شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ایک نیا سورج نکلا ہے ، ۲۰۲۲ء کا سورج ۔ مجھے یقین ہے کہ ۲۰۲۱ء کے آخری غروب آفتاب کے ساتھ مایوسی، تشویش ، بے چینی، خوف اور جبر کے دِن بھی غروب ہوگئے ہیں یا دھیرے دھیرے غروب ہوجائیں گے، ان شاء اللہ آنے والے دِن خوش کن ہوں گے ۔ گزرنے والا سال کس قدر اذیت ناک تھا!
کورونا کی وباء نے تو تباہی پھیلائی ہی تھی ،بھگوا عناصر نے ، بھاجپا کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں نے کم اذیت نہیں پہنچائی تھی۔ شہریت قانون کا چابک ، مسجدوں اور مدرسوں کے خلاف ہونے والی کارروائیاں اور بے جا گرفتاریاں ،کیا کیا سامنے نہیں آیا ۔۔۔ جانے والے سال کےآخر میں ایک شرمناک اور افسوس ناک فرقہ واارنہ ، متعصبانہ اور نسل پرستانہ واقعہ ہوا ، ایک ایسا واقعہ جس نے مرکز کی نریندر مودی کی سرکار کے دجل وفریب کے پردے بالکل تار تار کردیئے ، جس نے یہ ثابت کردیا کہ اترپردیش (یوپی) میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار اور خودیوگی نہ جمہوریت پسند ہے ، نہ ہی اسے اس ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے کوئی ہمدردی ہے ۔ اور نہ ہی اسے اس ملک کی سالمیت اور استحکام کی رتی بھر فکر ہے ، اسے اور اس کے آقاؤں ۔۔۔ نریندر مودی وامیت شاہ ۔۔۔ اور ان کے آقا۔۔۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت۔۔۔ کو بس صرف اور صرف یہ فکر ہے کہ یہ ملک ‘ہندوراشٹر’ میں تبدیل ہوجائے اور وہ بذات خود اور ان کی نسلیں عیش کی زندگیاں گزاریں۔ ہریدوار کا دھرم سنسد ، یتی نرسنہا نند گِری کی زہریلی باتیں ، سادھوی شکن پانڈے کی اشتعال انگیزی ، مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان اور ایک شیطان صفت سادھو کی زبان سے ، قوم کے باپو، مہاتماگاندھی کے لیے نکلنے والے انتہائی غلیظ الفاظ نے، اس ملک کے لوگوں کو تو حیران کیا ہی، ساری دنیا حیران رہ گئی ۔ گاندھی جی کے مقابلے ، ساورکر اور باپو کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی ‘پوجا’ کرنے والوں کا یہ گھناؤنا روپ کوئی نیا نہیں ہے ، لیکن پہلے کبھی اس طرح کھل کر ‘ نسل کشی’ کی اپیل نہیں کی گئی تھی، نہ ہی کھلے عام باپو کو گالیاں دی گئی تھیں۔ یہ گزرے ہوئے سال کا انتہائی شرمناک واقعہ تھا ، اور یہ واقعہ اس وقت مزید شرم ناک بن گیا جب دھرم سنسد کے زہریلے لوگوں نے ، مسلم علماء کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی جسارت کی اور پولس کا اعلیٰ افسر،ان کے ساتھ ٹھٹھہ مارکر ہنستا رہا ۔ مگر سال کے آخری دنوں نے یہ امید دلادی کہ یہ ”زہریلے لوگ’ ‘چاہے جو کرلیں نہ اس ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کرسکیں گے اور نہ ہی یہ ملک ‘ ہندوراشٹر’ میں تبدیل ہوسکے گا ۔ یہ امید ان چند افراد کی جرات اورہمت بلکہ بہادری نے بندھائی ہے جو ان ”زہریلے لوگوں” کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ یہ جو ”زہریلے لوگ” ہیں ان کے سروں پر ، ان کی پیٹھ پر ، سرکاری ہاتھ ہے ، بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاریں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیے ہوئے ہیں ، وزیراعظم نریندر مودی اور ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ ان کی اشتعال انگیزی ، فرقہ پرستی ، ان کی نسل پرستی پر لبوں کو سیئے ہوئے ہیں۔ یعنی ان ”زہریلے لوگوں’ ‘ کے خلاف کھڑے ہونے کا مطلب بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے خلاف کھڑا ہونا ہے ، ای ڈی ، سی بی آئی ، انکم ٹیکس کے خلاف آواز اٹھانا ہے ۔ اور شرکے سارے نظام کو للکارنا ہے ۔ لیکن فلم اداکار نصیرالدین شاہ نے یہ کام کیا ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید محمود اسعد مدنی نے یہ کام کیا ہے ۔ مولانا توقیر رضا خان بریلوی نے یہ کام کیا ہے ۔ آرمی کے پانچ سابق سربراہوں نے یہ کام کیا ہے ۔ ملک کے چوٹی کے ۷۶ وکلاء نے یہ کام کیا ہے ۔ صحافی روش کمار ، ساکشی جوشی ، نوین کمار ، ابھیسار شرما اور پرشون جوشی نے یہ کام کیاہے ۔ نیوز پورٹل ‘ دی وائر’ یہ کام کررہا ہے ، اسکرول اور ‘دی کوئنٹ’ اس کام میں لگا ہوا ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے کھل کر اس کی مذمت کی ہے ۔۔۔ اور ایک بڑی تعددا ہے ، گمنام افراد کی ، بے نام لوگوں کی جنہوں نے سوشل میڈیا پر ”زہریلے لوگوں” کے خلاف ایک مہم چھیڑ دی ہے ۔ یہ سب کے سب یقیناً مبارک باد کے حقدار ہیں ۔ اور اس کے بھی حقدار کہ ان کا ساتھ دیا جائے ۔ میں بات نصیرالدین شاہ کی کرنا چاہوں گا ۔ نصیرالدین شاہ ایک بہترین اداکار اور سیکولرذہن ومزاج رکھنے والے ایک اچھے انسان ہیں۔ ان کے نظریات سے بہتوں کو اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن اس سچ سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا کہ انہیں فرقہ پرستی سے زبردست نفرت ہے ، اور وہ مسلمانوں کے حق کے لیے کھل کر آواز اٹھاتے ہیں ۔ نصیر الدین شاہ نے کوئی آج ہی آواز نہیں اٹھائی ہے ۔ دسمبر ۲۰۱۸ء میں یوپی میں ایک پولس والے کی ماب لنچنگ کے بعد انہوںنے کہا تھا ”آج انڈیا میں جو حالات ہیں جہاں ایک انسان کے مقابلے میں گائے کی موت کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے ، اب اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہوگا ۔” انہوں نے مزید کہا تھا ” مجھے اپنے بیٹوں عماد اور ووان کی فکر ہے ، میں نے انہیں کسی خاص مذہب کی تعلیم نہیں دی ہے ، اگر کل کو کوئی بھیڑ انہیں گھیر لیتی ہے تو وہ کیا بتائیں گے کہ وہ کون ہیں؟ مجھے اس سب سے ڈر نہیں لگتا بلکہ غصہ آتا ہے ۔” نصیرالدین شاہ کے مذکورہ بیان کے بعد ” بھگتوں” نے انہیں ‘ ‘غذار” کا خطاب دے دیا تھا! نصیرالدین شاہ نے ‘ غدار’ کہنے والوں کو یہ کہتے ہوئے منھ توڑ جواب دیا تھا’ ‘ یہ ملک ہمارا ہے اور کسی میں ہمیں یہاں سے نکالنے کی ہمت نہیں ہے”۔ جب ملک میں این آر سی اور سی اے اے کا ہنگامہ پورے شباب پر تھا اس وقت بھی نصیرالدین شاہ نے آواز اٹھائی تھی اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا”حیرت ہے کہ متنازعہ شہریت قانون پر فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے اداکار بات کیوں نہیں کررہے ہیں ۔” نصیرالدین شاہ مسلسل یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ لوگ ”ڈریں نہیں اور نہ خاموش رہیں، آواز اٹھائیں”۔ اس بار ہریدوار کے دھرم سنسد کے تناظر میں انہوں نے پہلے کے مقابلے زوردار آواز اٹھائی ہے ، ایسی آواز جس نے یقیناً فرقہ پرستوں ، متعصبوں اور نسل پرستوں یا باالفاظ دیگر ”زہریلے لوگوں” کو حواس باختہ کردیا ہوگا ، آپ لوگ بھی وہ آواز سن لیں ، اور صرف سنیں ہی نہیں نصیرالدین شاہ کی آواز میں آواز ملالیں۔ نصیرالدین شاہ نے ‘دی وائر’ کے لیے کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے کہا ” یہ (ہندوستان) ہمارے ۲۰ کروڑ لوگوں (مسلمانوں) کے لیے مادرِ وطن ہے ، ہم ۲۰ کروڑ لوگ یہیں کے ہیں ، ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں ، ہمارے خاندان اور کئی نسلیں یہیں رہیں اوراسی ‘ مٹّی میں مل گئیں ، مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی مہم (نسل کشی کی ) شروع ہوئی تو سخت مزاحمت ہوگی اور لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑے گا ، مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے ، یہ مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش ہے لیکن مسلمان ہار نہیں مانیں گے ، مسلمانوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ہمیں اپنا گھر بچانا ہے ، ہمیں اپنے مادرِ وطن کو بچانا ہے ، ہمیں اپنے خاندان کو بچانا ہے ، ہمیں اپنے بچوں کو بچانا ہے ۔ میں مذہب کی بات نہیں کررہا ہوں ، مذہب تو بہت آسانی سے خطرے میں پڑجاتا ہے ۔ اور جو لوگ مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کررہے ہیں وہ دراصل ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں ”۔ نصیرالدین شاہ نے سچ کہا ، یہ ساری زعفرانی ، بھگوا ٹولی ، یہ ‘ ہندوراشٹر’ کے قیام کےجنونی حامی ، یہ ‘ دھرم سنسد’ کے ”زہریلے لوگ” یہ خانہ جنگی پر ہی تلے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے اثرات کس قدر خوف ناک ہوں گے ،اس کی نہ انہیں فکر ہے ، نہ مودی ، یوگی اور امیت شاہ بلکہ پوری بی جے پی اور سنگھ پریوار کو فکر ہے ۔ لیکن فوجیوں کو فکر ہے ۔ ملک کی مسلح افواج کے پانچ سابق سربراہان ایڈمرل رام داس ، ایڈمرل وشنوبھاگوت ، ایڈمرل ارون پرکاش ، ایڈمرل آر کے دھون اور ائرچیف مارشل ایس پی تیاگی نے ، اور ان کے ساتھ مزید سو سے زائد سابق فوجی افسران اور سرکردہ بیورو کریٹوں نے زہریلی ، اشتعال انگیز تقریروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے ، اور سچ ہی کہنا ہے کہ”نشل کشی کا نعرہ دینے والے افراد کوئی بھی ہوں ، ملک کی حکومت اور عدلیہ کو چاہیئے کہ وہ اس کے خلاف قدم اٹھائے ۔ یہ نہ صرف ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ ہمارے سماجی تانے بانے کو بھی تار تار کرکے رکھ دے گا ۔ مقرروں نے اس میں پولس اور فوجی افسران کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی ہے ، جو انہیںنسل کسی کی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔” ان فوجی افسران اور بیورو کریٹوں کو ، اور نصیرالدین شاہ کو ہمارا سلام ہے ۔ انہوں نے امید بندھائی ہے ، ہمت بندھائی ہے ۔ بات سید محمود اسعد مدنی کی کرلیتے ہیں ، انہوں نے زہریلی تقریروں کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔ یہ ہمت کی بات ہے کیونکہ آج ساری مسلم تنظیمیں جماعتیں اور مسلم قائدین نشانے پر ہیں ۔ محمود مدنی نے اس کی پروا نہیں کی ہے ۔ مولانا اختر رضا خان بریلوی نے آواز اٹھائی ہے کہ ”ہاں آو ہم مرنے کو تیار ہیں”۔ صحافی حضرات کھڑے ہیں ، حقوق انسانی کی تنظیمیں کھڑی ہیں ۔ وکلاء نے ملک کے چیف جسٹس رمنا سے قدم اٹھانے کی درخواست کی ہے اور اس ملک کے بہت سارے سیکولر مزاج ہندو نفرت کے خلاف بات کرتے نظر آرہے ہیں ۔ یہ سب افراد امید بندھا رہے ہیں ، بلکہ یقین دلارہے ہیں کہ ۲۰۲۲ءقطعی ۲۰۲۱ء جیسا نہیں ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