اسرائیل کی تخریبی سرگرمیاں اس کے حلیفوں کے لیے بھی وبال جان

 امام الدین علیگ

دشمن ممالک میں اسرائیل کی تباہ کار یاں اور تخریبی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں تیونس میں مقیم حماس کے رہنما 49 سالہ ڈرون انجینئر محمد الزواری کے قتل کا معاملہ ہو، دبئی کے ایک ہوٹل میں حماس کے رہنما محمود المبحوح کے قتل کا معاملہ ہو، ایران کے متعدد ایٹمی سائنسدانوں پر حملہ اور ان کی پُر اسرار ہلاکت کی بات ہو یا پھر نازی جرمنی کے اسرائیل مخالف لیڈران اور افسران کو چن چن کر ہلاک کیے جانے کا معاملہ، اس طرح کے بے شمارمعاملوں اور سازشوں میں صہیونی ریاست کے براہِ راست ملوث ہونے کے مضبوط شواہد اور دلائل دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صہیونی ریاست اس طرح کے معاملات کے سامنے آنے پر اکثر و بیشتر خاموشی اختیار کرلیتی ہے یا پھر کوئی گول مول سیاسی بیان دے کر اپنا دامن جھاڑ لیتی ہے۔ جب کہ خود اسرائیلی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل بینی گانٹز نے مارچ 2014ء میں واضح طور پر اعتراف کیا تھا کہ ان کے خفیہ ادارے ایران میں تخریبی کارروائیوں اور ایٹمی سائنسدانوں کے قتل میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ جنرل بینی گانٹز نے مزید اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے بیرون ملک ایران کے علاوہ دیگر کئی دشمن ممالک کے خلاف بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ در اصل دشمن اور مخالف ملکوں میں اسرائیل کی تخریبی سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں لیکن اسرائیل کی یہ سازشی فطرت اور اس کی تباہ کن سرگرمیاں اب اس کے دوست اور حلیف ممالک کے لیے بھی وبالِ جان بنتی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں قطر میں واقع نشریاتی ادارے الجزیرہ پر نشر ہوئی ایک خفیہ رپورٹ نے امریکہ اور یوروپی ممالک میں ہلچل مچا دی ہے۔ الجزیرہ کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صہیونی ریاست کس طرح سے اپنے حلیف اور دوست ممالک میں اسرائیل کی غاصبانہ پالیسی پر غیر جانبدارانہ رائے رکھنے والے سیاست دانوں اور سرکردہ شخصیات کو ہراساں کرتی ہے اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے کس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے۔ اس انکشاف کے بعد فی الوقت خاص طور پر صہیونی ریاست کو کھڑا کرنے میں اہم کردار نبھانے والے برطانیہ کی سیاست میں طوفان سا برپا ہے۔ خفیہ طریقے سے ریکارڈ کیے گئے اس ویڈیو میں لندن میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کی جانب اسرائیل مخالف کئی وزرا کو ہٹانے کے لیے رچی گئی صہیونی سازش کا پردہ فاش ہوا ہے۔ ویڈیو میں اسرائیلی سفارت خانے کے ایک سینئر اہلکار شائی موسات نائب برطانوی وزیر خارجہ ایلن ڈنکن کو ہٹانے پر اصرار کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ ایلن ڈنکن فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری کے مخالفین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کو اسرائیل کے لیے باعث ندامت بتاتے ہوئے اسے قبضہ، لاقانونیت، لاپرواہی، ساز باز کے مرکب سے تعبیر کیا تھا ۔ ڈنکن کے اس موقف سے ظاہر ہے کہ وہ اسرائیل کی نظر میں کسی چبھتے ہوئے کانٹے سے کم نہ ہوں گے۔ یہ ویڈیو لندن کے ایک ہوٹل میں بنایا گیا جہاں اسرائیلی سفارت خانے میں متعین یہ اہلکار برطانوی لیبر پارٹی کے ایم پی جان ریان اور پارٹی کی ایک خاتون رکن ماریہ سٹر یزولو سے ملاقات میں اس سازش کا انکشاف کرتا ہے۔ موسات کو یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ماریہ سٹریزولو در اصل ایک رپورٹر ہیں جو ایک خفیہ مہم پر لیبر پارٹی کی کارکن کے روپ میں اس کے سامنے موجود ہوتی ہیں۔ موسات ان کے سامنے کہتا ہے کہ ایلن ڈنکن اسرائیل کے لیے بہت مسائل کھڑے کر رہا ہے اس لیے ہم اسے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ وزراء اور دیگر سیاسی لیڈران کی ایک فہرست بھی پیش کرتا ہے جنھیں صہیونی ریاست عہدوں سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اس ریکارڈنگ میں یہ صہیونی ایجنٹ مزید انکشاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے 10 لاکھ پاؤنڈ کی رقم بھی حاصل کرلی ہے تاکہ اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ کو اسرائیل کے دورے پر لے جاؤں۔ 10لاکھ پاؤنڈ کی فنڈنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سازش کے پیچھے براہ راست صہیونی ریاست کا ہاتھ ہے۔ موسات نے ایک اور چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ وہ برطانوی سیاست دانوں میں اسرائیل دوستوں کی ایک لابی کھڑی کر رہا ہے جب کہ امریکی سیاست میں اس طرح کی کوشش باقاعدہ عمل میں آچکی ہے۔ وہ اس ملاقات میں برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کو بھی نہیں بخشتا ہے ، انھیں بیوقوف قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ایک لاپرواہ اور بیوقوف انسان ہیں اور بنا ذمہ داریوں کے وہ وزیر خارجہ بن گئے ہیں۔ وہ شخص یہیں نہیں رکتا ہے بلکہ لیبر پارٹی کے لیڈر جبرمی کاربائن کو بھی پاگل کہتے ہوئے ان کا مذاق اڑتا ہے اور ان کے حامیوں کو خطرناک قرار دیتا ہے۔
