ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
مشہور زمانہ سچر کمیٹی کی رپورٹ ۲۰۰۵میں یہ ظاہر کر چکی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنی معاشی، اقتصادی ،تعلیمی اور سیاسی زوال کے انتہائی نچلے زمرے میں پہنچ چکے ہیں اور اب ان کی حالت دلتوں جیسے ہوچکی ہے یہ رپورٹ روز مرہ کی زندگی میں مبنی برحقیقت بھی دکھائی دیتی ہے ۔ اس رپورٹ کے بارے میں یہ حسن ظن بھی رکھنا چاہیے کہ جسٹس سچر نے دیانت داری کے ساتھ حالات کا زمینی جائزہ لینے کے بعد یہ رپورٹ پیش کی ہے لیکن عین ممکن ہے کہ حکومت وقت نے اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت یہ سوچا ہو کہ مسلمانوں کو اس قسم کی رپورٹ دکھا کر مزید قعر مایوسی میں دھکیلا جاسکتاہے ۔ اور ایسے حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں کہ مسلمانوں کا سواد اعظم اور قیادت اس رپورٹ کے پیش نظر قعر مذلت سے نکلنے کی سعی وتدبیر کرنے کی حکمت عملی پر غور کرنے کے بجائے اس کے مجرمین کو کوستی رہے اور مختلف سیاسی جماعتوںخصوصاً مسلمانوں کی ہمدرد کہلائی جانے والی جماعتوں سے شدت سے ساتھ یہ مطالبہ دہراتی رہیں کہ رپورٹ کی سفارشات کو جلد از جلد نافذ کیا جائے ۔اسی طرح رنگنا ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ بھی منظر پر آچکی ہے جس میں مسلمانوں کی سماجی پسماندگی کو بھی قبول کرلیا گیا ہے۔ اور اس سماجی پسماندگی کی بنیاد پر انہیں ۱۰فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے مسلمانوں کی قیاد ت نے اس رپور ٹ پر بھی مطالباتی سیاست کی اپنی روش کے عین مطابق اس کے نفاذ کے مطالبے میں جلسے جلوس ریلیاں اور جذباتی تقریروں کا بازار گرم کردیا لیکن حیر ت کی بات ہے کہ جس طرح سچر رپورٹ ملک کے مسلمانوں کے درمیان موضوع گفتگورہی اس طرح ۲۰۰۷ کی مشرا کمیشن رپورٹ پر زیادہ گفتگو نہیں کی گئی حالانکہ اس رپورٹ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ اس میں نہ صرف مسلمانوںکو پارلیمنٹ اور اسمبلی تک ریزرویشن دیئے جانے کی وہ سفارش کی گئی تھی جو آزادی سے قبل محمد علی جناح بھی کر چکے تھے بلکہ اس رپورٹ میں آرٹیکل ۳۴۱ کی دفعہ ۲ کے تحت دلتوں کا ریزرویشن صرف ہندؤوں کے لیے خاص رکھنے کی شرط کو بھی کالعدم قرار دینے کی سفارش کی تھی ۔ مگر مسلم قیاد ت نے ان سفارشات کو محض سرسری نظروں سے دیکھا زیادہ وایلا مچانے کی کوشش نہیں کی جبکہ سچر کمیٹی رپورٹ کے نفاذ کا مطالبہ آج ۱۱سال گذر جانے کے بعد بھی اسی شدت سے کیا جاتا رہا کہ آخر کار ان سفارشات پر عمل درآمد کی رپورٹ کے لیے مزید ایک کمیشن قائم کردیا گیا اور پروفیسر کندرا کی قیادت میں اس کمیشن نے بھی اعتراف کیا کہ اتنی ساری قابل عمل سفارشات سامنے آنے کے باوجود ان پر خاطر خواہ عمل نہیں ہوا۔ سچر کمیٹی رپورٹ اس سلسلے میں کوئی پہلی رپورٹ نہیں ہے اس سے قبل بھی ۱۹۸۳ میں جسٹس گوپال سنگھ رپورٹ اسی قسم کے نتائج پر مبنی ہے مگر نہ تب عمل ہوا نہ اب نئی رپورٹوں کو قابل عمل سمجھا گیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ امت جہاں کھڑی تھی نہ صرف کہ وہیں کھڑی ہے مگر اور بھی نچلے پائدان پر جا پہنچی ہے اب عالم یہ ہے کہ معاشی ،معاشرتی ، اخلاقی،دینی ، تعلیمی سطح زوال پذیر ہوجانے کے بعد سیاسی طورپر بھی حاشیہ پر کھڑی کر دی گئی ہے ملک کی موجودہ صورت حال میں عالم یہ ہو چکا ہے کہ مسلم ووٹ جو کبھی بادشاہ گر ہوا کرتا تھا اورسیاسی توازن قائم رکھتا تھا آج وہ بے حقیقت ہو کر بے اثر ہوچکا ہے تمام سیاسی جماعتیں جانتی ہے کہ بی جے پی کو ہرانے کے نام پر ملک کا یہ ۱۵فیصد ووٹ کوئی بھی زہر پینے کو آمادہ ہوجائے گا۔ اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے بھی تیار ہے حتیٰ کے ان رپورٹوں میں مذکور اپنی تعلیمی معاشی اورسماجی قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا ۔ محض نام نہاد سیکولر طاقتوں کو جتانے اور بی جے پی کو ہرانے کی حکمت عملی اپنی ملی شناخت، سماجی بہبود اور ملک کے دیگر عوام کے برابر کھڑا ہوجانے کی خواہش کو کچل چکی ہے ۔ ملک کے ارباب اقتدار مسلمانوں کی اس سوچ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ اس امت کے ساتھ چاہے جتنی بے انصافی ، حق تلفی اور بے عزتی کی جائے یہ حرف شکایت بلند نہ کرے گی ا اس کے اندر سے مقابلہ کی قوت ختم ہو چکی ہے اور اس کے پاس کوئی بھی ایسا دیگر سیاسی متبادل نہیں ہے جس کے ذریعے ان نام نہاد سیکولر طاقتوں کو کوئی نقصان پہنچایا جاسکے۔ اس حالت میں مسلمان بی جے پی کو تو کوئی نقصان پہنچا ہی نہیں سکتے خود سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ وہ جس طرح چاہیں ان کا ووٹ حاصل کر ہی لیں گی ۔ ہر قسم کے جواب دہی کے خوف سے مبرایہ سیاسی جماعتیں خود کو مقامی ،علاقائی اور صوبے ذاتی اقتدار میں رکھنے کیلئے بے دریغ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کر رہی ہے اور مرکز میں انتہائی چالاکی او رچابکدستی کے ساتھ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈا کو بروئے کار لانے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہیں ۔ یہی وہ بے خوفی ہے جس کے نتیجے میں آج تک ملک کے ۶۵ہزار فرقہ وارانہ فساد کے مجرمین کو کوئی سزا نہیں دی جاسکی۔ حالانکہ ممبئی فسادات کی شری کرشنا رپورٹ بھی موجو دہے ،بابری مسجد مقدمات میں ملزمین کے نام بھی سامنے ہیں، ملیانہ و ہاشم پورہ کے قتل عام کے مجر مین بھی طشت ازبام ہیں ۔ مرآداباد ، بھاگلپور، بھیونڈی، بنارس، علیگڑھ، احمد آباد اورآسام کے نیلی وغیرہ کے تمام مجرمین سامنے ہیں مگر ان میں سے کسی کوبھی کوئی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی محض چند لوگوں کو علامتی سزائیں دیئے جانے کے علاوہ کسی کا کچھ نہیں بگڑا ۔مزید برآں انہیں تما م مجرمین کو مستقبل میں بڑے بڑے انعامات سے سرفراز کیا گیا ،انکے عہدوں میں ترقیاں دی گئی، ان کی سیاسی تاج پوشی کی گئی ،اہم وزارتوں کے قلم دان سپرد کئے گئے، حتیٰ کہ گجرات فسادات کے مجرمین کو تو کھلے عام اعلان کر کے نہ صرف بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے سرفراز کیاگیا بلکہ ملک کی حکمراں سیاسی جماعت کے افسراعلیٰ اور وزارت عظمیٰ تک پہنچا دیا گیا اور کسی کے زبان سے اف تک نہ نکلی خود مسلمانوں کی قیادت اور عوام بھی نہ صرف یہ کہ خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ اکثر انہیں حضرات کی تائید میں رطب اللسان بھی ہوگئے ۔اگر امت کے ارباب حل وعقدحالات پر اس قدر صابر و شاکر ہوں اور حالات سے سمجھوتے اور مصلحت کوشی کے اس قدر مداح ہوں تو ظاہر ہے کہ مذکورہ بالاقسم کی تما م رپورٹوں کا مقدر طاق نسیا ں کی دھول کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود امت کا مقدر وائے ناکامی کے سوا اور کیا ہوسکتاہے ۔ یہاں ایک اہم سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف امت اس قدر پستی زوال اور کسمپر سی کا شکا رہو وہی دوسری جانب ملک کی بڑی مسلم تنظیمیں مستقل ترقی کی منازل طے کر تے ہوئے پا بعروج ہیں۔ دلی میں ان کے دفاتر عالی شان محلوں پر مشتمل ہیں اورسینکڑوں کروڑ روپے سالانہ بجٹ کے ساتھ یہ کام کرتی ہے ۔گویا امت کا گراف جس تیزی کے ساتھ نیچے گر رہا ہے امت کی تنظیموں اور قائدین کا گراف اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ اوپر اٹھ رہا ہے ۔ یہ عدم تناسب کیوں ہے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے کیا کوئی سرکاری یہ غیر سرکاری کمیشن کبھی قائم ہوگا ؟ کوئی جسٹس سچر، گوپال سنگھ، کیلکر ، مشرا، کندراکبھی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں گے یا خود ملت کے اندر سے بھی ایسے کچھ افراد یا تنظیمیں کھڑی ہوں گی جو اس سوال کا جواب حاصل کرسکیں ؟
نہ صرف یہ کہ آزادی کے قبل قائم ہوئی مسلم تنظیموں نے گذشتہ ۷۰سالوںمیں اپنا انفراسٹکچر بے تحاشہ مضبوط کیا بلکہ آزادی کے بعد قائم شدہ تنظیمیں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں ۔ملک کی کچھ نامور تنظیمیں تو قائم ہی اس بنیاد پر کی گئی کہ ان کے بانیان کے پاس ذرائع و وسائل کی بہتات تھی ۔ اس بنیاد پر قائم تنظیموں نے تجارتی اصولوں کی بنیا دپر اپنے وسائل کو انویسٹ کرکے انہیں فروغ دیا او خوب منافع کمایا ۔نئی دہلی کے علاوہ ملک کی ریاستی راجدھانیوں میں اہم و مرکز ی مقامات پر ذاتی عمارتیں خرید کر ریاستی شاخوں کے دفاتر قائم کئے گئے بڑی بڑی معقول تنخواہوں پر ان دفاتر میں کہیں اہل کہیں نا اہل ملازمین رکھے گئے صدر دفاتر کی توسیع ،نئے نئے شعبہ جات کی بنیاد رکھی گئی اخبارات و رسائل کے اجراء کرکے اپنی ملکیتوں میں رکھے گئے حد یہ ہے کہ اگر کوئی تنظیم غیر نظریاتی اور محض ذاتی اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ بھی گئی تو دوسرے دھڑے نے بھی ویسےہی عالیشان دفاتر اور شعبوں کے لیے پہلے سے بھی زیادہ سرمایہ حاصل کرلیا ا ن تنظیموں سے وابستہ مرکزی عہدیداران کے بے تحاشہ وسائل اپنی جگہ مگر ان سے وابستہ دوسری اور تیسری صف کے عہدیداران او رذمہ داران کے وسائل بھی شاہانہ نوعیت کے ہی ہیں ۔ ان میں سے کوئی لیڈر یا عالم دین رفیق سفر بلکہ رفیقان سفر کے بغیر پابرکاب نہیں ہوتا اور یہ پورا قافلہ ہوائی سفرمیں ہی یقین رکھتا ہے۔ ان کے اکابرین اپنے جلومیں مجمع لیکر چلنے کے قائل ہیں ۔ اس کے لیے چاہے جتنا بھی خرچ کرنا پڑے۔ کانفرنسیں ،سیمینار ، میٹنگیں ، روزہ افطاراور عید کی دعوتوں میں ہزاروں مہمان پانچ ستارہ ہوٹلوں میںضیافت اڑاتے ہیں ۔ ان کی عوامی ریلیوں میں لاکھوں مسلمان شرکت کے لیے بلائے جاتے ہیں اور ایک ریلی میں کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں حتی ٰ کے ریاستی اور ضلع سطح کی ریلیوں پر بھی بے دریغ پیسہ بہایا جاتاہے اور نتیجہ چند تجاویز کے سواکچھ برآمد نہیں ہوتا ان سے یہ پوچھنے کی جرأت ملک میں کوئی نہیں کرسکتا کہ ان تجاویز پر کیا عمل در آمد ہوا اوران سے امت کے کون سے معاملات حل ہوگئے ۔امت کے عمومی معاملات پر سوال کرنے والے لوگ معتوب اور بدتمیز گردانے جاتے ہیں ۔ مطلق العنان یہ قیادت او ر تنظیمیں بزعم خود اپنا دائرہ کار منتخب کئے بیٹھی ہیں او رکسی بھی معاملے میں امت کے سود اعظم اور اجماع کی پرواہ کئے بغیر اپنی انانیت پر محمول فیصلے کرتی ہے ۔ اکثر تنظیموں کی صدارتیں اور عہدے بھی ایک خاندان کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے ہیں گویا شرف و صلاحیت تمام ملک میں بس چند ہی خاندانوں کی وراثت میں قید ہو کر رہ گئے ہیں اور امت مسلمہ ہند انہیں محدود کنبوں کی دست نگر بند کر رہ گئی ہے ۔ یہ تمام لوگ اس قدر محتاط اور زیرک ہیں کہ امت کے ہر مفاد پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں مگر اپنے تنظیمی مفادات سے بالاتر نہیں ہوسکتے ۔ ان حالات میں مسلمانان ہند کی بے لاگ، مخلص، فکر اندیش ،دور اندیش باخبر اور باحوصلہ قیادت کی توقع کرنا بے خوابی کے مریض کے خواب کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ مذکورہ تمام تنظیموں، قائدوں اماموں، جامع مسجدوں، مدرسوں، مکتبوںاور عالموں نے ہمیشہ ہی متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ غیر سیاسی ہیں ۔ لیکن مذکورہ کسی بھی ادارہ کے فرد کا گذر بسر سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران سے رابطہ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ۔ کوئی بھی ریاستی یا پارلیمانی الیکشن ان کے مشورے یا مبینہ فتوی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔ہر قسم کے سیاسی مطالعے اور خبر کے بغیر ،ملک میں جاری سیاسی جست خیز سے مکمل طورپر نابلد یہ حضرات مسلم ووٹران کو مشورہ دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں چاہے اس کا نتیجہ کتنا ہی ہلاکت خیز کیوں نہ ثابت ہو۔ ان ہی مذکورہ افراد کا مفروضہ یہ ہے کہ بی جے پی ہی ملک کی تنہا فسطائی او رفرقہ پرست طاقت ہے باقی سب سیکولر ہیں اورمسلمانوں کو ہر قیمت پر انہیں سیکولر سیاسی طاقتوں کو کامیاب بنانا ہے چاہے اس کے نتیجہ میں پورے امت کو خودکشی کرنے پر مجبور ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ امت کی اس سیاسی مزاج سازی کا ہی ساخشانہ ہے کہ آج پورا مسلم ووٹ سیاسی حاشیے پر کھڑا ہے۔ بے وزن او ربے وقعت ہے۔ اور ان کے مسائل کے تئیں کوئی حکومت سنجیدہ نہیں ہوتی ۔یہ تنظیمیں دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کے مقدمے لڑنے کا کار نمایاں تو انجام دیتی ہے مگر یہ اندھا دھند گرفتاریاں بند کرواسکیں یہ قوت ان میں نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ بحرحال کچھ نہ کچھ مسلم نوجوان ان واقعات میں ملوث ضرور ہوتے ہیں حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ اسی طرح ملک کے فساد زدگان کو جب بے گھر کرکے کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا ہے تو یہی تنظیمیں ملک اوربیرون ملک سے کروڑوں روپے کے چندے اکٹھا کرکے دور دراز علاقوںمیں چھوٹے چھوٹے مکانات بناکر ان مظلوموں کے سر پر چھت فراہم کردینے کا احسان تو فرماتی ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی یہ جرأت نہیں کہ متاثرین کو اپنے آبائی گھروں میں واپس پہنچا کر ان کی حفاظت کا تیقن مقامی حکومتوں سے لے سکیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ان متاثرین کے ہاتھوں میں سلم نما ان مکانوں کی چابیاں تھما کر بڑی بڑی تصویریں تو اخبارات میں چھپوالی جاتی ہیں مگر ان مکانوں کے کاغذات اور مالکانہ حقوق مکینوں کو نہیں دیئے جاتے ۔ ملکیت کے دستاویز تنظیموں کے سربراہان کے نام ہی رہتے ہیں ۔ ان میں نہ تو اخلاقی جرأت ہے کہ ملکیت مظلوموںمیں نام منتقل کریں اورنہ یہ سیاسی حوصلہ ہے کہ متاثرین کو اصل گھر وں میں واپس بھیج دیں۔ اس طرح یہ آر ایس ایس کے اس ایجنڈ ا کی تکمیل میں دانستہ یا غیر دانستہ مددگار بن جاتے ہیں جس کے تحت وہ مسلمانوں کی نسلی صفائی کی مہم چلارہی ہے ۔گویا اپنی ہی دولت اور وسائل کے ذریعہ ہم خود ہی اپنے مخالفین کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور مخلص و مصلح بھی بنے رہتے ہیں ۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کیمپوں میں پرورش پانے والی آئندہ نسلوں پر ہم کیا ظلم کر رہے ہیں۔ افسوس فسادات بھی بہترین سامان تجارت بن جاتے ہیں ۔ جبہ ودستار بھی محفوظ رہتی ہے حریف بھی درپردہ حلیف بن جاتاہے ۔ ہر قسم کی مراعات او رمنفعتیں بھی حاصل رہتی ہیں حکومت وقت بھی در گذر اور چشم پوشی سے کام لیتی ہے ایسے میں امت کا مستقبل کیا ہوگا یہ فکر سب کے لئے بس ایک خسارے کا سودا ہی ثابت ہو سکتی ہے ۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )