بوسنیا نسل کشی سے انکار پر جرمنی نے کیا اسرائیلی مؤرخ کا ایوارڈ منسوخ

جرمنی نے اسرائیلی مؤرخ گیڈیون گرائف کو ملک کا اعلیٰ شہری اعزاز دینے کا ارادہ بدل دیا ہے۔ کیونکہ، سربرینتسا قتلِ عام پر گرائف کے مؤقف پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بوسنیا نسل کشی میں ہزاروں بوسنیائی باشندے ہلاک کر دیے گئے تھے۔
جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے ہولوکاسٹ کے محقق گیڈیون گرائف کو اس اعزاز سے نوازنا تھا۔
ایوارڈ دینے سے انکار کیوں؟
گرائف تاریخ دانوں کے ایک ایسے بین الاقوامی کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے جس نے جولائی میں اپنی رپورٹ میں سربرینتسا قتلِ عام کی نوعیت کو نسل کشی قرار دینے سے گریز کیا تھا۔
گرائف کے زیادہ تر مطالعاتی کام کا مرکز ہولوکاسٹ رہا ہے، تاہم انہوں نے ایسی مقالے بھی شائع کیے، جن میں ناقدین کے مطابق انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کروشیا کی آزاد ریاست کے سرب متاثرین کی تعداد کو بڑھا کر پیش کیا۔ کروشیا کی آزاد ریاست نازی حکومت کی کٹھ پتلی تھی، جس نے سربوں، یہودیوں اور روما کا قتلِ عام کیا تھا۔
یہ کمیشن میلوراڈ ڈوڈک نے تشکیل دیا تھا، جو اس وقت بوسنیا کی صدارت کے سرب رکن کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈوڈک نے بوسنیا اور ہرزیگوینا سے سرب اکثریتی جمہوریہ سرپسکا کی علیحدگی پر بھی زور دیا ہے۔
سربرینتسا قتل عام کے 26 برس
1995ء میں امریکا کے ثالثی میں کیے جانے والے ایک امن معاہدے کی رو سے سربرینتسا کو سربیا کے زیر انتظام جمہوریہ سرپسکا کے حصے کے طور پر ہی رہنے دیا گیا تھا۔ جمہوریہ سرپسکا موجودہ بوسنیائی ریاست کے دو اہم خود مختار علاقوں میں سے ایک ہے۔
26 برس قبل سرب فورسز نے مشرقی بوسنیائی قصبے سربرینتسا کے آس پاس آٹھ ہزار سے زائد بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ کے لیے بین الاقوامی جنگی جرائم کے ٹریبونل کے فیصلے میں سربرینتسا قتلِ عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
بوسنیا میں رواں برس جولائی کے دوران اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار ویلنٹین انزکو نےسربرینتسا نسل کشی سے انکار کو جرم قرار دیا تھا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com