مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی اور اکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں، جب رشتوں میں گرم جوشی باقی نہیں رہتی، کئی موقعوں سے رشتہ دار ہم سے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسے موقع سے ہمیں ان اسباب و عوامل کی تلاش کرنی چاہیے، جن کی وجہ سے سرد مہری پیدا ہوئی یا رشتے ٹوٹ رہے ہیں، ان کی تلاش کے بعد ان کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ ہماری توانائی اورطاقت کا بڑا حصہ رشتوں میں قربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، پلتا اور بڑھتا ہے ، رشتے ٹوٹتے ہیں تو ہم کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔ رشتہ داروں میں کئی وہ ہوتے ہیں جو آپ سے کٹ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں، ان کو بھی جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رشتے صرف ماں باپ ، بہن بھائی، شوہر بیوی ہی کے نہیں ، پڑوسی ، سماج اور دوستوں سے بھی ہوا کرتے ہیں، جہاں ہم کام کرتے ہیں، جن کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ، جو ہماری خوشی وغمی میں ہماری پشت پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ لوگ جن تک دین کی دعوت پہونچانا ہماری ذمہ داری ہے اور جو امت دعوت ہیں وہ سب ہمارے رشتہ دار ہیں، ہم جو کچھ سوچتے ہیں، ان کے ساتھ جو برتاؤ کرتے ہیں، سامنے والا جو کچھ سوچتا ، بولتا اور ہمارے ساتھ برتاؤ کرتا ہے ، یہ سب رشتہ داری اور تعلقات کی سردی وگرمی کے مظہر ہوا کرتے ہیں، اس موقع پر ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے ، جو عقبہ بن عامر ؓ سے آپ نے فرمایا تھا کہ جو تعلق توڑے اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے ا سے در گذر کرو، ایک دوسرے موقع سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامرؓ کو یہ بھی حکم دیاتھا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو ، تمہارا گھر تمہیں اپنے اندر سما لے اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔
واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کو جو نصیحتیں کیں، وہی رشتوں کے احترام کی اساس و بنیاد ہیں، رشتے صلہ رحمی نہیں کرنے سے ٹوٹتے ہیں، نا جائز طور پر مال ودولت ہڑپ کر لینے اور ظلم وستم سے ٹوٹتے ہیں، اس لیے اگر فریق ثانی تعلق منقطع کرنا چاہتا ہے ، واجب حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور ظلم وستم اس کا شیوہ بن گیا ہے تو بھی انسان کو یک طرفہ طور پر تعلقات بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے داد ودہش اور ظلم وستم کے مقابلے عفو ودر گذر سے کام لینا چاہیے۔ ایسے موقع سے زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جو منہ میں آیا آدمی بکنے لگتا ہے ، وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر رشتے کی پامالی میں شریک ہوجاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ رشتوں کو باقی رکھنے کے لیے زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے، گھر سے بلا ضرورت نہیں نکلنا چاہیے، بلکہ گھر میں ہی رہنا چاہیے، پھر اس ظلم کے خلاف ممکن ہے تمہارا رویہ بھی شریعت کے خلاف ہو گیا ہو؛ اس لیے اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ؛ تاکہ حالات درست ہوجائیں اور اللہ رب العزت ندامت کے آنسو کو قبول کر لیں۔
ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا عمل ان میں سے کسی پر نہیں ہے ، اس لیے خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور بھائی سے بھائی اور شوہر سے بیوی کے تعلقات بھی استوار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے سماجی طور پر جو نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں وہ اپنی جگہ، ذہنی تناؤ کے ہم جس قدر شکار ہیں اس نے ہماری زندگی کوعذاب بنا رکھا ہے ، اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا فرمائے۔