پرسنل لا کے تئیں مسلم خواتین کی حمیت دینی  کو سلام


 عبیدالکبیر

دنیا میں وفاداری کے جو مختلف معیارات ہر دور کے اندر موجود رہے ہیں ان میں کامل اطاعت کو بجا طور پر مثالی سمجھا گیا ہے، تاہم کسی نظام سے وفاداری کا ایک پہلو اس کی حمایت اور نصرت بھی ہے ۔ ہم کسی تعلق کو بقدر امکان جانچنے کے لئے برے وقتوں میں اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی شناخت کرتے ہیں ۔ تعلق کا یہ پیمانہ اگر چہ انسانی اخلاقیات کی کوئی مثالی منزل نہیں ہے مگر اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس منزل کے بعد پائے رفتن کےسوا جائے ماندن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی فرد یا جماعت میں اس معیار پر قائم رہنے کی بھی سکت موجود نہ ہو تو اس نظام سے اس کی وابستگی بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو اپنے احوال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس بات پر  اللہ کے حضور شکر بجالانا چاہئے کہ ان میں حمایت اسلام کا جذبہ بہرحال موجود ہے ۔مزید برآں ہمارے لئے مقام شکر یہ بھی ہے کہ اس باب میں  مسلم خواتین کا مساویانہ حصہ شامل ہے جیسا کہ پچھلے دنوں تحفظ شریعت کے سلسلہ میں دیکھنے کو ملا۔

