشت گرد قرار دیا گیا۔ لیکن کسان لیڈران نے ہر الزام کا روزانہ کی بنیاد پر جواب دیا اور ان کے خلاف کی گئی ہر سازش کو ناکام بناتے رہے۔ سی اے اے تحریک میں شامل لوگوں پر مقدمات ہوئے، وہ جیل بھی گئے اور کچھ کو تو آج تک ضمانت نہیں مل سکی۔ اسی طرح یومِ جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے نکالے گئے ٹریکٹر مارچ میں شامل مظاہرین پر بھی مقدمے ہوئے گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن گرفتار ہونے کے بعد انہیں ضمانت بھی ملی اور حکومت پنجاب نے تو معاوضہ تک فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔
سی اے اے تحریک کو کورونا کی وبا کے سبب حکومت نے ختم کرا دیا تھا لیکن کسان تحریک کے وقت بھی تو ملک بھر میں کورونا پھیل رہا تھا۔ حالانکہ کسان تنظیموں نے حکومت کو اس معاملہ میں بھی زیادہ موقع نہیں دیا اور جب ضرورت پڑی ٹیکہ کاری بھی کرائی اور جائے احتجاج پر ماسک اور سینی ٹائزر کا انتظام بھی کیا۔
تین زرعی قوانین کو واپس لینے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلان کے بعد ایک مرتبہ پھر شہریت ترمیمی قانون پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق آسام میں سی اے اے کے خلاف کئی گروپ پھر سے بیدار ہو رہے ہیں اور 12 دسمبر کو مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ادھر، مسلم علما اور تنظیموں کی جانب سے بھی اس طرح کے اشارے دئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ زرعی قوانین کی طرز پر سی اے اے بھی واپس لیا جانا چاہئے۔
آل آسام اسٹوڈنٹ یونین کے مشیر سموجل کے بھٹاچاریہ نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ احتجاجی مظاہروں کے تعلق سے کسانوں کی ثابق قدمی ان کے لئے ایک سبق ہے جو سے اے اے مخالف تحریک چلا رہے ہیں، جوکہ کورونا وبا کے سبب رک گئی تھی۔ کرشک مکتی سنگرام سمیتی کے شمالی ہندوستان کے کسانوں کی تعریف کرتے ہوئے اپیل کی کہ ایک بار پھر یکجا ہو کر سی اے اے کے خلاف تحریک دوبارہ شروع کرنی چاہئے۔ اسی طرح کا مطالبہ جمعیۃ علما ہند اور امروہہ سے رکن پارلیمنٹ دانش علی نے بھی کیا ہے۔ تاہم ان مطالبات پر بات کرتے ہوئے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے کہا کہ پھر سے ‘فرقہ پرستی کی سیاست’ شروع ہو چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسان تحریک سے سبق لیتے ہوئے دوسری تحریکوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حکومت صرف انتخابی نفع نقصان ہی سمجھتی ہے، وہ تحریکوں کی زبان نہیں سمجھتی۔ مودی حکومت کے تینوں قوانین کو واپس لینے پر اسد الدین اویسی نے وزیر اعظم مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا، ”یہ کسان تحریک اور کسانوں کی کامیابی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب مودی حکومت شہریت ترمیمی قانون کو بھی واپس لینے پر مجبور ہوگی۔”