فیصل نذیر
(ریسرچ اسكالر شعبہٴ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
جامعہ ملیہ اسلامیہ كے شعبۂ عربی كے استاد مرحوم پروفیسر خالد حامدیؒ کا سانحہ ارتحال ان کے تمام شاگردوں ، قارئین اور معتقدین کے لیے ایک افسوسناک خبر ہے۔ استاد محترم نہایت نیک طبیعت، اسلام کے ان اصول و ضوابط اور حضور اکرم ﷺ کی ان سنتوں پر عمل پیرا تھے جنہیں مسلم سماج نے بھلا دیا ہے. آپ ایک عظیم والد کے عظیم فرزند تھے. نہایت سخی، اور امروز میں جینے والے مست مولی اور قلندر صفت انسان تھے۔ گریجویشن میں دوران درس بار بار استاد مرحوم كا فون بج رہا تھا، استادِ محترم نے ہماری طرف دیکھ کر کہا کہ معاف کیجئے گا وہ آج کے دن میں بیواؤں اور بے سہارا عورتوں کو کچھ پیسے دیتا ہوں تو کچھ نئی مزید عورتیں اپنی حاجات کے سلسلے میں بار بار فون کر رہی ہیں. آپ نہایت اصول پسند اور اصول پرست آدمی تھے. حق گوئی میں آپ کی مثال پانا ناممکن ہے. اگر آپ کو کوئی چیز خلافِ شریعت یا خلافِ طبیعت لگے تو سامنے کسی بھی عہدے پر بیٹھا شخص کیوں نہ ہو آپ حق گوئی کو مصلحت کے پردے میں نہیں چھپاتے تھے. سود کے شائبے سے بھی دور رہتے تھے، اور اس بات کی مکمل یقین دہانی کرتے تھے کہ سود کا ایک روپیہ بھی سیلری میں مدغم نہ ہو۔
ایک بڑی اہم بات جو کل جنازے میں میرے ایک دوست نے بتائی کہ ہم سب بہت سارے سوفٹ ویر جیسے انپیج، ایم ایس ورڈ وغیرہ ڈپلیکیٹ کاپی (مسروقہ) استعمال کرتے ہیں، استاد محترم چونکہ خود بھی ایک میگزین کے ذمہ دار تھے اور “اللّٰہ کی پکار” نامی میگزین کو آپ بغیر کسی فائدے اور مالی نفع کی امید کے نكالتے تھے تا كہ خدا کی صحیح بات بندوں تک پہچائی جا سكے. تو چونکہ آپ کا مقصد خالص رضائے الہی تھا، تو آپ کا ماننا یہ تھا کہ اس علمی و دینی کام کے لیے ایک غیر اصلی اور غلط طریقے سے استعمال کی گئی سوفٹ ویر بھی ناجائز ہے. اس لیے آپ ہمیشہ صحیح اور خرید کر لگایا گیا سوفٹ ویر ہی استعمال کرتے تھے. استادِ محترم کا چھوٹا سا عمل ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں بتاتا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کس قدر احتیاط اور کس قدر خوفِ خدا کے سائے میں گذاری۔
اگر آپ اللّٰہ کی پکار کے مضامین اور مشمولات اور اداریے پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ استاد محترم کس نیت سے اس میگزین کو پابندی سے نکالتے تھے. اس میں مسلمانوں میں رائج بے وجہ کی خرافات اور بد عقیدتی پر مضامین ہوتے. اس میں اسلام سے متاثر ہونے والے مشرف باسلام ہونے والے خوش نصیبوں کے انٹرویو ہوتے. اس میں تفاسیر و احادیث سلسلہ وار چھاپے جاتے. اور استاد محترم اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ میگزین نکالنا ایک گھاٹے کا سودا ہے، کیونکہ ہماری آبادی کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادی نہیں ہے. استاد محترم کا اس حدیث پر مکمل عمل تھا کہ “رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں جہنم میں جائیں گے”. ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے سرکاری کاموں کے لئے مصلحت کی چادر اوڑھ کر اور دیگر تاویلیں کر کے، رشوت دینے کو خاموش جواز دے چکے ہیں. مگر استاد محترم نے کبھی کسی کو رشوت نہیں دی، بعض دفعہ انہوں نے تکلیف جھیلنا منظور کر لیا؛ مگر رشوت کا سہارا نہیں لیا. اب ایسے پاک طینت لوگ کہاں ملتے ہیں. ایسے دیوانے اور دین اسلام کے مستانے کہاں پائے جاتے ہیں. اب تو دنیا نے بے ایمانی کا نام چالاکی اور اصل چالاکی کا نام حماقت رکھ دیا ہے۔ خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد رکھ دیا ہے۔ استاد محترم بہت ہی پر سکون اور ہر اعتبار سے پر اطمینان زندگی گزارتے رہے. آپ نے کبھی کسی تنقید و تعریف کی پرواہ نہیں کی۔ آپ کو جو درست لگتا اور جو قرآن و سنت کے مطابق نظر آتا؛ آپ بلا تامل وہ کام کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے. اور اپنے مریدین اور شاگردوں اور رشتہ داروں میں صحیح اسلام کی ترویج کرتے رہے، اور خلاف شرع چیزوں پر ٹوک دیتے. آپ ملک کے مسائل اور حکومتوں کے رویے پر بھی گہری نظر رکھتے تھے. اور حالات کی تبدیلیوں سے ہمیں با خبر کراتے. آپ کا درس بہت دلچسپ اور پر لطف ہوتا. تاریخِ ادبِ عربی کو اتنا سہل بنا کر ہمیں پیش کرتے کہ چیزیں مکمل ذہن نشین ہوجاتیں اور دوسرے دن کسی بھی طالب سے پوچھ دیتے کہ کل میں نے کیا بتایا تھا اس کی تلخیص سنائیں. استاد مرحوم و مغفور نے اپنی رحلت سے ایک روز قبل ایک طویل مضمون فیس بک نشر کیا کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی خلاف ورزی چھوڑ دینا چاہیے ، سود ، بدکاری، رشوت و حرام خوری اور شراب نوشی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں بالآخر خدا کے پاس جانا ہے اور جواب دہ ہونا ہے. چند روز قبل استاد محترم کو اچانک سینے میں درد اٹھا اور آناً فاناً میں آپ اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے، مگر آپ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ایک لازوال دینی تصنیفات، شاگردوں کا ایک جم غفیر اور اپنی بے پناہ نیکیاں. اللّہ تعالیٰ استاد مرحوم کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور بشری خطاؤں کو در گزر فرمائے. اور جنت بریں میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص