نئی دہلی: بھارت میں مسلمان بن کر جینا اور ایک مسلمان کیلئے کوئی کام کرنا آسان نہیں ہے ۔ ہر آنے والے دن میں ایک نیا تجربہ ہورہا ہے ۔ میڈیا کے میدان میں کام کرنا اور کوئی پلیٹ فارم بنانا کانٹوں بھرا سفر ثابت ہورہا ہے ۔ ملک کی سیاست ، اخبارات کی سرخیاں اور چینلوں کی خبریں مسلمانوں سے بھری ہوتی ہیں لیکن کسی کو یہ برداشت نہیں ہے کہ کوئی مسلمان خود اپنا ایسا ادارہ بنالے جہاں آزادی کے ساتھ وہ اپنے مسائل دنیا کے سامنے پیش کرسکے اور لاکھوں لوگ اس سے جڑے ہوں۔ جب بھی کوئی ایسا ادارہ سامنے آتا ہے تو اس کا وجود مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہمارے ساتھ بھی مسلسل ایساہی ہورہا ہے ۔ جب سے ملت ٹائمز کے فلووز ملین میں ہوئے ہیں ، لاکھوں ،کروڑوں لوگ ملت ٹائمز کو پڑھنے اور دیکھنے لگے ہیں ، اس خبر کا اثر ہونے لگا ہے تب سے لگاتار ملت ٹائمز کو بند کرنے اور اس کے مشن پر قدغن لگانے کی کوشش جاری ہے ۔ ہمارے خلاف بارہا نوٹس جاری کی گئی ، کیس کیا گیا ، ڈرایا اور دھمکایا گیا ، ہمارے صحافیوں پر شرپسندوں نے حملہ کیا، لیکن ہم نے جھکنے ، ہمت ہارنے اور قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے اپنا سفر جاری رکھا ، اس کے بعد یوٹیوب نے ایک ہفتہ کیلئے ہمارے چینل کو بند کردیا ۔ اسی سال اگست میں فیس بک نے میرے پرسنل اکاؤنٹ کو ہمیشہ کیلئے سسپینڈ کردیا ، ملت ٹائمز کے پیج کی ریچ کو روک دیا ، مونٹائزیشن ختم کردیا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری ۔ دوبارہ سے ملت ٹائمز کا پیج صحیح ہوگیا تھا ، لاکھوں یوزرس ملت ٹائمز پر ویڈیوز دیکھ رہے تھے ، ایک ملین سے زیادہ اس کے فلووز تھے کہ اچانک 13 دسمبر کو فیس بک نے پیج ہی ڈیلیٹ کردیا ۔ فیس بک نے ایسا کیوں کیا ، کس کے اشارے پر کیا ، کس بنیاد پر یہ فیصلہ لیا ، اب تک اس کی وضاحت سامنے نہیں آسکی ہے ۔ فیس بک پر ہمارا آخری پوسٹ گڑگاؤں میں نماز پر پڑھنے پر پابندی سے متعلق تھا کہ ” مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر پابندی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو سب کچھ کرنے کی اجازت : ایک ملک میں یہ دو قانون کیوں؟ “ ” دیش کے ساتھ “ کا پروگرام اسی عنوان پر ہونا تھا لیکن اسے پوسٹ کرنے کے آدھا گھنٹہ بعد ہی پیج ڈیلیٹ ہوگیا ۔
فیس بک ، اس کے پالیسی منیجر ، ڈائریکٹر سمیت متعدد ذمہ داروں کو ہم نے میل بھیجا ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے ۔ پریس کلب آف انڈیا نے بھی ٹویٹ کرکے پیج ریسٹور بحال کرنے کی اپیل کی ، ٹوئٹر پر متعدد صحافیوں اور سماجی کارکنا ن نے بھی ملت ٹائمز کا ساتھ ، لاکھوں لوگوں نے ٹوئٹ کرکے ملت ٹائمز کیلئے ہیش ٹیگ چلایا لیکن ابھی تک پیج کو ریسٹور نہیں کیاگیاہے اور نہ ہی کوئی جواب دیا گیا ہے ۔ ملت ٹائمز کے فیس بک پیج کو ڈیلیٹ کرانے میں یقینی طور پر حکومت کا ہاتھ ہے اور دباؤ ڈال کر پیج کو ڈیلیٹ کرایا گیا ہے ۔ اس کاروائی کا بنیادی مقصد ملت ٹائمز کو سچائی دکھانے سے روکنا اور مسلمانوں کو ایک آزاد مؤثر میڈیا ہاؤس سے محروم کرنا ہے ۔ لیکن ہم ڈرنے والے اور مایوس ہونے والے نہیں ہیں ۔ ملت ٹائمز کا سفر جاری رہے گا ۔ ایک پلیٹ فارم پر پابندی لگائی جائے گی ہم دوسرا متبادل پلیٹ فارم اختیار کریں گے ۔ ہم سچائی اور حقیقت پر مبنی خبریں دکھاتے ہیں ، فیس بک پر وہی مواد پوسٹ کرتے ہیں جو یوٹیوب اور ویب سائٹ پر شائع ہوتا ہے ۔ ملت ٹائمز ہندی ، انگریزی ، اردو اور بنگلہ کا پیج ابھی بھی موجود ہے لیکن ہمارا اصل پیج فیس بک نے ڈیلیٹ کر رکھا ہے جس کے ایک ملین سے زیادہ فلووز تھے ۔
فی الحال ہم فیس بک کے خلاف لیگل نوٹس بھیج رہے ہیں ، اس کے بعد جلد ہی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور فیس بک کے خلاف کیس کریں گے ، فیس بک نے جب اکاؤنٹ بنانے اور اسے استعمال کرنے کا حق دے رکھا تھا ، اس کی گائیڈ لائنز پر ہم عمل کر رہے تھے پھر بغیر کسی نوٹس کے وہ کیسے پیج کو ڈیلیٹ کرسکتا ہے ۔ ملت ٹائمز کا کام بھی اپنی جگہ جاری رہے گا ۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے ناظرین اور قارئین ہمارا تعاون کریں گے ۔ ہمارا ساتھ دیں گے اور اس مشکل گھڑی میں ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