دشمنِ امن کی میزبانی

ایم ودود ساجد
آج کل ہندوستان کے امن و امان کا دشمن ایک پاکستانی مفرور ہندوستان کی میزبانی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ وہ نہ صرف تازہ سیاسی ‘سماجی اور مذہبی معاملات پر چینلوں پر رائے زنی کرتا پھر رہا ہے بلکہ تاریخ کے ’گڑے مردے‘ اکھاڑ کر برداران وطن کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ایک چینل نے تو اس کا ایک مستقل پروگرام بھی شروع کر دیا ہے۔ بظاہر طارق فتح نامی اس شرانگیز پاکستانی کو سرتاپا سفید لباس زیب تن کرنے والی ہندوستانی خواتین کی ایک تنظیم نے پناہ دے رکھی ہے لیکن وہ جس آزادی کے ساتھ مسلمانوں پر رکیک حملے کر رہا ہے وہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک حکومت کی یا کم سے کم شرپسند افسروں کی سرپرستی حاصل نہ ہو۔
طارق فتح کی اہمیت بڑھانے میں مسلمانوں کے پرجوش نمائندوں کا بھی ہاتھ ہے جو محض ٹی وی پر آنے کی خاطر اس احمق کے ساتھ بحث میں شریک ہورہے ہیں۔پچھلے دنوں زی ٹی وی کی ایک مسلم رپورٹرنے مجھ سے فتوے اور جہاد پر گفتگو کی۔ اس نے بتایا کہ یہ (ریکارڈڈ) گفتگو طارق فتح کے پروگرام ’فتح کا فتوی‘ میں دکھائی جائے گی۔ میں نے کہا کہ یہ ٹائٹل انتہائی احمقانہ ہے۔ طارق فتح مفتی ہی نہیں ہے تو اس کے فتوے کا کیا مطلب؟ دوسری بات یہ ہے کہ ٹی وی چینل کو یہ حق کس نے دیا کہ خالص ایک مذہبی اصطلاح کو وہ انتہائی غیر مذہبی فرد کے پرگرام کا عنوان بنائے؟اس نے مجھ سے یہ سوالات کئے:’ کیا فتوی ہر معاملہ میں دیا جاسکتا ہے؟ کیا جہاد کے خلاف علماء کو کھل کر نہیں آنا چاہئے؟ برقعہ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ کہ کرکٹر محمد سمیع نے اپنی بیوی کو جس قسم کے کپڑے پہناکر اس کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈالی ہے اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ اور طارق فتح کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ علماء پردہ جیسی رسموں کو ختم کریں‘آپ کا کیا خیال ہے؟‘
میں نے کہا کہ فتوی ہر کس وناکس نہیں دے سکتا۔ فتوی دینے کا اختیار صرف مجاز مفتی کو ہے۔ فتوی ایک خالص مذہبی اصطلاح ہے اور یہ قرآن وشرع کی روشنی میں مفتی کے ذریعہ کسی مذہبی مسئلہ پر دی گئی رائے ہوتی ہے۔ فتوی اسی وقت دیا جاتا ہے جب کوئی سائل مفتی سے رجوع کرے اور اپنے مسئلہ پر اس سے شرعی رائے مانگے۔ میں نے کہا کہ آج کل فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل میڈیا نے لفظ فتوی کا جس طرح استعمال روا رکھا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک انتہائی بے ہودہ بات ہے کہ بار بار وضاحت کرنے کے باوجود میڈیا اس اصطلاح کو ہر احمقانہ بیان کیلئے استعمال کرکے مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کر رہا ہے۔ میں نے بتایا کہ جہاد کے معنی ہیں خود اپنے نفس کو برائی سے پاک رکھنے کیلئے جدوجہد کرنا اور دوسروں کو اچھے کام کی ترغیب دینا۔ اس کا مارکاٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔لیکن میڈیا مار کاٹ کو ہی جہاد کا نام دے رہا ہے۔ میں نے کہا کہ علماء برسوں اور دہائیوں سے نام نہاد جہاد کے خلاف کھل کر اپنا موقف رکھتے آرہے ہیں لیکن وہ طارق فتح جیسے شرپسندوں کی طرح چینلوں پر جاکر چیخ پکار نہیں مچا سکتے۔
