حوصلہ افزائی

محمد انعام الحق قاسمی

ریاض، مملکت سعودی عرب

یہ نفسِ بشری جسے اللہ تعالی نے پیدا کیاہے۔ اس میں بے پناہ پوشیدہ صلاحیتیں ، عظیم ذخائراور بے شمار مکاسب و فوائد ودیعت کی ہیں اسے اجاگر کرنے کیلئے کسی کی حوصلہ افزائی اور ترغیب کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ ہم اپنے خاندان اور بذات خود اپنے گھروں میں اپنے لخت جگر بیٹے اور بیٹیوں کے طرف سے مثبت اقدامات اور عظیم کارنامے دیکھتے ہیں خواہ ہو بہت کم مقدار میں ہوں آپ کو یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہیئے کہ یہ نسل اس وقت زرخیز زمین ہیں انہیں ہمیں حوصلہ افزائی و ترغیب کے محرکات سے ان کی سینچائی کرنی ہے۔ اگر ہمارے جگرگوشے روزانہ کوئی عام کام ہی انجام دیتے ہیں تو جو شکلاً ایجابی ہوتو آپ انہیں ہمت افزائی کے کلمات سے نوازیئے تاکہ وہ خود اپنے سلوک و عادات میں ایجابی بنیں کیونکہ ان کے نوجوان جذبات کیلئے یہ سلوک بہت محبوب ہے۔ یہ حوصلہ افزائی مختلف انواع کے ہو سکتے ہیں، یہ تعریفی کلمات ہو سکتے ہیں، یہ مسکراہٹ ہو سکتي ہے، یہ تحفہ ہو سکتا ہے، یہ پک نک ہو سکتي ہے وغیرہ۔ بیوی کا اپنے شوہر کا شکریہ ادا کرنا اور گھر اور خاندان کے کسی بھی کام کی تیاری کے وقت اس میں ہاتھ بٹانا یا اس کے لیے دعائیں دینا، یہ گھر کی مثبت تعمیر میں حوصلہ کن محرکات میں سے ہیں اور جب شوہر اچھی خدمت انجام دہی یا لذیذ کھانا پکانے پر اپنی بیوی کو پیار بھری نظر سے دیکھتا ہے یا اسکی تعریف کرتا ہے تو اسکی ہمت افزائی و دلجوئی کرتا ہے۔ اوراسی طرح اولاد کا اپنے والدین کیلئے انکی پرورش و جانفشانی اور انتھک کاوشوں کے بدلے میں دعائیہ کلمات کہنا ان کا شکریہ اداء کرنا ، ان کے لیے حوصلہ افزائی ہے، اس طرح کے جذبات کے تبادلے کی وجہ سے اس خاندان میں دن بدن ترقی ہوتی ہے اوران کے باہم رشتے بہت مضبوط رہتے ہیں۔

ایک گھر کے والدین ایک ماہ کیلئے اپنی اولاد کی ایجابیات و سلبیات کی بہت قریب سے نوٹ کرنا شروع کردیں۔ انکی سلبیات پر بہت ہی نرمی سے درگذر کرکے اسے دوبارہ نہ دہرانے کی نصیحت کریں اور انکی چھوٹی چھوٹی ایجابیات و مکاسب پر ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ مزید براں ان کے مکاسب کی خوب ترغیب اور ہمت افزائی کریں تو یہ طریقہ کار مستقبل میں ان جگرگوشوں کے بڑے کارنامے انجام دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ چونکہ ان سلوکیات و تصرفات کا ان کی زندگی میں پہلے کوئی وجود نہیں تھا لیکن اب انکی زندگی میں یہی محرکات و تحفیزات نئی روح پھونکنے کا کام کرے گی ۔

