جمہوریت اور جمہوری قدروں کی پامالی

ڈاکٹر سیّد احمد قادری 

ہمارا ملک بھارت ایک بڑا جمہوری ملک ہے اور اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ بڑی جد و جہد کے بعد اور بہت ساری قربانیاں دے کر ہم نے اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا ہے ۔ آزادی کے بعد ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ دستور سازی کا تھا ۔ اس کے لئے طویل بحث و مباحثہ اور بڑے غور و خوض کے بعد ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو دستور بنا کر اسے قانونی شکل دی گئی اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو اسے نافذ کیا گیا ۔ اس نافذ کردہ دستور میں سات بنیادی حقوق دئے گئے، جو اس طرح ہیں ……
(۱) حق مساوات (۲) حق آزادی (۳) استحصال سے حفاظت کا حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) تعلیمی اور ثقافتی حقوق (۶) جائداد کے حقوق اور (۷) دستوری معاملات مین محافظت کے حقوق دئے گئے۔ گویا اس دستور میں سماجی ، معاشی اور سیا سی انصاف کے حقوق ملے۔ یعنی اظہار خیال ، یقین و اعتماد ، اعتقاد اور مذہب کی آزادی ملی۔ ہر شخص کو مساوی مقام حاصل ہوئے ۔ قوم کے اتحاد اور ہر فرد کی عزّت و توقیر کا سامان فراہم کرایا گیا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دستور ہند نے ہمیں جو جمہوری حقوق دئے ہیں ، ہم ان پر کتنا عمل کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جمہوری قدروں کے منافی ایسا کوئی ہمارا عمل تو نہیں ، جن سے یہ قدریں مجروح و پامال ہو ری ہیں۔
دستور ہند میں حق مساوات کو اولّیت حاصل ہے ، لیکن آج ہم نے اپنے ارد گرد ، ذات پات ، امیری غریبی اور اونچ نیچ کی اتنی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں کہ ہمارے اس عمل سے بلا شبہہ ہماری جمہوری قدر یں نہ صرف پامال ہو رہی ہیں ، بلکہ ہمیں شرمسار بھی کر رہی ہیں۔

آج گاؤں اور شہروں میں حقِ مساوات کا خوب خوب مزاق اڑایا جا رہا ہے۔ آج لوگ اتنے خانوں میں منقسم ہو گئے ہیں کہ گاندھی، نہرو اور آزاد کے خواب ہی نہیں بلکہ ان کے تفکرات اور شخصیت کو بھی ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے ۔ ہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ذات پات، اونچ نیچ اور امیری غریبی کی خلیج کو اپنے مفاد کے لئے سیاست داں بڑھاتے جا رہے ہیں ۔ جس کے سدّ باب کے لئے اگر سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا جا تا ہے تو مستقبل میں قوم و ملک کو بہت زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

اب دوسری جمہوری قدر یعنی حق آزادی کو دیکھیں ۔ اس دستور میں دی گئی مراعات بظاہر سبھوں کو میسر ہے ۔ لیکن عملی شکل اس کی بہت زیادہ خوش آئند نہیں بلکہ ان دنوں تو بہت ہی ہیبتناک ہو گئی ہے۔ جس طرح سے اس جمہوری حق کی پامالی ہو رہی ہے، وہ لمحۂ فکریہ ہے ۔ جس پر ہر مکتۂہ فکر کے دانشوروں کو بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن معاملہ تو یہ بھی ہے کہ اب تو دانشوروں کو بھی کسی لائق نہیں سمجھا جا رہا ہے ۔ کلبرگی، پنسارے وغیرہ کے سانحات ہمارے سامنے ہیں ۔ ردّ عمل اور احتجاج میں دانشوروں کے ذریعہ ایوارڈ لوٹائے جانے پر بھی کیسی کیسی سیاست ہوئے ۔ ایسے سارے منظر نامے ہمارے سامنے ہیں ۔ اس سے بیران ممالک میں جس طرح رسوایاں ہوئی ہیں ، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
دستور میں دئے گئے تیسرے حق یعنی’ استحصال سے حفاظت‘ ۔ یہ ایسا حق ہے جس سے اب تک بہت لوگ محروم ہیں ۔آج ہمارے سامنے مختلف قسم کے استحصال ظہور پزیر ہیں ۔ خواہ وہ مزدوروں کو کم اجرت کی شکل میں ہو، جہیز کی صورت میں ہو یا پھر ذات پات کا ، ظلم و استبداد ہو ، یہ تمام استحصال بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں ۔ ایسے استحصال سے حفاظت کی ذمّہ داری نہ صرف حکومت وقت کی ہے ، بلکہ سماجی تنظیموں کی بھی ہے ۔ بعض سیاسی اور سماجی تنظیمیں ان استحصال کے خلاف آواز ضرور بلند کر رہی ہیں ، لیکن کامیابی ابھی کوسوں دور ہے۔ یہ استحصا ل آج کے زمانے کی ایسی بدّت ہے ، جو عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمیں کامیابی اسی وقت مل سکتی ، جب حکومت سخت قدم اٹھائے اور سماجی برائیوں کو ختم کرنے کا عہد کرے۔
دستور کا چوتھا حق مذہبی آزادی کا ہے، اس میں ہر فرد کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کی عزت و احترام کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آج حالات اس کے ٹھیک بر عکس دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ دوسرے مذاہب کو برا کہنا ، ان مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کرنا ، نفرت انگیز نعرے لگانا ، آج سیاسی فیشن سا بنتا جا رہا ہے۔ اس سے جہاں منافرت ، بد دلی اور فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے ، وہیں ہماری تہذیبی اور یکجہتی کی روایات بھی بہت شدّت سے مجروح ہورہی ہیں ۔ ان امور پر نہایت سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم اور معمار ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر ایک بار کہا تھا …..
’’ ہم کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے ، ہم سب مادر وطن کے فرزند ہیں ۔ ہم عملاََ اور قولاََ تنگدلی اور مذہبی جنون کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔ ‘‘
بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی اپنی کئی تقاریر میں منافرت اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن عجب اتفاق ہے کہ ایسے مذہبی جنون دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔جس سے ہمارے جمہوری نظام کا بہت ہی اہم ستون کمزور ہو رہا ہے۔
دستور کا پانچواں حق ’ تعلیمی اور ثقافتی حق ‘ سے متعلق ہے۔ جس میں ہم نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ لیکن آج ایسا کئی طبقہ ہے جو ناخواندہ ہے ۔ خاص طور پر غر یب زدہ افراد کے بچّے، تعلیم سے بہت دور ہیں ، حالانکہ حکومت نے کافی مراعات دے رکھی ہیں ۔ عام طور پر غربت زدہ لوگوں کے بچے دس سال کی عمر میں ہی روزگار میں لگ جاتے ہیں ، جس سے کہ ان کے گھر والوں کی دو وقت کی روٹی نصیب ہو جائے۔ یہ بڑا المیہ ہے۔ اس پر بھی حکومت وقت کو خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔
دستور ہند نے اپنے عوام کو جائداد کا حق بھی دیا ہے ۔ جس سے لوگ مستفیذ ہو رہے ہیں ۔ لیکن موجودہ عہد میں ایسا طبقہ بڑی تیزی سے ابھر رہا ہے ، جو لوگوں کے اس جمہوری حق کو سلب کرنے کی کوشش میں لگا ہے ۔ یعنی بزور طاقت اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ ایسی طاقت کے خلاف حکومت کو سخت تدابیر کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ لوگ اپنے اس جمہوری حق سے محروم نہ رہیں ۔
جمہوری دستور کے آخر میں جو حق دیا گیا ہے ، وہ ہے ’ دستوری معاملات میں محافظت ‘ یہ حق بھی بے حد اہم ہے ۔ اس پر عمل ان دنوں کس طرح کیا جا رہا ہے ، اس کا تجزیہ آئے دن اخبارات میں بہت تفصیل سے آ رہا ہے۔ ایسے حرکانات و سکنات سے بہر حا ل ہمارا جمہوری وقارپامال اور مجروح ہو رہا ہے۔ ہزاروں سال کی ہماری گنگا جمنی تہذیب ، جس کی دوسرے ممالک میں مثالیں دی جاتی ہیں، انھیں ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ ایسے لوگ جو ہمارے اس جمہوری حقوق کو پامال کر رہے ہیں وہ ملک کی سا لمیت ، یکجہتی اور اس کی شاندار روایات کے دشمن ہیں ۔ ایسے لوگوں سے نہ صرف حکومت کو بلکہ مختلف تنظیموں اور اداروں کو سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس یوم جمہوریہ کے موقع پر یہی ہمارا عہد اور نصب العین ہونا چاہیے، جو یقینی طور پر قوم و ملک کے مفاد میں ہے ۔
**********