نئی دہلی: گروگرام میں نماز جمعہ کو لے کر وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے بیان کے بعد ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے کہا کہ ‘جب بھی کسی شہر کی پلاننگ کی جاتی ہے تو وہاں رہنے والے تمام افراد کی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پلاننگ کی جاتی ہے، خواہ وہ پلاننگ سماجی ہو یا مذہبی، جو بھی ضرورت ہے اس کا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے نماز کی جگہوں کے تعین کیے جانے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔
گروگرام میں کھلے میں نماز جمعہ ادا کرنے پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ ‘مسلمانوں کو اپنی مسجدوں اور گھروں میں ہی عبادت کرنی چاہیے، باہر سڑکوں یا پارکوں میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی’۔
اس بیان کے بعد یہ مطالبات کیے جا رہے تھے کہ گروگرام میں متعدد ایسی وقف اراضی موجود ہیں جو اگر مسلمانوں کو مل جائیں تو وہاں نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں، اسی سے متعلق آج معروف وکیل محمود پراچہ نے نظام الدین میں واقع اپنے دفتر پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ‘وقف گزٹ کے مطابق ہریانہ میں 4 ہزار 400 مسجدیں ہیں جبکہ گروگرام میں 85 مسجدوں سے متعلق تفصیلات موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ گروگرام کے گاؤں میں 202 وقف اراضی موجود ہیں، جبکہ گروگرام شہر میں 44 ایسی جائدادیں موجود ہیں جن کی قیمت کافی زیادہ ہے، اگر مسلمانوں کو ان کی تمام وقف کی اراضی مل جاتی ہے تو نہ صرف سڑکوں پر نماز جمعہ ادا کرنے کی پریشانی سے نجات ملے گی بلکہ مسلمان ان زمینوں پر اپنی ضرورت کے حساب سے تمام کام کر سکیں گے۔
ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے کہا کہ جب بھی کسی شہر کی پلاننگ کی جاتی ہے تو وہاں رہنے والے تمام افراد کی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پلاننگ کی جاتی ہے، چاہے وہ سماجی ہو یا مذہبی، جو بھی ضرورت ہے اس کا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن مسلمانوں کی نماز کی پریشانی کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