محمد انعام الحق قاسمی
لجنہ علمیہ ، ریاض، مملکت ِسعودی عرب
طالبان: اب ایک بڑی طاقت
جو بھی چیمپئن کو شکست دیتا ہے وہ بھی چیمپئن کے طور پر ابھرتا ہے۔ یہ جنگ کا قائم شدہ اصول ہے۔ اور یہیں طالبان کی اہمیت کا راز پوشیدہ ہے۔ طالبان اب ایک اہم بڑی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں – خاص طور پر ایشیا کے قلب میں جس حقیقت کا اب ہر کوئی اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ امریکہ کے خلاف جنگ میں ویٹنامی جنگجوؤں نے سوویت روس اور چین کی حمایت سے جنگ لڑی تھی۔ نہ ہی انہوں نے پچاس سے زیادہ ممالک کے اتحاد کے خلاف تنے تنہا جنگ لڑی تھی۔ لیکن طالبان کا معاملہ منفرد ہے۔ انہوں نے نہ صرف 50 سے زائد ممالک کے امریکی قیادت والے اتحاد بلکہ تین لاکھ [300،000] افغانوں کی قومی فوج کے خلاف بھی تنہا جنگ لڑی ہے۔ لہٰذا طالبان کی فتح مسلم تاریخ کے گزشتہ کئی سو سالوں میں سب سے اہم سیاسی اور جنگی واقعہ ہے۔ پچھلی جنگ عظیم یا کسی علاقائی جنگ میں بھی سرمایہ دار دنیا کو اتنی ذلت آمیز شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس بار انہیں غریب و جانباز طالبان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ماضی میں بھی، دو متکبر عالمی طاقتیں جیسے رومی اور فارسی سلطنتیں ابتدائی غریب مسلمانوں کی مفلوک الحال لیکن ایمانی قوت لبریز فوج کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوئی تھیں۔اس طرح تاریخ اپنے آپ کو یہ ثابت کرنے کے لئے دہراتی ہے: وفاداروں کا خون شریروں کی تلواروں پر غالب آتا ہے۔
امریکی قیادت میں اتحاد کی شکست نے پوری مغربی دنیا میں صدمے کی لہر یں پیدا کر دی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کے دیگر اتحادیوں کو اس طرح کی ذلت آمیز شکست کو نگلنا مشکل ہو رہا ہے۔مسلم ممالک کی سیکولرسٹ حکمران اشرافیہ اور ذرائع ابلاغ کے حلقوں کے درمیان طالبان کی جیت نے بھی زبردست صدمہ اور خوف پیدا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر طالبان فوبیا کی وجہ سے پاکستان کے سیکولر حلقوں میں خاص طور پر اس کی مضبوط سیکولر گہری ریاست میں ہسٹیریا کی ایک اعلی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔سیکولر اخبارات میں اس کی واضح عکاسی کوئی بھی دیکھ سکتا ہے، خاص طور پر ڈان (Don)میں جو پاکستان کے بنیاد پرست سیکولرسٹوں کا فلیگ شپ میڈیا آرگن ہے۔ اس طرح کے سیکولرسٹ اخبارات پاکستان کی طالبانائزیشن کی نان اسٹاپ الارم بیل بجا رہے ہیں۔وہ افغانستان کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان پاکستانی سیکولرسٹوں میں اسلاموفوبیا کی سطح ہندوستان کے ہندوتوا ہندوؤں سے شدت میں کم نہیں ہے۔ سیکولرسٹوں کی اتنی مضبوط موجودگی و پکڑ پاکستان کے لئے ایک وجودی خطرہ بھی پیش کرتی ہے۔ سیکولرازم نسل پرستی، قوم پرستی، قبائلیت اور فاشزم ،مسلم ریاست کے خاتمے کے انتشار کا باعث بنتا ہے۔ بنیاد پرست سیکولرسٹ واقعی کسی بھی مسلم ملک کے لئے اب تک کا بدترین سیکورٹی خطرہ ہیں۔ پاکستان ١٩٧١ ءمیں اس کا بدترین شکار تھا۔ اس کے بعد ملک نے اپنا مشرقی ونگ صرف اپنی سیاسی اشرافیہ، میڈیا پروفیشنلز، طلباء، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی اس طرح کی بنیاد پرست سیکولرائزیشن کی وجہ سے بھارت سے کھو دیا۔سیکولرسٹ عربوں نے اپنی قبائلی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے عرب دنیا کو 22 ریاستوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
طالبان کی فتح نے ثابت کر دیا کہ جنگ میں فیصلہ کن طاقت افرادی قوت اور فوجی اسلحے میں نہیں ہوتے، بلکہ سب سے طاقتور اللہ سبحانه و تعالى ہی تمام طاقت کا منبع ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات جنگ میں قسمت کا فیصلہ کرنے میں اہم اور کلیدی کردار اداء کرتاہے۔ اس طرح کی خدائی تعلقات کی وجہ سے افغان مسلمان ماضی میں برطانوی اور سوویت روس جیسی دیگر دو سپر پاورز کوبھی شکست سے دوچار کرچکے ہیں۔ جہاد اسلام کا دونوں دفاعی اور جارحانہ ہتھیار ہے۔چونکہ جہاد صرف اللہ سبحانہ و تعالى کی راہ میں لڑا جاتا ہے اس لیے کہ وہ اس دنیا کا مالک ہے۔اس لیے اللہ سبحانہ وتعالى اور اس کے فرشتے اس کا لازمی جزو بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد کو برسوں یا دہائیوں تک طول دیا جا سکتا ہے لیکن اسے کبھی شکست نہیں دی جا سکتی۔ افغانستان میں جہاد نے اسے دوبارہ ثابت کر دیا۔ صرف اسی طرح مسلمان دشمنوں کے خلاف کسی بھی جنگ میں ناقابلِ شکست ہو جاتے ہیں۔مسلمان اس جنگ میں ناکام ہو جاتے ہیں جب وہ اسے خالص جہاد میں تبدیل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
ایک نظریاتی سونامی
افغانستان اب نظریاتی اور سیاسی سونامی کا مرکز ہے۔ پیغمبر اسلام کے دور میں اسلام کا اصل سونامی عالمی طاقت کے مرکز سے شروع نہیں ہوا تھا بلکہ مدینہ کے ایک غیر اہم دیہی مرکز سے شروع ہوا تھا۔یہ واقعی جزیرہ نما عرب کے ایک صحرا ءکے درمیان شروع ہوا تھا۔ افغانستان یقیناًمدینہ سے زیادہ انسانی طاقت، زیادہ ہتھیار، زیادہ معاشی وسائل اور زیادہ جیوپولیٹیکل اہمیت کا حامل ہے۔یہ ایشیا کے وسط میں واقع ہے جو وسطی، جنوب اور مغربی ایشیا سے جڑا ہوا ہے۔ارضیاتی سونامی کی طرح سیاسی اور نظریاتی سونامی کبھی بھی اپنے مرکز کے اندر محدود نہیں رہتا۔ یہ بہت سے براعظموں کے دور دراز حصوں تک پہنچ جاتا ہے۔یہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہوا تھا۔اس نے ثابت کیا کہ قرآن پاک کی خدائی روشنی عالمی سطح پر نظریاتی سونامی پیدا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ تیزی سے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے بڑے علاقوں میں پھیل سکتا ہے۔اسے صرف اس کے حقیقی پیروکاروں کے ذریعہ حقیقی طور پر چمکنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے لیے مسلمانوں کو ایک اسلامی ریاست اور ریاستی بنیادی ڈھانچے کی مدد کی ضرورت تھی۔ تب ہی اسلام گہرے اندھیرے کو ختم کرنے اور صحیح راستہ دکھانے کی ناقابل یقین طاقت کا مظاہرہ کر سکتا تھا۔
ایک گہرا سیاہ بادل دوپہر کے سورج کو بھی چھپا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے بدعنوان، منحرف، منافق اور دھوکہ دہی کرنے والے بھی سچے اسلام کو چھپا سکتے ہیں۔ وہ سچے اسلام کی حیرت انگیز خوبصورتی کی نمائش کی اجازت نہیں دیتے۔آج اسلام کی خوبصورتی ان بدعنوان اور غیر سنجیدہ مسلمانوں کی وجہ سے غیر مسلموں سے پوشیدہ ہے۔ امید ہے کہ طالبان حقیقی اسلام کو چمکانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے جیسا کہ اسلام کے سنہری دنوں میں ہوا تھا۔درحقیقت ان کی کامیابی مکمل طور پر سچے اسلام کی نمائش میں ہے۔صرف اسی طرح وہ اسلام کی طرف لوگوں کے لئے دروازہ کھول سکتے ہیں جیسا کہ ابتدائی مسلمانوں نے کیا تھا۔ تب ہی طالبان کی فتح حقیقی نظریاتی سونامی میں بدل جائے گی۔
متوقع خطرہ
امریکہ کی قیادت میں مغرب افغانستان میں اپنی جنگ ہار گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کو ئی بھی انکار نہیں کرسکتاہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سامراجیوں کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنے جنگی مقصد، حکمت ِعملی اور میدانِ جنگ کو تبدیل کرتے ہیں۔ مزید برآں افغانستان میں جنگ نہ صرف طالبان کے خلاف جنگ تھی۔ بلکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اسی نہ ختم ہونے والی تہذیبی جنگ کا ایک ناگزیر حصہ تھي۔ فلسطین، عراق، شام، یمن، لیبیا اور صومالیہ کے خلاف جنگ اور 1991 میں الجزائر میں فوجی بغاوت، 2012 میں مصر پر فوجی قبضہ، 2006 میں فلسطین میں انتخابی نتائج کا خاتمہ اور اگست 2021 میں تیونس میں جمہوری حکومت کی حالیہ تحلیل اسی جنگ کا حصہ ہے۔
حملہ آور اور قابض دشمن کبھی خالی نہیں بیٹھتے ،جنگ میں شکست ان کے خاتمے کا سبب نہیں بنتی۔ اب وہ طالبان کی حکومت کو شکست دینے، پریشان کرنے اور محدود کرنے کے لئے ہر ذریعہ تعینات کریں گے اور اسے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ افغانستان کو ایک اچھوتی ریاست بنانے کے لئے طالبان کی بدنامی جاری رکھیں گے اور دوسروں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ کرنے پر آمادہ کریں گے۔ اس طرح وہ افغانستان پر معاشی اور سیاسی تنہائی مسلط کر دیں گے۔دہشت گردی کا ایک لغوی معنى ہے۔یہ سیاسی اور معاشی مقاصد کے لئے طاقت کا استعمال ہے۔اس طرح کی دہشت گردی واقعی مغربی سامراجی ممالک کی پالیسی ہے۔ جارج ڈبلیو بش، ٹونی بلیئر، بارک اوباما اور دیگر بہت سے مغربی رہنماؤں نے بہت سے ممالک پر حملہ کیا، سینکڑوں شہروں اور دیہاتوں پر بمباری کی اور لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا۔ ان رہنماؤں نے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ لیکن انہیں دہشت گرد نہیں کہا جاتا۔ اس طرح کے خوفناک جرائم کے لئے امریکہ اور برطانیہ اچھوتی ریاستیں نہیں بنیں۔ طالبان نے کسی دشمن ملک پر حملہ یا بمباری نہیں کی۔ انہوں نے صرف اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لئے غیر ملکی قابضین کے خلاف جنگ لڑی۔ لیکن ان پر دہشت گردي کا لیبل لگا ہوا ہے۔ حقائق کی اس طرح کی تحریف طالبان اور دیگر اسلام پسندوں کو بدنام کرتی رہے گی۔
اب امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان پر ایک جامع اور مشترک حکومت بنانے کے لیے اُن پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اسے بین الاقوامی تسلیم اور امداد کی پیشگی شرط قرار دیا گیا ہے۔ گویا ان کی اپنی حکومتیں بھی جامع اور مشترک ہیں۔یہاں تک کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی اسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا ان کی حکومت بھی ایک مشترک اور جامع حکومت ہے۔واقعی تمام جمہوری ممالک میں حکمران جماعت آدھے انتخابی ووٹروں کی نمائندگی بھی نہیں کرتی ہے۔ نتیجتاً آدھے سے زیادہ لوگ حکومت میں نمائندگی سے محروم رہتے ہیں۔بھارت میں نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 2018 ءکے انتخابات میں تقریبا 40 فیصد ووٹ ملے تھے۔ لہذا، 60 فیصد لوگ حکومت میں نمائندگی سے محروم ہیں۔