محمد ساجد قاسمی
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابی عمل کا اعلان ہو چکا ہے آنے والا ہر دن سیاسی لیڈروں کی دھڑکن تیز کر رہاہے سبھی جماعتیں کمر بستہ ہو کر میدان عمل میں کود چکی ہیں اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہیں ان تمام ریاستوں میں سب اہم یوپی کا الیکشن ہے جہاں ۱۱فروری سے ۸مارچ کے درمیان سات مرحلوں میں 403سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی جبکہ امیدوارں کے قسمت کا فیصلہ ۱۱مارچ کو ہوگا سبھی پارٹیاں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہاں فتح کا پرچم لہرانا کتنا معنی رکھتا ہے کیونکہ یوپی ہی وہ سرزمین ہے جہاں سے دہلی کے تخت وتاج کا راستہ نکلتا ہے جو جماعت اس الیکشن میں کامیاب ہوگی اسکے لیے اگلا لوک سبھا الیکشن آسان ہو جاے گااسی لیے سبھی جماعتیں اس الیکشن کو لے کر زیادہ فکر مند ہیں عوام کو لبھانے کے لے نیے نیے وعدے کر رہے ہیں اور ہر ایک اپنی سرکار بنانے کا دعوی کر رہا ہے لیکن ان دعوں کا کیا؟
یہ تو آنے والا وقت ہی بتاے گا کہ عوام کس کو اقتدار سونپتی ہے-
سپا ترقی اور وکاس کے نام پر دوبارہ سرکار بنانے کا دعوی کر رہی ہے تو مایا وتی مسلم اور دلت کے ووٹ کے سہارے ستا میں آنے کی کوشش کر رہی ہے ، بسپا نے ۶۹ مسلم امید واروں کو ٹکٹ دے کر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش ر رہی ہے، بی جے پی کاماننا ہے کہ یوپی کی فتح ۹۱۰۲ کے لوک سبھا الیکشن کی راہ ہموار کرے گی اسی لیے بی جے پی نے مودی جی کے دم خم پر یوپی چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے مودی جی اپنی زور بیانی اور چرب زبانی کے ذریعہ عوام کو نیے نیے خواب دکھا کر ووٹ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن اس بار عوام مودی کے وعدوں پر یقین نہی کرے گی اور میکنگ انڈیا،ڈجیٹل انڈیاکے بہکاوے میں نہی آے گی، کیونکہ عوام کو دکھاے گے سنہرے خواب اب تک پورے نہی ہوے ہیں،
عوام ابھی نوٹ بندی کا تازہ زخم بھلا نہی پائ ہے وہ اس کے کرب کو اب بھی محسوس کر رہی ہے ،دو مہینے گزرنے کے بعد بھی سرکار عوام کی اس تکلیف کا مکمل طور پر تصفیہ نہی کر پائ ہے مودی جی کے نوٹ بندی کے غلط فیصلے نے ہندوستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑدی اور تاجروں کو کافی نقصان پہنچایا ہےجس کا خمیازہ بی جے پی کویوپی الیکشن میں بھگتناپڑے گا اور بی جی پی کے اقتدار کا خواب چکنا چور ہو جاے گا، بھاجپا اس الیکشن کو لے کر بہت ہیچین ہے، کیونکہ نہ تو مودی جی کا جادو چل رہا ہے اور نہ ہی عوام جھوٹے وعدوں سے فریب کھا رہی ہے، بھاجپا کا ماننا ہے کہ اگر اس بار نتائج اچھے نہی رہے تو ۹۱۰۲ میں لوک سبھاالیکشن آسان نہی ہوگا –
وہیں راہل گاندھی کے تیخے تیور نے بی جے پی کے ہوش اڑا دیےہیں کانگریس نے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے یوپی الیکشن کی لگام غلام نبی آزاد کو تھما دی ہے –
یوپی کا فاتح کون ہوگا یہ تو وقت ہی بتاے گا لیکن اگر سپا کانگریس سے اور بسپا ایم آی ایم سے اتحاد کرلیتی ہے تو بی جے پی کے لیے یہ الیکشن آسان نہی ہوگا
اس موقعہ پر سیکولر پارٹیوں کا اتحاد مسلم ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا سکتا ہے اگر یہ جماعتیں تنہا الیکشن لڑیں گی تو متحدہ محاذ قائم نہی ہو پاے گا اور مسلم ووٹ تقسیم ہو جاے گا،
جسکا سیدھا فائدہ بی جےپی کو ہوگا اس انتخاب میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکشت دینے کے لیے صوبای جماعتوں کا اتحاد نا گزیر ہے اور یہ اتحاد فرقہ پرست طاقتوں کے طوفان کےسامنے سیسہ پلای ہوئی دیوار ثابت ہوگا، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرکے اپنی عاقبت اندیشی کا ثبوت دیں یوپی الیکشن مسلمانوں اور سکولیرزم کے علم برداروں کے لیے ایک سخت امتحان ہے، بطور نتیجہ یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے اور قیاس آراٰئ کی جا رہی ہے کہ راہل گاندھی کا نیا جوش اور اکھلیش یادو کا چہرہ یوپی میں سب پر بھاری پڑے گا
لیکن یہ سیاسی جنگ ہے یہاں کچھ بھی ہو سکتا
ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یوپی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور عوام کس کو اپنا مسیحا بناتی ہے؟؟؟