پردہ کیوں ضروری ہے؟

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

مغربی تہذیب جو اخلاق ، شرافت اور حیا سے بالکل آزاد ہو چکی ہے ، وہ بجائے اپنی بے حیائی پر شرمسار ہونے کے مشرقی اور مذہبی اقدار و روایات کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ، جیسے پاگل خانہ میں ایک صحت مند آدمی پہنچ جائے ، تو وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے گا اور سارے پاگل سمجھیں گے کہ یہی شخص بیمار ہے ، اسی طرح بے حیائی کے غلبہ کی اس فضا میں جو لوگ شرم و حیا اور مذہبی اور اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں وہ اجنبیِ شہر نظر آنے لگتے ہیں ؛ لیکن اس سے سچائی بدل نہیں سکتی ، حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پردہ فطرت کی آواز ہے ، یہ مہذب معاشرہ کی علامت ہے ، یہ مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کا حصہ ہے اور خود ہندو روایات خواتین کے لیے پردہ کی قائل رہی ہیں ، یہ عورتوں کی تحقیر یا اُن کی اہانت نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم و ترقی میں رکاوٹ ہے ۔

خدا کا نظام یہ ہے کہ جو چیز اہم بھی ہوتی ہے اور نازک بھی ، اسے حفاظتی حصار میں رکھا جاتا ہے ، انسان کے ہاتھ پاؤں پر کوئی حصار نہیں رکھا گیا ، لیکن دماغ کو سخت ہڈیوں والی کھوپڑی کے اندر رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تحفظ ہو سکے ، دل کی جگہ سینہ کی لچک دار ہڈیوں کے بیچ رکھی گئی ؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی حفاظت ہو سکے ، آنکھوں پر پلکوں کا پہرا بیٹھا یا گیا ، یہ ان اعضاء کی تحقیر ہے یا ان کی حفاظت ؛ بلکہ ان کا اعزاز ؟ —- نباتات ہی کو دیکھئے ، اگر آم پر دبیز چھلکوں کا لباس نہ ہوتا ، تو کیا مکھیوں اور بھڑوں سے بچ کر وہ انسانوں کے ہاتھ آسکتا ؟ اگر چاول اور گیہوں کے دانوں پر ان کی حفاظت کے لیے چھلکے نہ ہوتے ، تو انسان انہیں اپنی خوراک بنا بھی سکتا؟ خود انسانی معاشرہ میں دیکھئے ملک کا ایک عام شہری کھلے عام ہر جگہ آمد و رفت کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ ہے ، نہ اس کی رہائش گاہ پر پہرہ دار ہیں ۔

مردوں اور عورتوں میں عورتیں حفاظت کی زیادہ محتاج ہیں ، خدا نے ان کو مردوں کے لیے وجہ کشش بنایا ہے ، اسی لیے ان کی تراش و خراش میں حسن کاری اور لطافت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے ، اور لطافت ’’ نزاکت ‘‘ کو چاہتی ہیں ؛اسی لیے بھینس اور بیل تو لطافت سے خالی ہیں ، مگر خدا نے ہرن کو نازک اندام اور سبک خرام بنایا ہے ، عورتوں کے اس تخلیقی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حفاظت کی زیادہ محتاج ہوتی ہیں ، اگر کسی کا لڑکا شہر جائے ، اسے چار بجے شام کو آجانا چاہیے تھا ؛ لیکن وہ رات کے دس بجے لوٹے ، تو اس سے گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی ؛ لیکن اگر یہی واقعہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آئے ، تو دل کا قرار چھِن جاتا ہے ، اور ماں باپ کی کروٹیں بے سکون ہو جاتی ہیں ، اسی کو دیکھئے کہ پوری دنیا میں اور ہندوستان میں بھی مردوں اور عورتوں کے عددی تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ، خدا نے ان دونوں صنفوں کو ایک توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ؛ تاکہ دونوں طبقات کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور پوری دنیا میں سو سال سے زیادہ عرصہ سے جمہوریت سکۂ رائج الوقت بنی ہوئی ہے ، جس کا ایک نعرہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینا بھی ہے ؛ لیکن اس کے باوجود آج بھی عورتیں حقوق مانگتی ہیں اور مرد انہیں حقوق و اختیارات دیتے ہیں ، یہ فرق کیوں ہے ؟ کیوں امریکہ و روس میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی اور یورپ میں مارگریٹ تھیچر کے علاوہ کوئی خاتون وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں پہنچ سکی ؟، یہ ظلم و حق تلفی کا معاملہ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ قانونِ فطرت کا فیصلہ ہے ، قدرت نے خود دونوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا ہے اور صلاحیتوں کے لحاظ سے دائرۂ کار متعین کیا ہے ۔