پاکستان میں صورتحال تو زیادہ ابتر ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف کو 40 فیصد ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ میں، حکومت شاذ و نادر ہی 50 فیصد سے زیادہ لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔لیکن وہ طالبان پر سو فیصد شمولیت کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کو شکست دینے کے لئے جنگ میں شامل سخت دشمنوں کو حکومت میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ ان ممالک میں سے کسی میں ہوا ہے جو جنگ عظیم میں شکست کھا گئے تھے؟ شکست خوردہ جماعتوں کو حکومت میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ درحقیقت یہ طالبان کے اسلامائزیشن منصوبے کو اندر سے ناکام کرنے کی دشمن کی ایک سوچی سمجھی چال ہے۔یہ دھمکی پہلے ہی دی جا چکی ہے کہ اگر طالبان اس طرح کے نسخے سے انکار کرتے ہیں تو ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔امریکہ پہلے ہی افغانستان کے ٩ ارب امریکی ڈالر کے ریزرو ڈپازٹ کو روک كر کےمنجمد کر چکا ہے۔ مزید پابندیاں لائن میں انتظار کر رہی ہیں۔ دیگر مغربی ممالک بھی امریکہ کی پیروی کر رہے ہیں۔ عالمی بینک نے بھی اس کی امدادی رقم روک دی ہے۔ اس لئے اب طالبان کو اقتصادی جنگ کا سامنا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے جنگی جرائم
جنگ میں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل ہی جنگی جرائم نہیں ہیں، بلکہ جرم کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرنا اور جرائم کی پردہ پوشی بھی جنگی جرائم ہیں۔ کیونکہ اس طرح کے جرائم مجرموں کو قانونی چارہ جوئی سے بچاتے ہیں اور مزید جرائم کا ارتکاب کرنے پر ابھارتے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس طرح کے تمام جرائم میں ملوث ہیں۔ وہ نہ صرف طالبان پر پروپیگنڈا جنگ چھیڑ رکھا ہے بلکہ یہ اسلام پر بھی مسلسل منفی پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔اسلام کے احیاء کو تاریک دور کی واپسی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ خواتین کے لئے اسلامی حجاب کو پتھر کے دور کی پریکٹس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ شریعت کے نفاذ کے لئے کسی بھی سیاسی جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ برطانیہ کا سب سے مقبول روزنامہ اخبار دی سن اخبار کے صفحہ 3 پر یومیہ ایک نوعمر لڑکی کی مکمل ننگی تصویر شائع کرتا تھا۔ روزنامہ اخبارکے صفحات پر اس طرح کی عریانیت مغربی اقدار اور اخلاقیات کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ یہ واقعی پتھر کے دور کی عریانیت کا مظاہرہ ہے۔ پتھر کے زمانے کے ذہنی میک اپ کے ساتھ، سن [Sun] جیسے روزنامے اخبار افغان خاتون کے برقعہ یا حجاب کی تعریف کیسے کر سکتے ہیں؟
مغربی ذرائع ابلاغ کے لئے افغانستان میں شکست کو نگلنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔اب وہ قربانی کا بکرا تلاش کر رہے ہیں۔ یہ صرف ان کے اپنے جنگی جرائم کو چھپانے کے لئے ہے۔ نادر استثناء کے علاوہ تمام مغربی ذرائع ابلاغ نے افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کی حمایت کی تھی۔ جنگ کی مخالفت کرنے والوں کو مذاق کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ان کو غدار جیسے القاب سے نوازا گیا تھا. افغانستان پر حملے کی مخالفت کرنے والی کانگریس کی واحد رکن باربرا لی کو باڈی گارڈز کی جانب سے 24 گھنٹے تحفظ کی ضرورت پڑگئی تھی ۔2002 ءمیں جب شمالی اتحاد نے کابل میں دھاوا بول دیا اور مخالفین پر تشدد، نسل کشی، ان کی خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی تو لندن کے ٹیلی گراف نے لکھا: “بس خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ”۔ دی سن نے دو صفحات پر مشتمل ایک اداریہ شائع کیا جس کا عنوان تھا “غداروں کو شرم نہیں آتی: غلط، غلط، غلط,… وہ احمق جنہوں نے کہا کہ اتحادیوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ” گارڈین لندن کے سب سے لبرل روزنامے میں اس کے ایک کالم نگار کرسٹوفر ہٹچینز نے لکھا ہے، “، کیا خوب ہے “ اب شکست ناممکن ہے… ظاہر ہے کہ ان کے مطابق شکست ناممکن ہے۔ اور یہ طالبان جلد ہی تاریخ کے پارینہ اوراق بن جائیں گے۔ “لبرل روزنامہ انڈیپینڈنٹ میں ڈیوڈ ایرونوویچ نے لکھا ہے کہ “اگر آپ نے جاری جنگ کی مخالفت کی تو آپ “اپنے آپ کو ایک کائناتی جنون میں مبتلاکر رہے ہیں”۔ یہ جنگ بھڑکانے والے اسلامو فوبیا کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ وہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تھے۔
یہ جنگ کی آگ بھڑکانے والے جنگ پر کسی بھی طرح کی تنقید برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولین پوویل نے قطر کے امیر کو الجزیرہ کو سنسر کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جو ان چند ٹی وی چینلز میں سے ایک تھا جو جنگی مظالم کے بارے میں معروضی فیلڈ رپورٹیں نشر کر رہے تھا۔ناکام ہونے پر امریکہ نے الجزیرہ کے کابل دفتر پر بمباری کی۔ جب بی 52 بمبار لڑاکا جہازعراق میں بم دھماکے کے مشن کے لیے برطانیہ کے ایک اڈے سے اڑان بھر رہے تھے تو بی بی سی کے نامہ نگار کی باڈی لینگویج انکشاف کر رہی تھی۔ وہ ٹی وی سکرین پر بمبار کے انگوٹھوں کے اشاروں کو دیکھکر ٹیک آف پر خوشی مناتے ہوئے دیکھی گئی تھی۔ عراق حملے کے دوران جنگ کے مخالفین کو اس موضوع پر بی بی سی کا صرف دو فیصد ایئر ٹائم دیا گیا۔ اس طرح عراق کے خلاف جنگ کے جواز کے طور پر استعمال ہونے والے جھوٹ کو چیلنج کرنے کی کوششوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔حملے، نسل کشی اور شہروں کی تباہی کا جواز تیار کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی حب الوطنی کے جوش و خروش کی ایک اونچی لہر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جنگی جرائم کا بنیادی ڈھانچہ
حملے و هجوم کی جنگ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہے۔ اسے ایک مشترکہ ثقافتی، فکری اور سیاسی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے نہ صرف جنگ کے میدان میں بلکہ فکری اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ذرائع ابلاغ کے لوگ اور دانشور واقعی جنگی جرائم کے نظریاتی سپاہی ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے سامراجیت، استعماریت، نسل پرستی، بالادستی اور فاشزم جیسے برے نظریات نظریاتی وبائی امراض کے طور پر پھیل جاتے ہیں۔ مغرب اس کے لئے سب سے زرخیز زمین ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبضے کی جنگ، نسلی صفایا اور جنگ عظیم جیسی انتہائی نسل کشی کی جنگوں کو مغرب میں اتنی بڑی ترقی مل سکی ہے۔ سامراجی ممالک میں تمام اسٹیک ہولڈرز دوسرے لوگوں کی زمینوں پر نوآبادیاتی لوٹ مار کے مرتکب رہے ہیں۔ اس لئے سامراجی ملک کے زیادہ تر لوگ غیر ملکی سرزمین پر ہر حملے، ہر قبضے اور ہر لوٹ مار کی حمایت کرنا حب الوطنی کا فرض سمجھتے ہیں۔چنانچہ افغانستان اور عراق پر حملہ مغرب میں اتنا مقبول ہو سکتا ہے کہ غیر قانونی جنگوں نے امریکہ میں جارج ڈبلیو بش اور برطانیہ میں ٹونی بلیئر جیسے قاتلوں اور جنگی مجرموں کو آسان انتخابی فتح دلا دی تھی۔
ہر جنگ جنگی جرائم پیدا کرتی ہے۔ ایک غیر قانونی جنگ سنگین جنگی جرائم کو جنم دیتی ہے۔چونکہ امریکہ نے گزشتہ ایک سو سالوں میں سب سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں، اسی عرصے میں امریکہ سب سے زیادہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ۔ یہاں تک کہ انہوں نے جوہری بم بھی گرائے۔ انہوں نے صنعتی پیمانے پر تشدد کرنے کے لئے گوانتانامو جھیل کو جیل کمپلیکس میں تبدیل کردیا۔افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پورا ملک ان لوگوں کے لیے موت کا وادی بن گیا جنہوں نے اس حملے کو قبول نہیں کیا تھا- خاص طور پر طالبان۔ ایک آئرش فلم ساز جیمی ڈورن اور افغان صحافی نجیب اللہ قریشی نے جنرل عبدالرشید دوستم کے دور میں افغان شمالی اتحاد کے جنبش-1 ملی دھڑے کے مبینہ جنگی جرائم پر ایک دستاویزی فلم “موت کاقافلہ” بنائی ہے۔یہ خوفناک جرائم طالبان جنگجوؤں کے خلاف کیے گئے تھے۔جنرل دوستم امریکی حملے کے شراکت دار تھے۔نومبر 2001 ءمیں قندوز پر قبضے کے بعد دوستم کے فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے طالبان جنگجوؤں کو آلو کی تھیلیوں کی طرح سیل شدہ کنٹینروں میں شیبنگھن جیل پہنچایا گیا۔قیدیوں کے ہاتھ ایک دوسرے ساتھ بندھ ے ہوئے تھے۔انسانی حقوق کے گروپوں کے تخمینے کے مطابق ان میں سے سینکڑوں یا ہزاروں طویل راہداری کے دوران يا بعد میں ہلاک ہوئے گئے تھے۔ وہ دم گھٹنے، بھیڑ بھاڑ اور شدید سردی کی وجہ سے مر گئے تھے ۔ یہ خوفناک جنگی جرائم تھے۔
امریکی انتظامیہ اب خواتین کے حقوق کے بارے میں طالبان کی پالیسی پر بہت شور مچا رہی ہے ،لیکن 2002 ءکے اس طرح کے نسل کشی کے قتل عام پر چپی سادھے ہوئے ہے۔ان کے دور حکومت میں طالبان کی بقاء کے حقوق سے بھی انکار کیا جاتا رہا۔یہ بات اب کوئی راز نہیں ہے کہ اس طرح کے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں میں امریکی فوجی اہلکار بذات خودموجود تھے اور ان کی ملی بھگت تھی۔ دشتِ لطیف ایسا ہی ایک اور ہولناک قتلِ عام ہے۔ اگست 2002 ءمیں اقوام متحدہ سے لیک ہونے والے میمو کی بنیاد پر نیوز ویک کی ایک رپورٹ میں دشتِ لطیف میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی۔ لیکن حیرت کی بات نہیں کہ اس طرح کے قتل عام کی دستاویزی فلمیں امریکی ذرائع ابلاغ میں دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔صدر بل کلنٹن کے دور میں امریکہ کی جانب سے عائد پابندی کے دوران نصف ملین سے زائد عراقی بچے ہلاک ہوئے۔ یہاں تک کہ امریکی فوجیوں کی لیک تصاویر بھی اس طرح کے جرائم کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔قیدیوں کی لاشوں سے مذاق اڑانا اور بے گناہوں کو قتل کرنا عراق اور افغانستان دونوں میں امریکی فوجیوں کا عام کھیل دلچسپی کا محور بن گیا تھا۔ابو غُریب جیل میں انہوں نے قیدیوں کو برہنہ ہونے پر مجبور کیا اور انکی اپنی ہی ننگی لاشوں سے اہرام بنوائے۔ جان پیلگر نے اپنی دستاویزی فلم “دی وار یو ناٹ شو” میں دکھایا ہے کہ کس طرح امریکیوں نے غیر مسلح عراقیوں پر سخت فائرنگ کی۔ یہ بڑے بڑے سنگین جنگی جرائم کی چھوٹی مثالیں ہیں جن کا ارتکاب مغرب اور امریکہ نے نہتے شہریوں کے ساتھ کئے ہیں۔
خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق پر مذاق