میں نے کہا کہ اسلام خواتین کو ایک قیمتی، پر عظمت اور محفوظ اکائی قرار دیتا ہے اور مرد پر فرض ہے کہ اس کی عصمت کی حفاظت کرے۔ میں نے کہا کہ پردہ کرنے کی مختلف شکلیں ہیں اور اس کا حکم صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی ہے۔ ہندوستان میں یہ ہندو تہذیب کا حصہ ہے، آج بھی گاؤں اور قصبات میں ہندو خواتین پردہ کرتی ہیں۔ محمد سمیع کے ذریعہ اپنی بیوی کی نیم عریاں تصویر کو سوشل میڈیا پر نشر کرنے کے تعلق سے میں نے کہا کہ ہر چند کہ یہ اس کا ذاتی فعل ہے لیکن اگر وہ مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اسے اسلامی تعلیمات کا بھی پاس رکھنا چاہئے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے ایسی تصویروں کو عام کرنا یا اپنی بیوی کو ایسے آدھے ادھورے کپڑے پہناکر کھلے عام لئے پھرنا جائز نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ ایسا کرنا خود ہندو مذہب میں بھی ناپسندیدہ ہے۔ میں نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو رام اپنی بیوی سیتا کو بھی آدھا ادھورا لباس پہناتے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ خواتین کی آزادی کے نام پر آخر لوگوں نے رام سے کیوں نہیں پوچھا کہ وہ سیتا کو اتنے کپڑے کیوں پہناتے ہیں؟
پردہ کی رسم ختم کرنے کے طارق فتح کے مطالبہ پر میں نے کہا کہ اللہ نے جس امر کا حکم دیا ہے اسے ختم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔ آپ اس پر عمل کریں یا نہ کریں یہ آپ کا اختیار ہے لیکن آپ اس حکم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے۔ لہذا طارق فتح کو بھی علما ء سے ایسا احمقانہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کیلئے آزاد ہے لیکن اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے روکے یا ان کا مذاق اڑائے۔ مجھے طارق فتح کے تعلق سے بات کرنے میں تکلف تھا۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شرانگیز کے خلاف عوامی بیداری اور قانونی کارروائی کی ضرورت ہے۔ وہ بنیادی طور پر پاکستان کا ہے۔ لیکن 30 سال قبل جب اس نے پاکستان میں ہرزہ سرائی شروع کی تو اسے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ حیرت ہے کہ اسے سعودی عرب میں پناہ مل گئی۔سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران طارق فتح نے ابتدا میں تو حکمرانوں کی شان میں قصیدے پڑھے لیکن جب وہاں اس نے اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانا شروع کیا تو اسے وہاں سے بھی فرار ہونا پڑا۔ اب وہ کناڈا کا شہری ہے۔ایک عرصہ سے کناڈا میں رہ کر وہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کررہا ہے۔ اس نے 2015 میں بھی ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور حکومت سے کہا تھا کہ جب آپ نے ایک گانے والے (عدنان سمیع )کو شہریت دیدی ہے تو مجھے بھی دیدیجئے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ کناڈا میں نئی سیکولر حکومت کے آنے کے بعد وہاں رہ کر اسے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی میں دقت پیش آرہی ہے۔لہذا اب وہ پھر ہندوستان میں قیام پذیر ہے اور شہریت کا طالب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اسے شہریت دینا چاہتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ اس سے کچھ ’کام‘ لینا چاہتی ہے۔
