کچھ نہیں بولا تو مر جائے گا اندر سے شجاعؔ

عزیر احمد 

کچھ لوگ کے چہرے ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اتنے سیاہ ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی بھی پروڈکٹ یا اپلیکیشن کے استعمال سے صاف نہیں ہوتے، انہیں میں ایک ہمارے بڑے صاحب بھی ہیں، اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد، اور سیکولرزم کا مسیحا ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں، مگر ناکام ہی ثابت ہوتے ہیں، الٹا سارے لوگ ان کی حرکت پہ بر انگیختہ ہوجاتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لیجئے، کھادی کلینڈر جس کا سرورق ہمیشہ گاندھی جی کی تصویر سے زیب تن ہوتا تھا، اس پہ صاحب کا پھوٹو لگادیا، اتنا بھی نہیں سوچا کہ کہاں گاندھی جی اور کہاں صاحب۔
گاندھی جی زندگی بھر عدم تشدد اور اہنسا کے پرچارک رہے، اور صاحب نے پوری زندگی ہنسا اور تشدد میں گزاری، صاحب کے کردار کے بارے میں “گجرات فائلس” گواہ ہے۔
خیر گجرات کے بارے میں ہم زیادہ نہیں کہیں گے کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ گجرات کا حادثہ ہندوستان کے سیکولر چہرے پہ ایک کرارا تمانچہ تھا، اور اس ملک کو ہندو راشٹر بنائے جانے کی کوششوں میں سے دوسری کوشش تھی، اس سے پہلے 1992 میں بابری مسجد گراکے سیکولرزم کی عمارت ڈھائی جاچکی تھی۔
گجرات کا فساد تو صاحب نے چھوٹی کرسی سے بڑی کرسی تک پہونچنے کے لئے تھے، اس کا اثر تو خیر مسلمانوں پہ ہوا، ذہنی اور نفسیاتی طور پہ، مگر بڑی کرسی تک پہونچنے کے بعد صاحب نے تو پورے ملک کو معاشی طور پہ نقصان پہونچادیا، بلا تفریق قوم اور مذہب، پھر بھی کھادی کلینڈر نے کور پیج پہ صاحب کو جگہ دے دی. یہ خیال نہیں کیا کہ اس کلینڈر سے کروڑوں لوگ جذباتی طور پہ وابستہ ہیں، کیونکہ یہ گاندھی جی کے موومنٹ کو یاد دلاتا ہے، چرخے کے ساتھ لگی ہوئی تصویر لازوال اور یادگار تصویر ہے، تصویر میں چرخے کے ساتھ کسی اور کا لگا دینا ایسے ہی ہے جیسے نوٹ پر سے گاندھی جی کی تصویر ہٹاکے کسی اور کی تصویر لگادی جائے۔
بہرحال ہوا کے دوش پہ اکثر لوگ بہہ ہی جاتے ہیں، بہت کم لوگوں میں ہوا کے مخالف چلنے کی طاقت ہوتی ہے، جہاں سارے لوگ صاحب بھکتی میں وارے ہوئے جارہے تھے، وہیں کھادی کیلینڈر کے مالکان نے کیا تو شاید زیادہ غلط نہیں کیا، ہاں غلط اس وقت ہوا جب گاندھی کے نظریات پہ یقین رکھنے والی، اور ان کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلنے کا دعوی کرنے والی پارٹی کی جانب سے اس پہ چند رسمی ترجمانوں کے سوا کسی قومی لیڈر کا سخت بیان نہیں آیا، اور نہ ہی کسی نے تیز و تند لہجوں میں اس کی مخالفت کی۔
کھادی کلینڈر پہ صاحب نے اپنا فوٹو لگوا کے کلیئر پیغام دیدیا کہ ہمارے گرو گوڈسے نے جسمانی طور پہ گاندھی جی کا قتل کیا تھا، اب ہم نظریاتی طور پہ کریں گے.
اور صاحب اس میں یقینا کامیاب ہوں گے کیونکہ وہ ہر چیز کو دیش بھکتی سے جوڑنے کا ہنر جانتے ہیں، اپنی باتوں کے جادو میں لوگوں کو پھنسانے میں ماہر ہیں، ایکٹنگ بھی خوب کرلیتے ہیں، بڑی آسانی سے سوال کرنے والوں کو غدار ثابت کرلیتے ہیں۔ اور جو ان کی پالیسیوں پہ انگلی اٹھاتا ہے، وہ بکاؤ میڈیا کی نظروں میں مطعون ہوجاتا ہے، چاہے وہ ملک کا سابق وزیر اعظم ہی کیوں نہ رہا ہو۔

SHARE