مغربی ذرائع ابلاغ طالبان کو خواتین مخالف، بچوں کے مخالف اور انسانی حقوق کے خلاف شیطان بتا رہے ہیں۔ شکست کے بعد اب وہ اسی پرانی جنگی چیخ و پکار کا اعادہ کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ مغربی اقدار، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور بچوں کے حقوق کا دفاع کریں۔ماضی میں بھی انہوں نے اپنی یلغار، ناجائز قبضہ، نسل کشی اور دوسرے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کا جواز پیش کیا تھا اب وہ صدر بائیڈن کے ذلت آمیز انخلا ءسے بہت ناخوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر امریکہ مزید 5، 10 یا 20 سال تک افغانستان میں اپنا قبضہ جاری رکھتا تو افغانستان میں مغربی اقدار کو بہتر طریقے سے نصب کیا جاسکتاتھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مغربی حکمران، دانشور اور ذرائع ابلاغ کی اشرافیہ سامراجی غیرت کے اندر اسیر ہیں۔ کچھ ایسی ذلیل حرکتیں ایسے حملے، ناجائزقبضہ اور استعمار کو نام نہاد اخلاقی سامراجیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔کیا یہ مضحکہ خیز امر نہیں ہے؟ مسلمانوں کی آزادی، انسانی اقدار اور خواتین کے حقوق کے بارے میں اپنی الگ پہچان اور سمجھ ہے جو مغربی اقدار سے قطعا مطابقت نہیں رکھتے۔ مغربی رہنماؤں اور دانشوروں کے لئے حجاب کا خاتمہ، فری اختلاط، آزادانہ ڈیٹنگ اور ایک ساتھ غیر ازدواجی زندگی گزارنا خواتین کے حقوق کا ناگزیر عنصر ہیں۔ جبکہ ایک کام کرنے والی گھریلو مسلمان عورت کبھی بھی عوامی سطح پر حجاب نہیں اتار سکتی۔اور نہ ہی وہ فری اختلاط یا غیر ازدواجی زندگی گزارنے میں ملوث ہو سکتی ہے۔ یہ سب ساری چیزیں طاقتور اللہ سبحانہ وتعالی کے خلاف بغاوتیں ہیں جو کسی کو بھی جہنم کی آگ میں لے جاسکتی ہے۔ چنانچہ یہ اسلامی عقیدے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اسلام کی ہدایات و تعلیمات کے بالكل منافی ہیں۔
مغربی رہنماء مسلمانوں خصوصاً طالبان کو خواتین اور بچوں کے حقوق پر لیکچر دیتے نہیں تھکتے ہیں۔ امریکی خاتون اول لورا بش – جو جارج ڈبلیو بش کی اہلیہ ہیں، نے 2001 ءمیں اپنے ریڈیو ٹاک میں کہا تھا: “دنیا بھر کے مہذب لوگ خوفزدہ ہو کر بول رہے ہیں کہ افغانستان میں خواتین اور بچوں پر طالبان بلا استثناء جو تقالید اور اسلامی اقدار تھوپ رہے ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ کیا یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سراسر بے بنیاد پروپیگنڈا اور جھوٹ نہیں ہے۔ دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں غیر مسلم آبادی کا بڑا حصہ بستاہے۔ لبنان جیسے اسلام کے قلب میں غیر مسلم 30 فیصد سے زیادہ ہیں۔ مصر میں ان کی شرح تقریبا 15 پندرہ فیصد ہے۔ سپین میں مسلمانوں نے تقریباً 7سو سال حکومت کی۔ بھارت میں انہوں نے 6سو سال سے زیادہ حکومت کی۔ لیکن مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی غیر مسلموں کو اسلامی عقیدے، لباس یا اقداراپنانے پر مجبور نہیں کیا۔ افغانستان میں بیٹھے طالبان کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پوری دنیا میں اسلامی اقدار کا نفاذ کر سکیں جیسا کہ لورا بش احمقانہ اوربے معنی طور پر توقع کر رہی ہیں؟ کیا یہ ایک عالمی رہنما کی بیوی کی طرف سے کھلم کھلا جھوٹا پروپیگنڈا نہیں ہے؟
کیا مغربی رہنماؤں کے پاس افغان طالبان یا کسی مسلمان خواتین اور بچوں کے حق پر لیکچر دینے کا کوئی اخلاقی اختیار ہے؟ درحقیقت، طالبان خواتین کو ان شکاری جنگجوؤں کی طرف سے عصمت دری اور مظالم سے بچانے کے لیے متحرک ہوئے ہیں جنہوں نے سوویت نواز صدر نجیب اللہ کے زوال کے بعد افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔انہوں نے اپنی جنگ کا آغاز قندھار کے بدنام ترین جنسی شکاری جنگجوؤں میں سے ایک کو پھانسی دے کر کیا ہے۔ طالبان کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ واقعی مجرموں کے خلاف اس طرح کی بہادری کی کارروائیوں کا مرہون منت ہے۔
جو لوگ دوسروں کے لئے اچھا کرنا چاہتے ہیں وہ مثالیں قائم کرتے ہیں۔محض لیکچر سےکام نہیں بنتا۔ طالبان کو اچھے کاموں اور خود کو قربان کرنے کی مثالیں قائم کرنے کی مقبولیت ملی ہے۔ لیکن مغربی طاقتوں نے جو مثالیں قائم کی ہیں وہ انتہائی بدصورت اور ہولناک ہیں۔1945 ءمیں جہاں اتحادی طاقتوں نے جرمنی پر قبضہ کیا وہیں جرمن عورتوں سے عصمت دری ، بدلہ لینے کا ہتھیار بن گئی تھی۔جرمن مورخ میریم گیرہارڈ اپنی کتاب “جب فوجی آئے” میں لکھتی ہیں: “دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے کے بعد اتحادی (امریکی، روسی، برطانوی اور فرانسیسی نژاد) فوجیوں نے 20 لاکھ جرمن خواتین کی عصمت دری کی تھی۔لیکن جب طالبان نے 50 لاکھ کے شہر کابل پر قبضہ کیا تو کوئی ہلاک نہیں ہوا، کسی کی عصمت دری نہیں کی گئی اور نہ ہی ایک گولی چلائی گئی۔ چنانچہ انسانیت اور اخلاقیات پر لیکچر دینے والی مغربی حکمران اشرافیہ کو طالبان سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔
24 ؍اگست 2021 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے طالبان کے ہاتھوں افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنی تشویش کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کی یہی تنظیم افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے 20 سال تک سویا رہا۔ انہوں نے فضائی بم دھماکوں، مردوں، عورتوں اور بچوں کے بے دریغ قتل اور شہروں اور دیہاتوں کی تباہی کی مذمت میں ایک بھی جملہ نہیں کہا۔ گویا امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے قبضے کے 20 سال کے دوران افغانستان میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ اب امریکہ کی شکست کے بعد انہوں نے گہری نیند سے اٹھ کر افغانستان میں ہر جگہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا انکشاف کیا ہے۔اب وہ اپنی پریشانیوں کا اظہار کرتے ہیں اور ان خلاف ورزیوں پر لیکچر دیتے ہیں۔ اگر مغربی رہنماؤں کو جمہوریت، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق میں کوئی دلچسپی ہے تو انہیں اپنی توجہ ان بادشاہتوں اور دیگر ممالک پر مرکوز کرنی چاہیے تھی جن پر شریر جابروں و ظالموں کی حکومت ہے اور جن کی اندھی پشت پناہی کرکے وہاں کے عوام کی حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ انہیں لیکچر دینے کے بجائے فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے بھی بچانا چاہئے تھا۔
امن میں سرمایہ کاری اور جنگ میں سرمایہ کاری
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جنگ میں ایک کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔انہوں نے عراق اور شام میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس کے باوجود جنگ میں ان کی سرمایہ کاری جاری ہے۔ لیکن امن کے لئے ان کی سرمایہ کاری بہت کم اور نا کے درجے میں ہے۔ درحقیقت وہ اپنے عالمی غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے جنگوں کے بعد جنگیں چھیڑتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں امریکہ کے ٨٠٠ سے زیادہ اڈے تعمیر کرنا ان کی جنگی تیاریوں کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ امریکی حکمران اشرافیہ بھی اپنے جنگی مقصد کے جواز فراہم کرنے کے لئے مناسب بیانیے تیار کرتی ہے۔ جبکہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا لیکن بتایا گیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے پر افغانستان کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ گویا اگر وہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیتے ہیں تو ان کے پاس جنگ کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ دس سال قبل انہوں نے بن لادن کو قتل کیا تھا۔ لیکن ان کی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے افغان شہروں اور دیہاتوں پر بمباری کی۔ انہوں نے لاکھوں بے گناہ افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔ درحقیقت ان کا ایک اور ایجنڈا تھا۔ اور اس کو آگے بڑھانے میں مزید ١٠ سال لگے۔ انہوں نے طویل جنگ کے جواز کے لئے ایک اور دلکش نعرہ لگانا شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ریاست کی تعمیر ہے۔ بعض اوقات وہ دعویٰ کرتے تھے کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور بچوں کو تعلیم دینا ان کا ایجنڈا ہے۔ یہ سارا جھوٹ کا پلندہ تھا۔
بھیڑیا کو شکار پکڑنے کے بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسے ایسا کرنے کے لئے صرف اپنی خواہش کی ضرورت ہوتی ہے۔تو ایک بھیڑیا بھی منافقت میں ملوث نہیں ہوتا ہے۔ لیکن سامراجی اور نوآبادیاتی اپنے شکار یعنی کمزور ممالک کو پکڑنے کے لئے بہانے ایجاد کرتے ہیں۔ تمام انسانی حقوق پر بیان بازی صرف اپنے پوشیدہ مقاصد کو چھپانے کے لئے ہوتاہے۔افغانستان، عراق اور شام کے خلاف جنگ کا امریکی مقصد اسلام کے قلب کو تباہ کرنا اور اس پر قبضہ کرنا اور کسی بھی ممکنہ اسلامی احیاء کو ناکام بنانا تھا۔یہ اسلام کے خلاف تہذیبی جنگ کا لازمی حصہ تھا۔ یہ اسرائیل کے تحفظ اور تیل پر کنٹرول کے بارے میں تھا۔یہ وسطی ایشیا سے تیل نکالنے کے لئے افغانستان کے ذریعے ایک پائپ لائن کے بارے میں تھا۔ یہ چین اور روس پر بھی بہت قریب سے نظر رکھنا تھا۔ یہ پاکستان کو منتشر کرنا اور اسکے جوہری سہولیات کو تباہ کرنا تھا۔ پاکستان کے خلاف ایسا کرنے پر انہوں نے بھارت کو شراکت دار کے طور پر لیا۔ بھارت نے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان میں تین ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔
زخمی بھیڑیا امن کیلئے اصل خطرہ
طالبان کی فتح کے بعد مغرب اب ایک زخمی بھیڑیا ہے۔ وہ کبھی خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ انتقام لینے کی کوشش کریں گے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئی حکمتِ عملی اور نئی جنگ وضع کریں گے۔اب تہذیبی جنگ کو ایک نئی جہت اور نئی شدت ملے گی۔ لیکن اب مسلمانوں کو بھی ایک نئی بنیاد اور نئی طاقت مل گئی ہے۔ لہذا جنگ زیادہ شدید اور خونی ہوگی۔ کئی صدیوں کے بعد، پیغمبر اسلام جس میں اسلامی ریاست، شریعت، حدود،جہاد اور اسلامی علما ءکی شوریٰ کی حکمرانی شامل ہے، کوکم از کم افغانستان جیسے ملک میں فتح ملی ہے۔مغربی طاقتیں ایسی ریاست کے ظہور کو حقیقی خطرہ سمجھتی ہیں۔یہ مغرب کے لئے بالکل ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہے۔
کمیونزم کے خاتمہ کے بعد مغربی سرمایہ داروں نے ایک قطبی دنیا کے بارے میں سوچا جس کا جوہر مغربی اقدار کے ساتھ تھا۔لیکن اب وہ اسلام کو ایک حقیقی رکاوٹ کے طور پر سامنےپاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی اقدار اور طرِز زندگی ان کی اپنی اقدار اور طرز زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ نتیجتاً اسلامو فوبیا اب مغرب میں سب سے زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی قیادت میں اتحاد کی دشمنی نہ صرف طالبان کے خلاف ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں سے بھی ہے۔ 1990 میں سوویت یونین کی آبادی صرف 280 ملین تھی۔ لیکن مسلمان دنیا میں ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہیں۔ 1.5 بلین مسلمانوں کے ساتھ مغرب کا دشمنی والا رویہ درحقیقت عالمی امن اور استحکام کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ اگر پورپ اور امریکہ والے دنیا کے ہر پانچویں آدمی [یعنی مسلمان] کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں تو وہ امن کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ عالمی امن اور استحکام کی بات کرتے ہیں، وہ اس اہم مسئلے پر کوئی سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتے۔ بلکہ اس میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس میں مغرب کی بڑی فکری اور اخلاقی ناکامی ہے۔
مغرب پر بوجھ
مسلم ممالک اور شہروں پر قبضے اور بمباری سے کبھی امن قائم نہیں ہو گا۔ مغرب پہلے ہی اس راستے کو آزما چکا ہیں۔ اس سے مسلم دنیا میں مزید زخمی شیر پیدا ہوں گے۔ طالبان کے محافظ بھی ان کی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔26/08/2021 کو کابل میں ہونے والے بم دھماکے اور پسپائی اختیار کرنے والے چار امریکی فوجیوں کی ہلاکت نے ثابت کر دیا ہے کہ امن قائم کے لیے مغرب کو اسلام کے خلاف اپنی مخالفت کو ختم کرنا گا۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا کا تعلق صرف واحد عقیدے، واحد نظریے، واحد اقدار، واحد عالمی حکم، یا کسی ایک نسل سے نہیں ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ پہلے ایسی کبھی نہیں تھی۔ یہ سب متنوع و رنگ برنگ کے نسلوں پر مشتمل ہے۔ یہ کرہ ارض تمام انسانوں کا ہے۔ دوسروں کی طرح مسلمانوں کو بھی قرآنی نسخے کے مطابق اس کرہ ارض پر اپنے عقیدے پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر مکمل طورپر عمل کرنے کے لیے گنجائش دی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کے حقوق سے انکار کرنا اور انہیں دہشت گرد قرار دینا انتہائی تکبرانہ رویہ ہے۔ چین ایغور مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی تکبرانہ رویہ کو انجام دے رہا ہے۔ مغرب بھی اسلام پسندوں کے خلاف ایسا ہی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق میں اس طرح کی مداخلت حالات کو مزید بگاڑ دے گی۔ افغانستان میں تورا بورا کی پہاڑیوں میں القاعدہ کے ایک اڈے پر بمباری یا عراق اور شام میں مجاہدین کے مضبوط گڑھوں اور ٹھکانوں کو ختم کرنے کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں ان جیسے دسیوں مضبوط گڑھ بن چکے ہیں۔
مغرب کو بھی طالبان کے خلاف کوئی اقتصادی جنگ شروع نہیں کرنی چاہیے۔ اگر مغربی طاقتیں طالبان کے خلاف اپنی فوجی مخالفت جاری رکھتی ہیں اور افغانستان پر اقتصادی پابندیاں لگا دیتی ہیں تو اس سے کوئی امن قائم نہیں ہوگا۔ یہ صرف جنگ کو طول دے گا اور مزید مہاجرین پیدا کرے گا۔ اس سے عام افغان عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ یہ عالمی برادری کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اگر مغرب کو قیام امن میں کوئی دلچسپی ہے توانہیں افغانستان میں امن کے لیے سرمایہ کاری کرنا ہوگا۔ صرف اسی طرح وہ کرہ ارض کے طول و عرض میں پرامن بقائے باہمی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
جنگ مزید جنگیں پیدا کرتی ہے۔ ایک خراب امن معاہدہ خوفناک جنگ سے بہت بہتر ہے۔ امن کے لیے سرمایہ دار مغرب، سوویت سوشلسٹ روس کی کمیونسٹ ریاست کے خلاف براہ ِراست جنگ کیوجہ سے 1917 سے 1991 تک 74 سال تک دور رہ سکتا ہے۔ جنگ نہ کرنے کی اس طرح کی پالیسی نے یورپی، امریکی اور روسی شہروں کو تباہی سے بچالیا۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو موت سے بچایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربي دنیا ،اسلامی افغانستان اور دیگر اسلام پسندوں کے ساتھ ایسی ہی ’’عدمِ جارحیت‘‘ کی پالیسی کیوں نہیں اختیار کر سکتا ہے؟ دنیا ریاستوں، برادریوں اور مخالف عالمی خیالات رکھنے والے لوگوں کے پرامن بقائے باہمی کی جگہ کیوں نہیں بن سکتی؟