تشجیعی و حوصلہ افزائی کے شواہد و امثلہ آئے دن سننے و دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک معلم اپنے کسی طالب علم کي کاپی چیک کررہا تھا تو جواب کی تصحیح کرتے وقت معلم نے طالب علم کی کاپی پر لکھ دیاکہ ” میں آپ کو ایک اچھے ڈاکٹر کے طور پر دیکھنا چاہوں گا” یہ جملہ طالب علم کے ذہن میں نقش ہوگیا، اس تشجیعی محرکات نے ایسا اثر دکھایا کہ طالب علم نے اللہ تعالی کی توفیق پھراسکی اپنی بے انتہاء و انتھک محنت کی بدولت ایک ماہر و حاذق ڈاکٹربن گیا۔ ایک دوسری مثال یہ ہے کہ کسی نے ایک قاری صاحب کو اچھی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، تو اس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے قرآن حفظ کرلیا ہے ، تو جواب ملا ” نہیں ” تو اس شخص نے کہا کہ کتنی پیاری و میٹھی آواز ہے کاش کہ آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے حافظ بھی ہوتے۔ اس تحفیزی و تشجیعی کلمات نے ایسا جذبہ پیدا کیا کہ وہ صرف 18 ماہ میں حافظ قرآن بن گیا۔

مسلسل حوصلہ افزائی کیلئے والدین یا رشتہ دار ایک مثبت ہمت افزا لقب سے پکارنے لگیں جواس بچہ کی لیاقت و صلاحیت سے مناسبت رکھتا ہے جیسے “ڈاکٹر ، انجینئر یا خطیب وغیرہ” تو بسا اوقات سننے میں آیاہے جب بچپن میں بچوں کو اچھے القاب سے پکارا گیا تو انہوں نے اپنی جانفشانی اور کوششوں کو بروئے کار لاکر ایسا ہی بن کر دکھلا دیا جیساکہ انہیں بچپن میں پکارا جاتاتھا۔ خبردار کبھی بھی یہ القاب ان کی کھلًی یا مذاق اڑانے کیلئے استعمال نہ کئے جائیں۔ ورنہ اسکے نتائج بڑے بھیانک دیکھنے میں آئے ہیں۔ بلکہ بچے بضد ہوگئے وے مستقبل میں خاندان کیلئے ذلت و رسوائی کا سامان بن گئے۔ تشجیع و ہمت افزائی کیلئے قطعاً ایسے سلبی کلمات نہ استعال کئے جائیں جو اسکی شخصیت اور احترام ذاتی کی دھجیاں اڑادے. ایک طالب کا بیان ہے کہ میں ایک دن اسکول سے نکل رہاتھا تو ایک بڑی مال بردار گاڑی میرے پاس سے گذری تو اس گاڑی کے ڈرائیور نے ہارن بجایا اسی وقت ایک بوڑھا آدمی میرے طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ یا فلان کیا یہی تمہارا مستقبل ہے تم ہمیشہ پیدل ہی چلتے رہوگے اس حوصلہ شکن کلمات نے ایسا انفعال پیدا کیا کہ اس نے تعلیم ترک کردی۔ بعض لوگ بہت ہی حساس اور منفعل ہوتے ہیں ان کو کبھی بھی سخریہ اورمذاق بھرے لہجے میں بات نہ كي جائے. یہ کلمات ان کے عزائم اور ذاتی ارادے کو منہدم کردیتے ہیں۔

میرے پیارے بھائیو، حوصلہ افزائی و تشجیعی افعال کی عجیب بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ مثبت رویئے جنم لیتے ہیں ۔ بلکہ یہ ہماری بہت ساری کوششوں کو کم کردیتے ہیں، اور اگر والد نے حوصلہ افزائی اور ترغیب کے لیے اپنی ماہانہ آمدنی میں سے کوئی چیز مخصوص کررکھی ہے، تو یہ اچھی بات ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنے بچوں میں اسکے ذریعہ اچھی اور شاندار صفات پیدا کرسکتاہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انکی نگرانی بھی نہایت اہم ہے تاکہ اس کا کہیں وہ غلط استعمال نہ کرنے لگیں۔اگر آپ ان خاندانوں کا جن میں یہ حوصلہ افزائی جیسے محمود صفات پائے جاتے ہیں ایسے خاندانوں کا جن میں یہ صفات معدوم ہیں موازنہ و مقارنہ کریں تو بچوں کی ترقی اور گھر کے ماحول میں آسمان و زمین ، مشرق و مغرب کا بعد ملے گا۔ آپ دیکھیں گے جو خاندان ہمت افزائی کی صفت سے متصف ہیں وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کے راستے پر گامزن ہیں اور برعکس ان خاندانوں کے جہاں ہمت شکنی سب و شتم موجود ہیں ان میں تخلف اور پستی پائی جاتی ہے۔

موجودہ دور میں اکثر لوگ شخصیتی بحران کے شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ محفلوں میں بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں اور اپنے اندر حوصلے اور اعتماد کی کمی پاتے ہیں اس کی ایک وجہ حوصلہ افزائی کی کمی ہے آج ہم میں سے اکثر لوگ آپس میں طنز تو بہت کرتے ہیں لیکن حوصلہ افزائی بہت کم اسی طرح چاپلوسی اور بے جا تعریف تو بہت کرتے ہیں لیکن صحیح رہنمائی بہت کم۔حوصلہ افزائی اور دوسروں کے تئیں ہمدردی کے تعلق سے کس قدر بخیل ثابت ہو رہے ہیں ہم لوگ کہ دوسروں کی ہمت بڑھانے اور ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں، وقت ہی نہیں، اور سب سے بڑی چیز جذبہ ہی نہیں حالانکہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم سب کو اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی سراہے، ہمارے حوصلے کو بڑھائے، ہمارے جذبے کو ہماری ہمت کے تئیں داد پیش کرے۔ اسے انرجی دے اسے صحیح سمت دے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم اس پار کھڑے ہیں تو ہم ہی اُس پار بھی ہیں ہمیں اگر کسی کے حوصلوں کی ضرورت ہے تو کسی کو ہمارے حوصلوں کی بھی ضرورت ہے ہمیں اس مثبت سوچ کو بیدار کرنا ہوگا پروان چڑھانا ہوگا کہ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، محبت، خلوص، اور سب سے بڑی چیز ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں یہ جوڑ اور یہ اتحاد دلی وابستگی پر ہونا چاہئے کیونکہ اگر ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہ ہوں ایک دوسرے کے تعلق سے ہمدرد نہ ہوں تو ہماری انفرادی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے

اگر ہم بہت ذہین، قابل،اور ہوشیار ہوں لیکن ایک دوسرے کو مہمیز دینے والے نہ ہوں،ایک دوسرے کے خیر خواہ نہ ہوں بلکہ تنہا بگوش اور خود میں مگن ہوں تو ایسی صورت میں ہماری حیثیت بارش کی ایک بوند سے زیادہ کی نہیں رہ جائے گی۔

ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کے لیے نفع بخش بنیں انکی صحیح رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے والے بنیں ہمدرد بنیں مخلص بنیں خیرخواہ بنیں۔ آج لوگوں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں پکڑ کے کھینچنے کو بہتر سمجھتے ہیں دوسرے کو طنز کرنے اور اس کا مذاق اڑانے کو ہی قابلیت سمجھتے ہیں۔

اس سوچ کو اس فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو یہ دیکھانے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے اور ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی کا جذبہ رکھنے سے کیسے مثبت اور اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔

     دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں انفرادی طور پر اپنے آپ کو اتنا مضبوط کرنا چاہیے کہ ہمیں دوسروں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہی نہ پڑے ہم اپنی رفتار، اپنی سمت خود ہی متعین کریں۔ ہمارے اندر وہ جذبہ ہونا چاہیے جو کسی باہری حوصلے کا محتاج نہ ہو ہم اپنے زخم خود ہی بھریں اور اپنی انرجی خود ہی بنیں اور اس فلسفے کو بھی سمجھیں کہ انسان زمین پر گرتا ہے تو زمین کا ہی سہارا لے کر اٹھتا ہے۔

     مختصر یہ کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی اگر ان دونوں پہلوؤں کو سمیٹ لے کہ ہم انفرادی طور پر اپنی فکر اور اپنے مقصد میں کسی دوسرے کی حوصلہ افزائی کے محتاج نہ ہوں اور اجتماعی طور پر ہم اپنے اوپر اس ذمه داری کو عائد کرلیں کہ ہم اپنے متعلقین اور احباب کی صحیح رہنمائی کریں گے اور ضرور کریں گے تو ہم ایسے زندہ اور متحرک سماج کی تشکیل کر سکتے جو سسکتی اور کراہتی انسانیت کے درد کا مداوا بن سکے۔

======:::=====

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com