فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ دارمینن نے ٹی وی چینل سی نیوز کو منگل کے روز بتایا کہ انہوں نے پیرس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع شہر بووئے کی ایک مسجد کو چھ ماہ کے لیے بند کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ یہ شہر تقریباً 50 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ مسجد کو بند کرنے کا فیصلہ اس کے امام کے “ناقابل قبول”اندازِ تبلیغ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
جیرالڈ دارمینن کا کہنا تھا کہ مسجد کے امام اپنے خطبوں میں ”عیسائیوں، ہم جنس پرستوں اور یہودیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔”
واز علاقہ، جہاں بووئے واقع ہے، میں حکام پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ امام کے خطبات کی وجہ سے مسجد کو بند کرنے پر غور کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ خطبات میں نفرت، تشدد اور ‘جہاد کے دفاع’ پر اکسایا گیا ہے۔
واز کے ایک عہدے دار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ گذشتہ ہفتے ایک خط میں اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کسی بھی کارروائی سے قبل معلومات اکٹھا کرنے کے لیے قانونی طورپر 10 دن کی مدت درکار ہے۔ ایک مقامی روزنامہ کوریئر پیکارڈ کی خبر کے مطابق مسجد کے امام نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔
اخبار نے مسجد منتظمہ کمیٹی کے ایک وکیل کے حوالے سے بتایا کہ مسجد کے امام کے تبصرے کو ‘سیاق و سباق سے ہٹ کر’ لیا گیا اور کہا کہ واز کے عہدیداروں کے خط کے بعد امام کو ان کے فرائض سے معطل کر دیا گیا ہے۔
اب تک21 مساجد اورعبادت گاہوں پر پابندی
دارمینن نے رواں سال کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ فرانس بنیاد پرست اسلامی پروپیگنڈا پھیلانے کے شبے میں عبادت گاہوں اور انجمنوں کے خلاف چھان بین میں اضافہ کرے گا۔
یہ کارروائی اکتوبر 2020 میں ایک ٹیچرسیمویل پیٹی کے قتل کے بعد شروع ہوئی تھی۔ انہیں چارلی ایبدومیگزین میں شائع پیغمبر اسلام کے متنازعہ کارٹون کو اپنی کلاس میں طلبہ کو دکھانے پر آن لائن مہم کے بعد نشانہ بنایا گیا تھا۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق حالیہ مہینوں میں فرانس کی کل 2623 مساجد میں سے 99 مساجد اور مسلمانوں کی عباد ت گاہوں کی تحقیقات کی گئیں کیونکہ ان پر”علیحدگی پسند” نظریات پھیلانے کا شبہ تھا۔
مجموعی طور پر 21 مساجد اور عبادت گاہوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا جب کہ چھ سے انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف فرانسیسی قوانین کی بنیاد پر تحقیقات کی جا رہی تھیں۔