لیکن “No War” کی ایسی پالیسی کو امریکہ اور اس کے اتحادی واضح وجوہات کی بنا پر قبول نہیں کر سکتے۔ چونکہ سوویت روس کے پاس جوہری بموں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، اس لیے مغرب کے لیے جنگ ایک آپشن یا اختیار نہیں تھی۔ چونکہ عراق اور افغانستان کے پاس کافی تعداد میں فوجی اور ہتھیاروں کی قوت نہیں تھی ، اس لیے امریکہ نے آسانی سے جنگ کا راستہ اختیار کرلیا اور اسے تباہ و برباد کردیا ۔ چنانچہ عراق اور افغانستان کے لوگوں کو امریکہ کی قیادت میں اتحاد کے ہاتھوں یلغار، ناجائزقبضے، ہلاکتیں، تباہی اور اذیتیں جھیلنی پڑیں۔ لیکن شمالی کوریا کو اپنے جوہری بموں اور میزائلوں کی وجہ سے ایسی تباہ کن قسمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لہٰذا، وقار، سلامتی اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے دفاع اور جوہری طاقت کا حصول لازمی و ناگزیر ہو جاتی رہی ہےاگر آپ کے پاس مضبوط دفاعی طاقت نہیں ہیں تو دشمن کے حملے کا خطرہ سدا لگا ہی رہتا ہے۔
نئی آزمائشیں، نئی سازشیں اور جہاد کا تسلسل
ہر فتح کے بعد انحراف، تقسیم اور کرپشن شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی تحریک یا انسان اس سے محفوظ نہیں رہتاہے۔ مزید برآں، مومنین ہمیشہ آزمائشوں اور امتحانوں میں گھرے رہتے ہیں – اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ منصوبے اور وعدے کے مطابق (سورہ ملک، آیت 2)۔ مومن کی زندگی کا ایک دن بھی اس سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات بڑی فتح کے بعد مشکل ترین آزمائش آتی ہے۔ صحیح راہ پر چلنے والے صحابہ کی خلافت کو بھی ایسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے رومی اور فارسی سلطنتوں جیسی عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے بعد سب سے زیادہ تباہ کن اندرونی تقسیم، جھگڑوں، بغاوتوں اور تباہی کا سامنا کیا۔ خلافت ، اسلام کے سب سے اہم سیاسی ادارے کو یزید نامی شیطان نے ہتھیا لیا تھا۔ طالبان کو اس بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔
جہاد ایمان کو جلاء بخشتاہے اور اسے صیقل کرتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ذکر کو بڑھاتا ہے، اور تعلقِ الٰہی کو بڑھاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کی زندگی میں جہاد کا خاتمہ کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر دنیا میں سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں تو جہاد کو اپنا شیوہ بنا ہوگا۔پانچ وقت کی نماز کی طرح یہ مسلمانوں کی زندگی میں عمر بھر کی اہم ترین عبادت ہے۔ کبھی دشمنوں کے خلاف ہوتا ہے اور کبھی نفس کے خلاف۔ جب جہاد ختم ہوجا تا ہے تو دشمنوں کی سازشیں امت میں سرایت کر جاتی ہیں۔ جدید دور میں الجزائر کے جہاد کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ فرانس کے خلاف زبردست فتح حاصل کرنے کے بعد اسے سیکولر اور سوشلسٹوں نے ہائی جیک کر لیا۔ اور سابق جہاد کرنے والے مومنین مساجد اور مدارس میں واپس لوٹ گئے اور جہاد جیسے پاک عبادت سے سبکدوش و خاموش ہوگئے۔ چنانچہ دشمن غالب آ گئے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سوویت روس اور اس کے ساتھیوں کے خلاف افغان مجاہدین کی عظیم فتح کے بعد بھی ایسا ہی ہوا۔ افغان جہاد کو جرائم پیشہ جنگجوؤں نے ہائی جیک کر لیا۔ طالبان کویہ شاندار کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے 1996 ءمیں جنگجوؤں کو شکست دی اور حکومت میں اسلام کو واپس لا سکے۔
طالبان اسی صورت میں غالب آسکتے ہیں جب وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں اور جہاد جاری رکھیں۔ روح کی پاکیزگی ، قرآنی سیرت اور اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کے راستے [جسے صراط مستقیم کہتے ہیں] میں سیاسی مفاد اور دنیاوی مقاصد آڑے نہ آجائے۔ حقیقی اسلام کی پابندی میں کسی بھی قسم کی لچک ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی۔ یہ اللہ سبحان وتعالیٰ کی برکت کو بھی روک دے گا جو کہ اسلام میں فتح اور رزق کا واحد ضامن ہے۔ اگر کوئی صحیح راستہ اختیار کرنے میں کوتاہی کرتا ہے تو اللہ سبحانه وتعالیٰ اس کام کے لیے دوسروں کو چن لیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان لوگوں کو کبھی پسند نہیں کرتا جو راہ ِراست سے ہٹ جائیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس لیے انہیں مطمئن کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اگر طالبان ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں تو دوسرے ان کی جگہ لینے کے منتظر ہیں۔ طالبان کو یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں بہت سے شیر موجود ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں بری طرح زخمی ہوچکے ہیں۔ اسلام پر کوئی سمجھوتہ برداشت نہیں کریں گے۔ جامعیت و شمولیت کے نام پر اسلام کے دشمنوں کو حکومت کے اسلامی نظام میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ سب کچھ برباد کر دیں گے جو ایک طویل جہاد میں بڑی قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ پوری امت مسلمہ طالبان کی طرف بڑی امید اور توقعات سے دیکھ رہی ہے۔ ان کی ناکامی پر صرف دشمنان اسلام خوش ہوں گے۔ پوری دنیا کے سچے مسلمان اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے دعا کرتے ہیں کہ جہاد کی یہ عظیم فصل برباد نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:::۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