شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
یہ حقیر بہت عرصہ سے شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کی مبارک لحد کی زیارت کا آرزو مند تھا، ۱۹۳۴ء میں علامہ اقبالؒ اپنے صاحب زادے جاوید اقبال کے ساتھ اُن کے مزار تشریف لے گئے، شوق سے وہاں پہنچے، محبت کی آنکھوں سے مزار کو دیکھا اور شیخ کے قدموں میں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا، سرہند کی زیارت کی جو آرزو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کی تحریر سے پیدا ہوئی تھی، علامہ اقبال کی داستان حاضری نے اس کو اور بڑھا دیا، علامہ اقبال نے بال جبرئیل میں اس نظم کو شامل کیا ہے، جو انھوں نے اس زیارت کے پس منظر میں کہی ہے، اس نظم کے تین اشعار اس طرح ہیں:
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی ٔ احرار
چنانچہ مؤرخہ ۱۹-۲۰ ربیع الاول ۲۶- ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۱ء کو یہ دیرینہ خواہش شرمندۂ تکمیل ہوئی اور راقم الحروف کو افراد خانہ کے ساتھ سرہند حاضر ہونے اور حضرت مجددؒ کے مزار پُر انوار کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی، اس حقیر کو مزارات کی زیارت کا زیادہ ذوق نہیں ہے؛ کیوں کہ اکثر یہ بدعات اور مشرکانہ رسوم ورواج کی آماجگاہ ہوتی ہیں؛ لیکن یہاں بحمداللہ یہ کیفیت نہیں پائی جاتی؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں حاضر ہو کر بڑا سکون حاصل ہوا، قلب وروح کو غذا ملی، اس موقع پر بے ساختہ احساس پیدا ہوا کہ موجودہ دور میں ہندوستان ہی نہیں؛ بلکہ عالم اسلام کے احوال شیخ کے عہد سے ملتے جلتے ہیں، آج بھی مسلمانوں کی ثابت قدمی کا امتحان ہے، اور آج بھی اہل اقتدار کی اصلاح کے لئے وہی طریقہ کار زیادہ موزوں ہے، جو انھوں نے اختیار کیا تھا، جس کا راستہ طویل ہے؛ لیکن اس راہ سے منزل تک پہنچنے کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ دو قومیں ایسی ہیں جو کسی بھی مذہب اور فکر کو سخت نقصان پہنچاتی ہیں، ایک: طاقت ور خود سر حکمراں، دوسرے: مذہب سے تعلق رکھنے والے جاہل نفس پرست علماء اور زہاد، سوء اتفاق یہ ہے کہ مغل اہل اقتدار میں اکبر کے عہد حکومت میں اسلام کو نقصان پہنچانے والے یہ دونوں اسباب جمع ہوگئے، اکبر کے دور میں مغل مملکت بہت وسیع تھی، وہ موجودہ افغانستان سے لے کر برما تک پھیلی ہوئی تھی؛ لیکن اپنے درباریوں اور درباری ملاؤں کی خوشامدانہ باتوں کی وجہ سے اس کی طبیعت زر اور زمین کے اقتدار پر قانع نہ ہو سکی؛ بلکہ اس میں یہ جذبہ پیدا ہوگیا کہ اسے تقدس اور بزرگی کا مقام بھی حاصل ہو، اس کی عظمت لوگوں کے ایمان ویقین کا حصہ بن جائے، اس کے لئے ضروری تھا کہ ایک نیا مذہب وجود میں آئے اور اس نئے مذہب کی تقویت کے لئے دو گروہوں کا تعاون درکار تھا، ایک دربار شاہی کے ملازمین اور اقتدار میں شریک افراد، دوسرے: ایسے علماء جو اپنی ذہانت سے تاریکی کو روشنی ثابت کرنے کا ملکہ رکھتے ہوں اور ایسے مشائخ جن کے دلوں میں خالق اسباب کی محبت کے بجائے اسباب دنیا کی محبت ہو اور ان کی ظاہری وجاہت کا لوگوں پر اثر ہو۔