پردہ بھی اسی فرق کا ایک حصہ ہے ، جانور بھی کھاتے پیتے ہیں ، اور شہوانی جذبات رکھتے ہیں ؛ لیکن ان کی فطرت لباس کے تصور سے عاری ہے ، انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عریانیت سے بچائے اور لباس زیب تن کرے ، وہی فطرت اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلہ عورتیں زیادہ ڈھکی چھپی ہوں ، فرض کیجئے دو لڑکیاں راستہ سے گذر رہی ہیں ، ایک لڑکی کا لباس چست اور شوخ ہو ، اس کا سر کھلا ہو ، اس کے بازو کھلے ہوں ، اس کا پیٹ نگاہِ ہوس کو دعوت نظارہ دیتا ہو اور اس کا کسا ہوا لباس جسم کے نشیب و فراز کو نمایاں کرتا ہو ، دوسری لڑکی سر تا پا نقاب میں ہو یا کم سے کم ڈھیلا ڈھالا لباس اور سر پر دو پٹہ ہو ، تو اوباش قسم کے لڑکے ان میں سے کس کو چھیڑنے کی کوشش کریں گے ، ہوس ناک نگاہوں کا تیرکس کی طرف متوجہ ہوگا ، برائی کے جذبات ان میں سے کس کے تیئں دلوں میں کروٹ لیں گے ؟ یقینا بے پردہ لڑکی اس کا نشانہ بنے گی ، کچھ سالوں پہلے جب دہلی میں لڑکیوں کو چھیڑنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی کثرت ہوگئی تو پولیس کمشنر نے ہدایت جاری کی کہ لڑکیاں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر بازاروں اورتعلیم گاہوں میں نہ جائیں ؛ کیوں کہ اس سے جرم کی تحریک پیدا ہوتی ہے ، مگر افسوس کہ حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے اس معقول تجویز کے خلاف ایسا شور برپا کیا کہ تجویز واپس لینی پڑی ۔

پردہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات تو نہایت واضح ہیں ہی ، قرآن مجید نے عورتوں کو پورے جسم کے علاوہ چہرہ پر بھی گھونگھٹ ڈالنے کا حکم دیا ہے ، ( الأحزاب : ۵۹) خواتین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیچھے کی صف رکھی اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے ، ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۵۷۰، ۶۷۸) ان سے بنیادی طور پر ایسی ذمہ داریاں متعلق کی گئیں جو اندرون خانہ کی ہیں ، اور انہیں شمعِ محفل بننے کے بجائے گھر کی ملکہ بنایا گیا ؛ لیکن اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب میں بھی پردہ کا تصور رہا ہے ،بائبل میں کئی خواتین کا ذکر ملتا ہے جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں ؛ بلکہ بعض وہ ہیں جو پردے کی وجہ سے پہچانی نہیں گئیں ، آج بھی چرچوں میں حضرت مریم علیہا الصلاۃ و السلام کا جو فرضی مجسمہ بنایا جاتا ہے ، اس میں چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے ، حالانکہ رومن تہذیب اور اس کے بعد یورپ میں عورتوں کے عریاں مجسمے بنانے اور جسم کے ایک ایک نشیب و فراز اور خط وخال کو نمایاں کرنے کا رواج عام ہے ،گویا جو لوگ عریانیت اور بے پردگی کے مبلّغ ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کا تقدس باپردہ رہنے ہی میں ہے ۔

ہندو مذہب میں بھی قدیم عہد سے پردہ کی روایت رہی ہے ، سیتاجی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب راون نے انہیں اغوا کیا ، تو شری رام جی کے چھوٹے بھائی لکشمن جی انہیں پہچان بھی نہیں سکے ، اور انہوں نے کہا کہ ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود ہم نے کبھی اپنی بھاوج کی صورت نہیں دیکھی اورجب شری رام جی نے سیتا کے لیے ہار بھیجے ، تو سیتاجی مختلف عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں ؛ اس لیے لکشمن انہیں پہچاننے سے قاصر رہے ، یہ واقعات جن کا برادرانِ وطن کی کتابوں میں آج بھی ذکر موجود ہے ، واضح کرتے ہیں کہ ہندو مذہب میں عورتوں کی عفت و عصمت ، شرم و حیا اور پردہ و غیرہ کو کتنی اہمیت حاصل تھی ، یہی وجہ ہے کہ ہندو سماج میں اکثر اونچی ذات کی عورتیں پردہ کیا کرتی تھیں ، اب بھی مارواڑیوں ، کائستوں اور پرانی وضع کے حامل برہمن خاندانوں میں عورتوں کے باپردہ رہنے کا رواج ہے ، گو ان کے ہاں برقعہ کا استعمال نہیں ہوتا ؛ لیکن گھونگھٹ لٹکا کر رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے ۔

انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت پیدا کرنے اوراس اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تاریخ میں غلط واقعات کو سمویا جائے اور ان کو ان دونوں قوموں کے درمیان فاصلہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ خواتین کو مغل حملہ آوروں سے بچانے کے لیے پردہ کا رواج شروع ہوا ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے خاص کر عزت و آبرو کے معاملے میں زیادہ تر اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھا ہے ؛ کیوں کہ کسی بھی صورت میں غیر مسلم خواتین کی عزت و آبرو مسلمان کے لیے حلال نہیں ہو سکتی ، تقسیمِ ملک کے وقت مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کے اتنے واقعات پیش آئے کہ اگر آسمان خون کے آنسو بہاتا تب بھی بے جا نہ ہوتا ، مگر مسلم علاقوں میں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ شاذ و نادر ہی ایسے واقعات پیش آئے ؛ اس لیے یہ سراسر تہمت ،بہتان ، اپنی تاریخ سے ناآگہی اور دشمنوں کی گڑھی ہوئی کہانیوں پر یقین کرتا ہے ۔

پردہ نہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور نہ اس سے ترقی کے مواقع ختم ہوتے ہیں ،اسلامی تاریخ میں بہت سی باکمال خواتین پیدا ہوئی ہیں ، جن کے حالات پر کئی کئی جلدیں لکھی گئی ہیں ، اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ معلم ہو سکتی ہیں ، وہ طبیب ہو سکتی ہیں ، وہ شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرسکتی ہیں ، وہ کارِ افتاء انجام دے سکتی ہیں ، وہ حدود و قصاص کے علاوہ دوسرے مقدمات میں جج بن سکتی ہیں ، اگر مردوں اور عورتوں کے لیے جداگانہ ضروریات کا نظم کیا جائے ، الگ الگ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہوں ، الگ الگ ہاسپٹل ہوں ، عورتوں کے لیے مخصوص مارکیٹ ہوں ، و غیرہ ، تو خواتین کے لیے معاشی تگ و دو کے بھی اتنے مواقع پیدا ہو جائیں گے جو انہیں اِس وقت میسر نہیں ہیں اور وہ آزادانہ ماحول میں بہتر طور پر کام کرسکیں گی ، اگر ٹرین میں خواتین کے لیے مخصوص کوچ ہو سکتے ہیں ، بسوں میں ان کے لیے محفوظ سیٹیں ہو سکتی ہیں ، ہسپتالوں میں ان کے وارڈ الگ رکھے جاسکتے ہیں ، تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں خواتین کے لیے علیحدہ اور مستقل انتظام ہو تو اس میں کیا دشواری یا برائی ہے ؟

پس ، پردہ خواتین کو مجرمانہ ذہن سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کا مقصد ان کی حفاظت ہے ، اگر معاشرہ میں پردہ کا رواج ہو جائے اور خواتین کے لیے ایسا نظم کیا جائے کہ وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں مردوں سے الگ رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ، تو یہ عورتوں کو بے پردہ کرنے ، مخلوط ماحول میں انہیں تناؤ کا شکار بنانے اور مردوں کی نگاہِ ہوس کو ٹھنڈی کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے سے کہیں بہتر ہوگا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com