آئیے کچھ اپنے بارے میں بھی سوچیں

قاسم سید

ہندوستانی سیاست میں نظریاتی لڑائی دھیرے دھیرے گوریلا وار میں تبدیل ہوگئی ہے۔ میدان جنگ تبدیل ہوتے رہے ہیںمگر اس جنگ کے لیے ایندھن اورخوراک فراہم کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں یہ ہر مورچہ پر جاری ہے۔ تیور بہت جارحانہ ہیں اور محفوظ راہداری دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ بلاشبہ سیکولرزم اپنے دوغلے اورمنافقانہ ذہنیت رکھنے والےجنرلوںاور سپہ سالاروں کی وجہ سے پے درپے شکست کھارہاہے۔ گھر کے بھیدی کا ایمان بہت کمزور ہوتا ہے وہیں دادودہش کی خواہش رکھنے والوں کی امنگوں کو ہوا دے کراندرکی کنڈی کھلوانا آسان ہوجاتا ہے۔ ہندو تو وادی طاقتیں ہمیشہ اپنے مقصد ،ہدف کے تئیں مخلص اور یکسورہیں۔ ان کی نگاہ ارجن کی طرح صرف مچھلی کی آنکھ پر نشانہ لگانے پر تھی 1925میں جو حلف لیاگیا، جن عزائم کا اظہار کیا گیا، جو اہداف طے کئے گئے ان پر مسلسل کام کیا جاتا رہا۔انہوں نے اپنے دشمن اور دوست متعین کرلیے اور لگاتار گھیرا بندی ہوتی رہی۔ سماج میں معتوب و مطعون کئے جانے کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا پھر انہیں خود سیکولرزم کی صفوں سے کمک پہنچائی جاتی رہی۔ زمین ہموار کی گئی، نرم ہندوتو کی تخلیق ہوئی۔ پہلا ہندو وراٹ سملین کانگریس کے بڑے اور سینئر لیڈر کی رہنمائی میں بوٹ کلب پرہوا۔ کہیں چھپ کر تو کہیں اعلانیہ اس پودے کو سرکاری مشنری کے ذریعہ کھاد فراہم ہوتی رہی ’سیکولر مجاہدین ‘ کی بدولت گرم اور نرم دونوں ہندوتو آج جارح اور طاقتور ہیں۔ ایک دوسرے کے پشت پناہ ہیں، وہیں سیکولرزم 60 سال تک برسر اقتدار رہنے، اس کے کمالات و جمالات سے استفادہ کرنے اور اقتدار پر بلاشرکت غیرے قابض رہنے کے باوجود ہراساں و پریشان ہے۔ جائے پناہ ڈھونڈتا پھررہا ہے، ایک ریاست سے دوسری ریاست میں دربدر کیا جارہا ہے۔ پے درپے شکستوں نے اسے نڈھال کردیا ہے کیونکہ سیکولرزم کو جن لوگوں نے گود لیا وہی اس کاخون نچوڑ تے رہے، اس کے تئیں کبھی وفادار نہیں رہے۔ یہ ڈراکیولابن گئے، اپنا پیٹ بھرنے کے لئےگندا کڑوا کسیلا خون لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس جنگ میں جنرلوں ،سپہ سالاروں، میجروں کا تو کچھ نہیں بگڑا وہ اپنی ضرورتوں کے مطابق کمان بدلتے رہے لیکن اس لڑائی میں عام سپاہی بری طرح مارا گیا، وہ کسی طرف کانہ رہا، اس کی وفاداریاں غیر مشتبہ ،اس کی وابستگی اعلانیہ رہی۔ اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا، اسے نشان زد کرکے ٹارچر کیا گیا، مشکیں کس دی گئیں۔ سانس بھی آہستہ لینے کی اجازت ہے اس میں سے کئی جنرل ایسے تھے جو عین لڑائی کے وقت یا تو دشمن فوج سے جاکر مل گئے یا اپنی فوج کو دو قدم پیچھے لے گئے اور کہیں بغیر جنگ بندی کے میدان خالی چھوڑ دیا۔ انہوں نے سپاہیوں کی زندگی اور مستقبل کے بارے میں بالکل نہیں سوچا جنہوں نے تمام کشتیاں جلاکر ملک کے مستقبل کو سیکولرزم کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھ کر تمام جملہ حقوق اس کے نام محفوظ کردیے تھے اب وہ دشمن سرپر کھڑا ہے۔ وہ 2025 تک اس نظریاتی لڑائی کو جواب بظاہر یک طرفہ نظر آرہی ہے اپنے نام کرنا چاہتا ہے۔ درباری دانشور حاوی ہوچکے ہیں۔ بہت سوں نے قبلہ و کعبہ بدل لیا۔ کوئی یقین دہانیاں حاصل کرکے دوسرے پالے میں چلاگیا اور جن کے بوتےیہ لڑائی چھیڑی گئی تھی وہ چہرے پر خبیثانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہتھیار ڈال کر امن معاہدہ پر دستخط کرچکے ہیں اور پیدل فوج کو بے بسی کے گوانتانا موبے میں ہانک دیا ہے۔ سیکولرزم کو ان نادہندگان نے ریڈ لائٹ ایریا بنادیا ہے، جس کے ساتھ وفادار ی نہیں ضرورتوں کا عارضی ناپاک رشتہ بنایا جاتا ہے۔

جہاں تک اقلیتی طبقہ کا تعلق ہے اس نے آزادی کے بعد سے آج تک سیکولرزم کو حرزجاں بناکر رکھا اور اس کے لیے صرف مخلص ہی نہیں وفادار بھی رہا۔ جن پہ تکیہ تھا ان پتوں کے ہوا دینے کے باوجود اس کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ لٹتا پیٹتا رہا۔ خانماں برباد ہوا۔ جان، مال، عزت آبرو سب کچھ داؤ پر لگ گئی، سیکولرزم کے پالنہار کشتی کو منجدھار میں چھوڑ کر بھاگ گئے مگر وہ ان سوراخوں سے نہیں گھبرایا جو لگا تار اس کشتی میں کئے جاتے رہے اور ہندوتو کا پانی بھرتا رہا۔ اس لڑائی کا سب سے زیادہ خمیازہ اگر کسی نے بھگتاتو یہ مظلوم و مقہور اقلیتی طبقہ ہی ہے۔ دلتوں کو ریزرویشن کے علاوہ دیگر اکرام و انعام سے نواز کر معاشی و سماجی زندگی سدھرتی رہی اور دلت طبقہ کی جگہ پر انہیں بٹھال دیا گیا۔ یقین نہ ہو تو گوپال کمیشن سے لے کر سچر کمیٹی تک کی رپورٹیں دیکھ لیجئے۔ دراصل اقلیتی طبقہ نے سیکولرزم کو ایمان کی جگہ دے دی اور سیکولر کا دم بھرنے والوں نے اسے ضرورت کا سامان سمجھ کر استعمال کیا۔ ظاہر ہے آزمائش تو ہمیشہ ایمان والوں کی ہوتی ہے۔ سیکولرزم اور نربھیا میں اتنا فرق ہے کہ ایک روح ہے تو دوسرا جسم، دونوں استحصال و جبر کی علامت ہیں۔ سیکولرزم برانڈ ہے جو جتنی بہتر مارکیٹنگ کرتا ہے نفع اس کے کھاتے میں جاتا ہے۔ اس وقت یہ عصائے سلیمانی ہے، اندر سے کھوکھلا بے جان، بے حس و حرکت لیکن ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ سیکولرزم سیاسی ضرورت ہے ایمان کاجز نہیں۔نہرو سے لے کر مودی تک سب نے استعمال کیا ہے، آگے بھی ہوگا۔
اس اقلیتی طبقہ کی جس کوعرف عام میں مسلمان کہتے ہیں دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے نفع و نقصان کے بارے زیادہ سوچتا ہے مگر خود کے بارے میں سوچنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کو جتنی فکر رہتی ہے خود مسلمانوں کو اپنے تعلق سے ایک فیصد بھی نہیں۔ یہ بھی اس کی سادہ مزاجی کی دلیل ہے۔ مثلاً وہ اس فکر میں ہلکان رہے گا کہ ملائم – اکھلیش مل کیوں نہیں جاتے۔ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی ساتھ الیکشن کیوں نہیں لڑتے۔ جب سب بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں تو ایک جگہ آنے میں کیا پریشانی ہے، مگر ایسا کیوں نہیں ہورہا ہے اس کا جواب تلاش نہیں کرتا۔ اگر وہ اس کا جواب ڈھونڈے تو ذہن کے سارے بند دریچے کھل جائیں گے، سیکولرزم کا ڈھونگ کھل کر سامنےآجائے گا اور سیکولرزم بنام ہندوتو کی لڑائی کی اصل حقیقت برہنہ ہوجائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ در اصل سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، باہم شیر و شکر ہیں۔ دکھ سکھ کے یارہیں ،مگر ہم چونکہ سیکولرزم کے سچے وفادار ہیں تو ہمارے دوست اور شمن وہی طے کرتے ہیں کیونکہ ہم حلال و حرام کے آگے نہیں سوچتے، انہیں جائز ناجائز مباح کی اصطلاحیں معلوم ہیں۔ سیاست حلال وحرام کی حدیں بناکر نہیں ہوتی، اس میں تمام متبادل کھلے ہوتے ہیں جس دن ہم بی جے پی کو ہرانے کی بجائے کسی کو جتانے کی ٹھان لیں گے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ کبھی اپنے بارے میں بھی سوچئے۔ یہ دولہا بدلنے کا کھیل کب تک چلے گا۔ یہ بن بلائے باراتی کا رول کب تک نبھائیں گے۔ کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بی جے پی کو روکنے کا نعرہ لگاتی ہیں، اگر واقعی مخلص ہیں ان کا ہدف ایک ہے تو پھر ان کو ایک جگہ آنے میں کیا دقت ہے۔ پھر یہ جُوا ہمارے کاندھوں پر ہی کیوں؟ ہر کوئی ہمارا طلبگار کیوں؟ بی جے پی ہارتی ہے تو قیمت ہمیں ہی چکانی پڑتی ہے اور کامیابی کی صورت میں بھی۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ نصیب میں گجرات ہے تو ملیانہ، ہاشم پورہ، ممبئی فسادات، مظفرنگر بھی ہے جہاں سو فیصد سیکولر پارٹیوں کی سرکار تھی۔ کسی کو بی جے پی یا کانگریس یا کسی اور پارٹی کا ایجنٹ کہہ کر دل کو پرفریب تسلی دی جاسکتی ہے کیونکہ گالیاں دلائل کے افلاس اور ذہنی دیوالیہ پن کی عکاس ہوتی ہیں، جہاں دلائل نہیں ہوتے وہاں گالیاں یا فتویٰ دے کر خود کو مطمئن و صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب تو وہ دور آگیا ہے کہ آپ سے ڈانٹ کر ووٹ لیاجاتا ہے اور زباں بندی کی بھی تاکید ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ یہ حالت کیوں ہوئی، کس نے یہاں تک پہنچایا اور اس کی سزا کیا ہو؟ اس دلدل سے نکلنے کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ یہ اسی وقت ہوگا جب کبھی اپنے بارے میں سوچنے کا وقت نکالیں گے۔ الیکشن آتے جاتے رہیں گے اور جب معاشی و سیاسی امپاورمنٹ کا دار و مدار ہی انتخابی سیاست اور اس کے نتائج پر ہے تو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کے بارے میں کبھی تو غور کرنا پڑے گا۔ پانی ناک تک آچکا ہے، دم گھٹنے لگا ہے، اپنے بارے میں نہیں تو آنے والی نسلوں کے بارے میں ہی سوچیں کہ خدا کرے انہیں کسی گجرات، کسی مظفرنگر جیسے خونچکاں حادثوں سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

یہ بدنظمی نگاہ باغباں کی برہمی تک ہے

مگر یہ برہمی اہل چمن کی بے حسی تک ہے

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE