ظلم کے مقابلہ کے لئے مظلوموں کا اتحاد

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء جب بھی کسی قوم میں آئے ، تو عام طور پر ان کا سابقہ دو طبقوں سے پیش آیا ، ایک ’’ملأ قوم‘‘ ، یعنی قوم کے سر برآور دہ لوگ ، جن کو باعزت اور بلند مرتبت سمجھا جاتا ، دوسرے وہ لوگ جن کو قرآن نے ’’ ارا ذل قوم ‘‘ یا’’مستضعفین‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، یعنی قوم کے معمولی اور کمزور لوگ ، جن کو سماج میں بے وزن اور کم حیثیت خیال کیا جاتا ہے ، ہر نبی کی دعوت اپنی قوم میں ایک اجنبی دعوت کی حیثیت سے اُبھرتی تھی ، قوم کے سربرآوردہ لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے تھے ؛ البتہ ان میں جو لوگ حقیت پسند اور نیک خو ہوتے تھے ، وہ اپنی بڑائی کو قربان کر نبی کی دعوت پر لبیک کہتے تھے ؛ لیکن ابتداءً ان کی تعداد بہت کم ہوتی تھی ، جو لوگ معمولی سمجھے جاتے ان کو دعوتِ حق قبول کرنے میں کوئی عار نہ ہوتی ، وہ پہل کرتے اور پھر ظلم و جور کی بھٹی میں تپائے بھی جاتے ، غالباً یہ بھی نظام غیبی کے تحت ہوتا ؛ کہ چوں کہ وہ پہلے سے مظلوم و ستم رسیدہ ہوتے ؛ اس لئے ان کے لئے ظلم و زیادتی اور تحقیر و تذلیل کا رویہ کسی درجہ میں قابل تحمل ہوتا ۔

دعوت حق کو قبول کرنے میں سردارانِ قوم ہی اصل میں رکاوٹ بنتے ہیں، اہلِ مکہ نے آپ ﷺکی کس قدر مخالفت کی، اس لئے نظامِ غیبی کے تحت غزوۂ بدر میں تمام سرداران مکہ جمع کر دیئے گئے ، اور وہ سب بدر میں ہلاک ہوئے ، اسی کو رسول اللہ ﷺنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے سامنے ڈال دیئے ہیں ، بدر کے بعد اہلِ مکہ کے دو ہی قابلِ ذکر سردار باقی رہ گئے ، ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن اُمیہ ، اور ان دونوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا ، مدینہ میں جو اسلام کی اشاعت آسانی کے ساتھ اورتیز رفتاری سے ہوئی ، تو اس کی ایک وجہ وہی تھی ، جس کی طرف حضرت عائشہؓ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آپ ﷺکی بعثت سے پہلے اوس و خزرج کی خانہ جنگی میں عبد اللہ بن ابی کے علاوہ صف ِاوّل کے تمام قائدین لقمۂ اجل بن چکے تھے ؛ اس لئے یہاں اسلام کے خلاف مزاحمت کرنے والی کوئی منظم طاقت موجود نہیں تھی ، عبد اللہ بن ابی نے اپنے اندرونی نفاق کے ذریعہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ؛ لیکن انصارِ مدینہ پر نشۂ ایمانی چڑھ چکا تھاکہ وہ کسی اور چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، گویا خدا کے غیبی نظام کے تحت بعثت محمدی سے پہلے ہی سرداران مدینہ رخصت ہو چکے تھے اور مدینہ کی سرزمین اسلام کے لئے نرم و ہموار ہو چکی تھی ۔

یہی صورتِ حال مختلف انبیاء کرام کے ساتھ پیش آئی ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو حق کی طرف بلایا تو یہی طبقہ ان کی دعوت پر ایمان لایا ، جو لوگ ان کے معاند تھے ، وہ کہا کرتے تھے کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لائیں ؛ حالاں کہ نیچ لوگ آپ پر ایمان لائے ہیں ؟ قَالُوا اَنُؤْمِنُ لَـکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ‘‘ (الشعراء:۱۱۱) شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے ’’ ارذلون ‘‘ کا ترجمہ ’’ کمینہ ‘‘ سے کیا ہے ، اس تعبیر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اس طبقہ کو کتنی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ، قرآن نے ایک اور مقام پر قومِ نوح کی اس تمسخر آمیز گفتگو کا ذکر کیا ہے ، کہ سرداران قوم نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا کہ ہم کو تو آپ ہم ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہیں اورآپ کی اتباع ان لوگوں نے کی ہے جو ہم میں نیچ لوگ ہیں : وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا ( ہود:۲۷)

ہم جس ملک میں رہتے ہیں ، اس میں کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو ’’ ملأ قوم‘‘ بنا رکھا ہے ، اور لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بسا دیا ہے کہ وہ فرمانروائی اور حکمرانی ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؛ کیوں کہ ان کی پیدائش خدا کے سر اور بازؤں سے ہوئی ہے ، وہ خدا اور بندہ کے درمیان واسطہ ہیں ، ایک بہت بڑی قوم کو انھوں نے پیدا ئشی غلام بنا رکھا ہے ، اور ان کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھا دی ہے کہ وہ نیچ اور کم تر ہیں ، وہ دوسروں کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، پہلا طبقہ برہمنوں اور اونچی ذات کے لوگوں کا ہے جن کا عددی تناسب بہت معمولی ہے ؛ لیکن وہ ملک میں ۶۵ فیصد سے بھی زیادہ کلیدی عہدوں پر قابض ہیں اور اقتدار کے دروبام پر ان کا ایسا قبضہ ہے کہ کوئی پتہ ان کی مرضی و منشاء کے بغیر حرکت نہیں کرپاتا، یہی قرآن کی اصطلاح میں اس ملک کے ملا ٔقوم ہیں ، جن کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جب تک حالات کے ہاتھوں مجبور نہ ہو جائیں عدل و انصاف اور سچائی کے سامنے سر خمیدہ نہیں ہوتے ۔

دوسرا طبقہ ’’ دلت ‘‘ کا ہے ، یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں ’’ارا ذل قوم‘‘ کی تعبیر آئی ہے کہ لوگ انھیں نیچ ، گنوار اور کم تر خیال کیا کرتے تھے ، ہندوستان میں یہ قوم ہزاروں سال سے ظلم و جور کی چکی میں پیسی جارہی ہے اور انتہائی غیر انسانی رویہ کا شکار ہے ، اب جب کہ سیاسی مصلحتوں کے تحت کسی قدر ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے ، انھیں تحفظات دیئے جار ہے ہیں ، الیکشن کے موقع پر انھیں منانے کی کوشش کی جاتی ہے ، پھر بھی سماجی زندگی میں وہ ایک باعزت قوم کا مقام حاصل کرنے میں ناکام ہیں ، اگر وہ گھڑے کو ہاتھ لگادیں تو اس پانی کو پھینک دیا جاتا ہے ، وہ کسی برہمن کے دوش بدوش بیٹھ کر کھانہیں سکتے ، اس ملک میں اعلیٰ ترین انتظامی قابلیت رکھنے کے باوجود جگ جیون رام ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکے ؛ کیوں کہ وہ اچھوت قوم سے تعلق رکھتے تھے ، ہندو قوم میں عقیدہ کے درجہ میں یہ تصور موجود ہے کہ یہ لوگ خدا کے پاؤں سے پیدا کئے گئے ہیں ، ان کا کام ہی اونچی ذات کے لوگوں کی خدمت ہے ، اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ چوں کہ آپ بہت ہی حقیر اور نیچ ہیں ، اس لئے میں آپ کو فلاں سہولت دے رہا ہوں ، تو بتائیے کہ یہ بجائے خود کس درجہ رسوا کن اور ذلت آمیز بات ہے!

جو لوگ مظلوم ، دبے کچلے ، اور دبائے ہوئے ہوں ، ان کی مدد کرنا مسلمانو ںکے لئے صرف سیاسی مصلحت نہیں ؛بلکہ دینی اور ملی فریضہ ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان لوگوں کے واسطے نہیں لڑتے ، جو مغلوب ہیں ، مرد ، عورتیں اور بچے ۔ (النساء:۷۵)

قرآن نے یہاں مغلوبوں کے لئے ’’ مستضعفین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جن کو دبایا گیا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ دلت بھی اس ملک کے ’’ مستضعفین‘‘ ہیں تو شاید بے جانہ ہو ؛ اس لئے ان کو ساتھ لینا اور اس ملک کے ظالموں کو مشترک تدبیر کے ذریعہ ظلم سے باز رکھنا ہمارا اسلامی فریضہ ہے ، بد قسمتی سے ہم نے اس اہم کام کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی ؛ بلکہ ہندوؤں کی اونچی برادری سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ کم و بیش وہی رویہ اختیار کیا ؛ بلکہ ہم نے خود اپنی قوم میں بھی مختلف دیواریں کھڑی کرلیں ، بعض اوقات یہ دیواریں اتنی اونچی ہو جاتی ہیں کہ پاس کا آدمی نظر نہیں آتا ۔

اس صورت حال نے ہمیں دوہرا نقصان پہنچایا ہے ، ایک تو اس ملک میں دعوت اسلام کا کام نہ ہونے کے درجہ میں ہے ، اگر ہم اس طبقہ سے قریب ہوتے تو دعوت کے وسیع مواقع پیدا ہو سکتے تھے ، ہر قوم میں دعوتِ حق کی فطری ترتیب یہی رہی ہے ، کہ پہلے ایسے مستضعفین نے اس پر لبیک کہا ہے ، پھر جب ان کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا تو بالآخر جو طبقہ انھیں نیچ گردانتا تھا ، اس کے لئے بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے کے سوا چارہ نہیں رہا ، پہلے مکہ کے غلاموں نے اسلام قبول کیا ، پھر اہلِ مدینہ نے ، آخر ایک وقت ایسا آیا کہ سردارانِ مکہ بھی اسلام لانے پر مجبور ہوئے ۔

اسلام کی بنیادی تعلیم وحدتِ الہ اور وحدتِ انسانیت ہے ، یعنی خدا ایک ہے اور تمام انسانیت ایک ہے ، کالے ، گورے ، عرب ، عجم کی کوئی تفریق نہیں ، ایک ہی مسجد میں سب کو خدا کی عبادت کرنی ہے ، جو شخص دین سے زیادہ واقف اور عمل کے اعتبار سے زیادہ صاحبِ تقویٰ ہو ، وہ نماز میں امام ہوگا ، خواہ کسی خاندان کا ہو ، اور اس کی چمڑی کا رنگ کیسا بھی ہو ، انسانوں کا کوئی طبقہ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ نہیں ؛ بلکہ ہر انسان براہِ راست خدا سے مانگتا اورخدا سے پاتا ہے ، یہ انسانی مساوات کا تصور اتنا فطری اور مبنی بر انصاف ہے کہ جن قوموں کو نیچ سمجھا جاتا ہے وہ اس کو اپنے لئے بہت بڑی رحمت باور کرتی ہیں ، اگر اسلام کے اس عظیم اُصولِ زندگی کو ان محروم و مظلوم لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس سے متاثر نہیں ہوں ، اور اس ابر ِرحمت کے سایہ میں آنے سے انکار کریں ، مگر افسوس ، اور صد ہزار افسوس ! کہ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس کام کی طرف توجہ نہیں دی ۔

اس سے دوسرا نقصان سیاسی ہوا ، آج سیاسی اعتبار سے ہم خود اچھوت ہیں ، ہماری آبادی کے تناسب اور قومی اداروں میں ہماری تعداد کے درمیان کوئی نسبت نہیں ، اگر مسلمان اس طبقہ کو اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہو جاتے ، جن کی تعداد ملک میں ساٹھ ، پینسٹھ فیصد سے کم نہیں ، تو اگر ہم بادشاہ نہیں ہوتے تو بادشاہ گر ضرور ہوتے ، جو لوگ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کراتے ہیں اور فسادات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، وہ دلتوں ہی کو اپنا ہتھیار اور آلۂ کار بناتے ہیں ، اگر ہم انہیں قریب کر لیں تو ہم ان کے ہاتھ سے ان کے ہتھیار چھیننے میں کامیاب ہو جائیں ۔

وقت ابھی بھی گیا نہیں ہے ، اور ہمیں اس پہلو پر پوری گہرائی کے ساتھ سونچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے ، موجودہ حالات میں ایک منصوبہ کے ساتھ اس طبقہ کو قریب کرنا چاہئے ، مسلمان قائدین اور سیاسی تنظیموں کو چاہئے کہ دلت سیاسی و سماجی قائدین کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں ، انھیں قریب کریں ، اور ان کی ذہن سازی کریں ، یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے ! سماجی سطح پر بھی دلت طبقہ سے رابطہ استوار کرنا ضروری ہے ، مسلمان خوشی و غم کے مواقع پر ایسی تقریب رکھیں ، جن میں انھیں مدعو کریں ، شادی بیاہ کے موقع پر انھیں تحفے دیں ، مسلمانوں کے زیر ِانتظام اسکولوں میں انھیں داخلے دیا کریں ، اور جو ممکن ہو ان کے ساتھ رعایت کریں ، دعوتوں میں ان کے ساتھ کھائیں ، پئیں ، ان کو بھائی ، بہن ، چچا ، خالہ کہہ کر مخاطب کریں ، ایسے الفاظ کے ساتھ ان سے خطاب نہ کریں ، یا ان کا ذکر نہ کریں جن سے تذلیل و تحقیر کی بو آتی ہو ، موقع بموقع اسلام کی مساوات کی تعلیم کو ان کے سامنے رکھیں ، اگر ہم اپنے رویہ کو ان کے ساتھ درست کرلیں ، تو ان شاء اللہ وہ جلد اور بہت آسانی کے ساتھ آپ کی طرف راغب ہو جائیںگے ، ایک ایسی قوم جو انسان تسلیم کئے جانے کے لئے جد و جہد کر رہی ہے ، اس سے تھوڑی سی محبت بھی دل جیتنے کے لئے کافی ہے ، اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اس معاملہ کی اہمیت کو محسوس کریں اور ایک ٹھکرائی ہوئی قوم کو سینہ سے لگائیں ، اور انھیں محبت کی سوغات دیں ، اس میں ہماری جان و مال کی حفاظت ہے ، عزت و آبر وکا تحفظ ہے ، سیاسی حقوق کا تحفظ ہے اور سب سے بڑھ کر اس سے دعوت کے وسیع مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com