اس میں شک نہیں انسانی معاشرہ کی فلاح و بہبود اور بقا و ارتقا میں مردوں کے شانہ بہ شانہ عورتوں کی عظیم خدمات ہمیشہ سے شامل رہی ہیں ۔کسی سماج کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک اس میں موجود انسانیت کے دونوں دھڑوں کی مشترکہ اور متوازن حصہ داری کا عنصر شامل نہ ہو۔ گزشتہ دنوں ملک میں یکساں سول کوڈ کے نام پر مسلمانوں کے داخلی مسائل میں مداخلت کی جو کوشش کی گئی تھی اس کے خلاف  ہماری ماؤں ، بہنوں کے عزم و خلوص نے ملت کی تاریخ میں ایک خوشگوار باب کا اضافہ کیا ہے ۔ملک کے گوشے گوشے میں بورڈ کی تحریک پر مسلم خواتین نے اسلام کے خاندانی نظام کے تحفظ کے لئے جس دانش مندی کا ثبوت دیا ہے اس پر ان کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ سول کوڈ کے تحت طلاق جیسے حساس مسئلے کو چھیڑ نے کا مقصد خواہ کچھ بھی رہا ہو مگر اس کا اہم فائدہ یہ بھی ہوا کہ ملک میں موجود مختلف سماجوں کے خاندانی نظام اور ان کی صورت حال کا تقابلی مطالعہ آسان ہو گیا۔ مسلم خواتین کی ہمدردی اور اصلاحات کے جذبے سے کئے جانے والے تجزیے سے یہ حقیقت بالکل بے غبار ہو گئی کہ آج بھی خواتین کے لئے سب سے مستحکم، محفوظ اور پر امن ماحول نہ یہ کہ صرف اسلام ہی فراہم کر سکتا ہے بلکہ اس نے فی الواقع ایسا کیا بھی ہے ۔مسلم پرسنل لابورڈ کے سبھی عمائدین اور کارکنان سمیت بورڈ کے شعبہ نسواں میں شامل خواتین خصوصاً محترمہ ڈاکٹر اسماء زہرہ کی مساعی جمیلہ اس ضمن میں قابل قدر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سبھی خواتین جو ملک بھر میں اپنی مذہبی شناخت کا پورا لحاظ کرتے ہوئے جلوسوں کی شکل میں شرعی نظام کے دفاع میں سامنے آئیں اور دستخطی مہم کو کامیاب کیا ان کے اس جذبہ اسلام پسندی کو سلام کیا جانا چاہئے۔ مرکزی حکومت کی پل پل بدلتی پالیسیوں کی وجہ سے سول کوڈ کا معاملہ اگرچہ میڈیا کی شہ سرخیوں سے غائب ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ محض ذرائع ابلاغ پر قانع یا منحصر نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ ان کی نظر زمینی حقائق پر بھی رہتی ہے ان کے لئے یہ معاملہ کوئی معمولی اور سرسری چیز نہیں ہے ۔ مسلم عورتوں کی دینی حمیت کا تذکرہ خواہ میڈیا میں ہو یا نہ ہو تاہم عائلی قوانین کے عنوان سے مذہب سے ان کی والہانہ وابستگی بجائے خود بہت عظیم اور مہتم بالشان واقعہ ہے۔ مسلم خواتین کی حالیہ سرگرمیوں سے جو نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ درحقیقت ان ہی کی مرہون ہیں مرد حضرات کی دینداری سے قطعاً وہ نتائج نہیں نکلتے ۔ ہمیں مسئلہ کی تہوں میں جھانک کر یہ محسوس کرنا چاہئے کہ سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کے لئے طلاق جیسے دردناک مسئلے کی آڑ میں طرح طرح سے ورغلانے کی پیہم کوششوں کے باوجود کسی قسم کی تحریص یا جبر و اکراہ کے بغیر مسلم خواتین کا برضاورغبت اسلام کی حمایت میں آ کھڑا ہونا کتنی اہمیت کا حامل اور کس قدر کا مستحق ہے۔ورنہ محض اعداد و شمار کو ایک فیصلہ کن عنصر کی حیثیت سے تسلیم کرنے والی دنیا میں کسی بہتر سے بہتر چیز کا وزن ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ مسلم خواتین کے سمع وطاعت کا راست نتیجہ ہے جس نے ایک مثبت پیغام کوبڑے وسیع پیمانے پر عام کیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اب تک بورڈ کے دفتر کو جتنے دستخط شدہ فارم موصول ہوئے ہیں ان میں شامل دستخطوں کی تعداد دو کڑور سے متجاوز ہےاور ان میں بھی عورتیں پیش پیش ہیں۔ میڈیا میں اس مہم کو جتنا کوریج ملا اس سے بھی اس تعداد کی توقع بجا طور پر کی جاسکتی ہے۔ مرکزی حکومت کے ایک عظیم نمائندہ نے جس زورشور کے ساتھ ‘مسلم مہیلا’کا درد ظاہر کیا تھا اس کی حقیقت پر غور کرنے کی اب چنداں ضرورت باقی نہیں رہی۔ تاہم ہماری ان بہنوں کے درد کا درماں ضرور سوچا جانا چاہئے جن کو اپنے اپنے سماجوں  میں کوئی متوازن خاندانی نظام نہیں مل سکا ہے۔ مسلم خواتین کا درد رکھنے والے ہم پر یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان مظلوم عورتوں کے بارے میں کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کریں جن کی خستہ حالی کی ایک جھلک  تازہ اعداد وشمار کی روشنی میں منظر عام پر آئی ہے۔ عائلی مسائل  کی صورت حال  سے متعلق جو بھی حقائق سامنے آئے ہیں ان پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے ۔یہ درست ہے کہ مسلم خواتین کی حالت ان معاملات میں نسبتاً بہتر ہے مگر اسے مزید بہتر بنانے کی سمت میں اقدامات کی ضرورت ہنوز باقی ہے۔ اس ضمن میں جہیز سے پرہیز کے ساتھ ساتھ شادی کو سادی اور بچیوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ باتیں تو ضمناً شامل ہوگئی ورنہ یہ مضمون دراصل مسلم خواتین کی نذر ہے جنھوں نے مکمل ہوشمندی کے ساتھ نبی ؐرحمت سے تعلق کا بھرم قائم رکھا ۔ ہماری عصمت مآب ماؤں اور بہنوں کے اس اقدام سے یہ بات بہت صاف ہوگئی کہ جو ٹوٹا ہوا آئینہ اب تک ‘مسلم مہیلا ‘کو دکھا یا جارہا تھا اس میں بھی ان ہی کی صورت نسبتاً بہتر نظر آتی ہے۔ یہ صورت حال یقیناً کچھ ارباب بصیرت کی توقع کے بالکل برعکس ہے مگر حقیقت یہی ہے جس کا سہرا مسلم مہیلا کے سر بندھتا ہے۔ ہم کھلے دل سے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں کہ مسلم خواتین کا کردار ہماری تاریخ کے ہر عہد میں نمایاں رہا ہے۔ یہ عورت کے جذبہ ایثار کا ہی کرشمہ ہے کہ صفا ،مروہ کی سعی حج کااساسی رکن ہے اور زمزم کے چشمہ صافی سے ایک عالم سیراب ہو رہا ہے۔اس ضمن میں ہماری بہنوں کو اپنی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی فطری حیثیت اور سماجی تشخص کو باقی رکھتے ہوئے اپنی بے شمار صلاحتیوں کو بروئے کار لا سکیں۔

SHARE