طارق فتح کو زی ٹی وی نے ایک مستقل پروگرام ’فتح کا فتوی‘ کیلئے’کرایہ‘ پر حاصل کرلیا ہے۔ لہذا پچھلے دنوں کلکتہ کی ٹیپو سلطان مسجد کے امام نورالرحمن برکاتی کے اس بیان پر یہ پروگرام منعقد ہوا جس میں انہوں نے وزیر اعظم کے سر کے بال کاٹ کر لانے والے کو 25 لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس پروگرام میں کلیدی طور پر طارق فتح کو بٹھایا گیا تھا۔ میں نے زی ٹی وی کی رپورٹر سے گفتگو میں یہی کہا کہ یہ فتوی نہیں ہے اور یہ کہ یہ ایک بے ہودہ بیان ہے اور اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ طارق فتح نے اس بحث میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا۔ جن لوگوں نے طارق فتح کے خیالات سنے ہیں ان کیلئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ مہذب زبان و بیان کے ذریعہ اس کی مردود شخصیت کا نقشہ کھینچ دیں۔ میں نے اس کے ایک درجن سے زائد انٹرویو دیکھے ہیں‘ اسی طرح اس کے متعدد مضامین پڑھے ہیں اور چینلوں پر ہونے والی ان بحثوں کو دیکھا ہے جن میں وہ شریک ہوا۔ ان مشاہدات میں اس کے جو افکار سامنے آئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
’’ہندوستانی مسلمانوں کے آگ لگی ہوئی ہے کہ میں یہاں بیٹھ کر پاکستان کو کیوں برا کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ وہ آئی ایس آئی ایس اور پاکستان نواز ہیں۔ وہ تین طلاقیں دیتے ہیں۔ وہ چار چار بیویاں رکھتے ہیں۔ بابر ‘اورنگزیب اور محمود غزنوی جیسے چور ڈاکوؤں کو ہندوستانی مسلمان اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں ملاؤں کا اسلام چل رہا ہے اللہ کا نہیں۔ میں تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کو دوست رکھتا ہوں۔ میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے لڑتا ہوں۔ ہندوستان کے مولوی حکومت اور سیاستدانوں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ میں مدرسوں کی تعلیم کا مخالف ہوں۔ مدرسوں میں کیا ہوتا ہے مجھے سب معلوم ہے۔ مسجدوں میں ہر جمعہ کو کافروں کے خلاف دعائیں ہوتی ہیں۔‘‘
یہ چند نکات میں نے اس کے مختلف انٹرویوز اور مضامین سے اخذ کئے ہیں۔ ہندوستان میں ٹائمز ناؤ اور زی ٹی وی اسے سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ لیکن ایک بیباک ٹی وی جرنلسٹ خورشید ربانی نے ای ٹی وی کیلئے ایک انٹرویو میں اس سے جو جرح کی ہے وہ لاثانی ہے۔ اس انٹرویو میں طارق فتح نے اپنا ہر رنگ ظاہر کردیا ہے اور کسی ابہام کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان سے بھاگا ہوا یہ کناڈین شہری ہندوستان میں کیا کر رہا ہے؟ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر جنید حارث ‘مولانا انصار رضا اور امام عمیر الیاسی نے زی ٹی وی پر دوران بحث صاف طور پر کہا کہ ’’آپ (طارق فتح) ہندوستان کے ہندؤں اور مسلمانوں کو لڑانے کیلئے یہاں آئے ہیں۔‘‘ اب یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ ہندوستان کی سرزمین کواس دریدہ دہن پاکستانی شرپسند سے پاک کرے۔ اس ضمن میں ہندوستان کے مسلمانوں اور ان کی قیادت سے انتہائی دردمندی اور عاجزی کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ اس نامعقول کے خلاف سڑکوں پر آکر کوئی مہم نہ چلائیں۔ ٹی وی اور اخباری بیان بازی سے بھی احتراز کریں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حکمرانوں سے مل کر اس کی حساسیت سے آگاہ کریں۔ غیر مسلم دانشوروں کو ساتھ لے کر اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ اس کے خلاف بے شمار ثبوت یوٹیوب اور گوگل پر پڑے ہوئے ہیں۔ پولس اور حکومت کو بتایا جائے کہ یہ یہاں کے امن و امان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے لہذا اس کا ویزا فوراً منسوخ کیا جائے۔ یہ قضیہ مسلمانوں کی آزمائش اور حکومت ہند کا امتحان ہے۔ دیکھتے ہیں کون کھرا اترتا ہے۔

SHARE