اب ظاہر سی بات ہے برطانوی سیاست بلکہ مغربی ممالک کی سیاست کی اس کڑوی حقیقت سے پردہ اٹھنے کے بعد تو ہنگامہ ہونا طے تھا۔ لہٰذا انتہائی اعلیٰ سطح پر ہونے والی اس سازش سے پردہ اٹھنے کے بعد اسرائیلی سفیر نے اس موضوع پر بحث کو لگام دینے کے لیے معافی مانگ لی جسے حکومتِ برطانیہ نے چاہتے نہ چاہتے قبول بھی کرلیا ۔شاید اس لیے کہ اتنے اعلیٰ سطح سازشوں سے نبرد آزما ہونا ان ممالک کے بس میں نہیں ہے ۔ لہٰذا معافی تلافی کرکے اس معاملے کو ٹالنا حکومتِ برطانیہ کی مجبوری کہی جا سکتی ہے۔ تاہم اسکاٹش نیشنل پارٹی نے حکومت کی جانب سے اس سنگین معاملے میں اسرائیل کی معافی کو تسلیم کرنے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسرائیلی سفارت کار کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایک بار برطانیہ دبئی میں حماس لیڈر محمود المبحوح کے قتل کے لیے برطانوی پاسپور ٹو ں کے کلون استعمال کرنے کے جرم میں اسرائیل کے سفارتکار کو ملک سے بے دخل کر چکا ہے۔ یعنی حلیف ممالک میں اعلیٰ سطح پر صہیونی سازش فتنہ پروری کوئی نہیں بات نہیں ہے لیکن اس کے خلاف اٹھانے کے لیے جلدی کوئی ہمت نہیں جٹا پاتا ہے۔
در اصل پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اسرائیل جہاں دشمن ممالک اور تنظیموں کے سرکردہ شخصیات سائنسدانوں، انجینئروں اور رہنماؤں کوقتل کرکے ، ان کی تنصیبات کو تباہ کرکے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ وہ آگے چل کر وہ اس کے مذموم ارادوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکیں تو دوسری جانب وہ طاقتور اور ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ان کے سیاسی لیڈران اور نمایاں شخصیات کو اپنی مٹھی میں کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کام کے لیے وہ دولت، طاقت، لالچ اور دھمکی، سازش سمیت ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے اور اسرائیل کی یہ سازشیں ، ہتھکنڈے اتنے مربوط، منظم اور اتنی اعلیٰ سطح کی ہوتی ہیں کہ مضبوط سے مضبوط ملک کے لیڈر بھی ان کے ڈر سے اسرائیل کے خلاف جانے سے خوف کھاتے ہیں اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچنے میں ہی خیر سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال دنیا کا سپر پاور کہا جانے والا امریکہ ہے جس کی دونوں سرکردہ سیاسی پارٹیاں کے لیے اقتدار پانے کا راستہ اسرائیل نوازی کے گلیارے سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہٰذا وہاں کی دونوں دونوں سیاسی پارٹیاں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امریکی انتخابات سے قبل اور بعد اکثر و بیشتر اسرائیل نوازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ طاقتور ممالک کی قیادت کو اپنی مٹھی میں کرکے انھیں اپنی منشا کے مطابق استعمال کرنے کے فن میں صہیونی اتنے ماہر ہیں کہ تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ 
اس ویڈیو کو سامنے لانے والے نشریاتی ادارہ الجزیرہ کا دعویٰ ہے کہ اْسے یہ ویڈیو چھ ماہ کے ایک انڈر کور آپریشن کے بعد حاصل ہوا تھا۔ چھ ماہ کی مشقت سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صہیونیوں کی سازش کتنی دقیق ہوتی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق اس آپریشن کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اسرائیلی سفارت کار کس طرح ایک برطانوی سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر برطانوی سیاست دانوں کے کیرئیر تباہ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے سنسنی خیز پہلو یہ ہے کہ آنے والے وقت میں الجزیرہ اس سلسلے میں چار قسطوں پر مشتمل تحقیقاتی رپوٹوں کو نشر کرنے والا ہے۔ اگر الجزیرہ کا یہ منصوبہ صہیونی سازش سے محفوظ رہا تو امکان ہے کہ اس سے اسرائیل کی کی ریشہ دوانیوں و سازشوں اور اس کی جانب سے دیگر مما لک کی حکومت و قیادت کو یرغمال بنانے کے موضوع پرنئے سرے سے بحث شروع ہو گی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہی ایک انکشاف ہی دنیا کے سرکردہ ممالک کی قیادت کو سوچنے سمجھنے کا ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ غور کریں کہ انھوں نے اسلام دشمنی میں مشرق وسطیٰ کے قلب میں جس خار دار پودے کی شجرکاری اور آبیاری کی ہے وہ خار دار پودا اپنی افزائش اور نشو نما کے ساتھ ایک دن پوری دنیا بلکہ پوری انسانیت کے لیے عظیم خطرہ بن کر ابھرے گا اور اس وقت اس خطرناک خاردار پودے کو کھاد پانی دینے والے لوگ اور ممالک بھی اس کی تباہ کاری سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے کیوں کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔ ایک قاتل اور سازشی گروہ کی حیثیت رکھنی والی اس صہیونی ریاست کی سیاہ فطرت ایک نہ ایک دن پوری دنیا کو اپنی زد لے گی ، مغربی و یوروپی ممالک کی حکومتوں اور قیادتوں کا اسرائیل کے ہاتھوں یرغمال ہونا تو ابھی محض شروعات بھر ہے۔

ای میل: imamuddinalig@gmail.com 
موبائل نمبر: 8744875157

SHARE