اکبر کو ان تمام اسباب کو حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، اس کو ایسے علماء بھی مل گئے جنھوں نے اس کے لئے مبالغہ آمیز عقائد واعمال وضع کر لئے، جیسے: آگ کی تقدیس، آفتاب کی پرستش، بادشاہ کے سامنے سجدہ، ملاقات کے وقت ایک آدمی ’’ اللہ اکبر‘‘ کا کہنا اور دوسرے کا ’’ جل جلالہ‘‘ کہنا، اکبر کے دربار میں ہندو عہدہ داروں کی بڑی تعداد تھی اور اس کا اثر تھا کہ بہت سے ہندوانہ افکار بھی اس کے دل ودماغ میں جاگزیں ہوگئے، ہندو اور پارسی تہواروں سے اسے خاص رغبت تھی، گوشت خوری کو ناپسند کرتا تھا، خنزیر کے جائز ہونے کا قائل تھا، اس نے زکوٰۃ کا حکم ساقط کر دیا ، ہجری سن منسوخ کر دیا، شراب نوشی اس طرح ہوتی کہ دربار کے مفتی اور قاضی کو بھی اس میں شریک ہونا پڑتا ، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور آپ کے مبارک اسماء سے نفرت تک کا اظہار ہوتا تھا، اسی زمانہ میں ایران سے ایک ایسے فرقہ کے لوگ بھی آدھمکے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو قیامت تک نہیں مانتے تھے؛ بلکہ ان کا خیال تھا کہ ایک خاص مدت کے گزرنے پر آپ کی نبوت نعوذ باللہ ختم ہو جائے گی، اکبر کے درباریوں نے اس تصور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نبوت محمدی کے ایک ہزار سال گزر چکے ہیں، اب دوسرا ہزار ’’الف ثانی ‘‘ شروع ہو رہا ہے؛ اس لئے اس عہد نو کے لئے ایک نیا دین، نیا مذہب اور ایک نیا پیشوا ہونا چاہئے، گویا نبوت محمدی کو منسوخ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی تھی اور پورے ملک پر شرک والحاد کی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔
اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ جب رات کی تاریکی اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو آسمان کے افق سے صبح کی سفیدی طلوع ہوتی ہے، اسی طرح جب کفرو ضلالت کی تاریکی عالم انسانیت کو اپنے نرغہ میں لے لیتی ہے تو حق وہدایت کی روشنی طلوع ہتی ہے، پہلے تو یہ روشنی نبوت کی شکل میں ظاہر ہوتی تھی، اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کو اس منصب جلیل سے نوازا کرتے تھے؛ لیکن سلسلۂ نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہو چکا، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا، اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ دروغ گو اور کذّاب ہے؛ اس لئے آپ کی امت میں ہدایت کی یہ روشنی تجدید دین کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور امت کے مجاہدین اسلام کے تحفظ وبقا کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں؛ چنانچہ اس سنگین فتنہ کے دور میں اللہ تعالیٰ نے خانوادۂ فاروقی سے ایک شخصیت کو وجود بخشا جو نبوت محمدی کے عاشق کامل اور عقیدۂ توحید کے وفادار سپاہی اور ترجمان تھے، یعنی: شیخ احمد سرہندی فاروقی، انھوں نے بر سراقتدار گروہ کے مشرکانہ افکار کا رد کیا، ہندی اور ایرانی رسوم ورواج کا قلع قمع کیا، پوری قوت کے ساتھ بدعات پر نکیر فرمائی، انبیاء کی تعلیمات کے مقابلہ فلاسفہ کے افکار کو ناقابل اعتناء قرار دیا، اپنے مکتوبات کے ذریعہ بھٹکے ہوئے لوگوں کے دلوں میں ایمان ویقین کی انگیٹھی سلگائی، اپنے علم اور عالمانہ بصیرت کے ذریعہ اہل دانش کو قائل کیا اور اپنے اخلاق کے ذریعہ عوام کے دل فتح کئے۔
انھوں نے اکبر کی گمراہیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خاموش اور تدریجی طریقہ کار اختیار کیا، قید کئے گئے اور اس قید میں انھوں نے مجازاََ نہیں بلکہ حقیقتاََ سنت یوسفی ادا کی اور قید خانہ ان کے تبلیغی مشن کا خاموش اور محفوظ مرکز بن گیا، انھوں نے اپنی داعیانہ کوشش میں تدریج کا راستہ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ حالات بدلنے کی کوشش فرمائی، یہ کوشش جہانگیر کے عہد میں نتیجہ خیز ہونی شروع ہوئی، جب آپ نے بادشاہِ وقت کے مقربین پر محنت شروع کی اور ان کو ایسے خطوط لکھے کہ گویا دل نکال کر رکھ دیا ہو اور اپنے لہو سے ان کے نام خطوط لکھے ہوں، آپ نے قلعہ گوالیار سے رہائی پانے کے بعد ساڑھے تین سال جہانگیر کے ساتھ گزارے، جہانگیر جس نے اپنے باپ کے دربار میں بوالہواس نام نہاد ملاؤں کی حرص وطمع اور دنیا طلبی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا، جب اس نے آپ کے زہدو استغناء ، دنیا سے بے رغبتی اور داعیانہ تڑپ کو دیکھا تو اس میں ایک خوشگوار تبدیلی شروع ہوئی اور گویا مغل حکومت نے اسلام کی طرف مراجعت کی، شاہ جہاں نے اس راستہ میں مزید اپنے قدم آگے بڑھائے ، بہت سے مشرکانہ رسوم کو ختم کیا اور آخر مغل اقتدار اورنگ زیب عالمگیرؒ جیسے خدا ترس، درویش صفت بادشاہ کے ہاتھ میں آیا، جو یقیناََ تاریخ ِاسلام کے گنے چنے خدا ترس حکمرانوں میں شامل ہیں، علامہ اقبالؒ نے ان کے بارے میں صحیح فرمایا کہ وہ بادشاہوں کی صف میں یکتائے روزگار شخصیت کے مالک تھے، اور اُن کی درویشی خود ان کی قبر کی سادگی سے واضح ہے:
درصف شہنشاہاں یکتااست
فقر او از تربتش پیدا است
حضرت مجدد الف ثانیؒ نے جن حالات میں آنکھ کھولی، اپنی دعوتی کوششوں کا آغاز فرمایا ، اس کو بہتر انجام تک پہنچایا اور اس کے لئے جو طریقہ انھوں نے اختیار کیا، آج بھی وہی ماحول ہے اور اسی اسلوب میں کام کرنے کی ضرورت ہے، اُس وقت شرک والحاد کا غلبہ تھا، حکمرانوں کی طرف سے اِس کو پشت پناہی حاصل تھی، اسلام اور شعائر اسلام کی اہانت کی جاتی تھی، حریص ولالچی اور دنیا کے طلبگار اہل علم اور اہل قلم دین داری کا چولہ پہن کر اسلام مخالف عناصر کی مدد کے لئے کھڑے تھے اور ان کی گمراہانہ حرکتوں کی تاویل کرتے تھے، جو لوگ اسلام کی سربلندی کے لئے اٹھتے تھے، ان کو قید وبند سے دو چار ہونا اور مصائب سے گزرنا پڑتا تھا، یہی صورت حال آج بھی ہے، ہندوستان سے لے کر عالم اسلام کے بڑے حصے تک موجود ہے، شیخ نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے نصیحت ودعوت کا طریقہ اختیار کیا اور خاموش طریقہ سے ان لوگوں تک اپنی دعوت پہنچائی جو فضاء کو بدلنے میں مؤثر ثابت ہو سکتے تھے، نہ حکومت سے الجھے؛ کیوں کہ اسی وقت مقابلہ آرائی اور زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی تھی، اور نہ عزلت گزینی کا راستہ اختیار کیا؛ کیوں کہ یہ فرض نا شناسی کی بات ہوتی اور نبوت محمدی سے بے وفائی کرنے کے مترادف ہوتا؛ اس لئے موجودہ دور میں علماء و مشائخ کو شیخ کے تذکرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے، خاص طور پر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ کا اس نیت سے مطالعہ ضرور کرنا چاہئے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے کیا لائحۂ عمل ہو؟؟