تاریخ، گیان اور سچائی کو دیو مالائی سمندر میں ڈالنے کی مہم

مولانا عبد الحمید نعمانی

بھارت ایک عجیب طرح کا ملک ہے ، یہاں اگر تیزی سے بنتے بگڑتے موہوم تصورات کو حد میں نہ رکھا جائے تو من گھڑت اور خیالی لہروں اور دیو مالائی تخیلات وتصورات کو حقائق ، تاریخ اور واقعات پر حاوی ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے ، زندگی میں عقائد و تصورات کا بڑا رول ہے ، لیکن واقعات اور حقائق کو من گھڑت کہانیوں اور دیو مالائی تصورات میں بدلنے کی کوشش اور دیگر کے حقوق کو سلب کرنے یا دوسروں کو ان کا پابند اور ان پر لادنے کی مہم کسی بھی آزاد ، مہذ ب سماج اور آزاد جمہوری ملک کے لیے ایک سنگین معاملہ اور تباہ کن عمل ہے ، ایک کمیونٹی کے مذہبی تخیلا ت و تصورات کو دوسری کمیونٹی کے نظریات و عقائد پر ترجیح و تفوق دینے اور سامنے کے حقائق کو آستھا کے سہارے خاتمہ و انہدام سراسر زور زبردستی کا غیر منصفانہ و جارحانہ عمل ہے لیکن ملک میں ایسا کچھ مسلسل ہو رہا ہے اور پہلے بھی ہوا ہے ۔

 برہمن وادی سماج احساس کمتری اور حسد کے جذبے میں مبتلا ہے ۔ اس نے بھارت میں جات پات اور اونچ نیچ پر مبنی طبقاتی نظام کو بڑھاواد دینے کے سوا زیادہ کچھ بنایا اور کیا نہیں ہے ۔ بس احساس کمتری سے نکلنے اور داخلی نظریاتی و عملی بحران سے بچنے کے لیے دوسروں کی بنائی چیزوں کو اپنی بتانے میں لگا ہوا ہے ، ملک کی معروف عمارتوں اور تاریخی مساجد کو ہند و عمارتوں اور مندروں کی جگہوں پر ہونے یا ہندو عمارت اور مندر بتانے کے ذہن کے پش پشت بھی مذ کورہ احساس کمتری ، تنگ نظری اور جلن کا جذبہ کام کرتا نظر آتا ہے ، کہانی اور افسانہ کو تاریخ اورحقیقت اور تاریخ اور حقیقت کو افسانہ میں بدلنے کی مہم میں تاریخ سازی کے عمل کا پورا پورا عمل دخل ہے ، بنارس کی جامع مسجد جو گیان واپی محلے میں ہونے کی وجہ سے گیان واپی مسجد سے معروف ہے کی تاریخ ختم کرنے کا کھیل ، مخصوص ہندو تو وادی ذہنیت کا ہی اظہار ہے ، ہندو تو وادیوں کی دقت یہ ہے کہ ان کے پاس من گھڑت کہانیوں اور افسانوی باتوں کے سوا تاریخ نہیں کے برابر ہے اس کی تلافی “آستھا ” کے سہارے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، بھارت میں کوئی ایک کمیونٹی ،دوسری کمیونٹی کی آستھا کی پابند نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے تو یہ صاف کر ہی دیا کہ یہ دعویٰ بے بنیاد تھا اور ہے کہ بابر ی مسجد کوئی مندر توڑ کر تعمیر کی گئی تھی ، لیکن غلط پروپگینڈا پر اسے بابر سے جوڑ کر ، رام مندر تعمیر کی تحریک چلائی گئی ، اسی طرز پر گیان واپی مسجد کے خلاف وشو ناتھ مندر کے نام پر گزشتہ کچھ عرصے سے مہم شروع کی گئی ہے ، جس میں حال کے دنوں خاصی تیزی آئی ہے ۔ اس شر انگیزی کو بڑھاوا دینے میں برٹش سامراج اور اس کے گماشتوں اور دلالوں کی کارستانیوں کا بڑا دخل ہے ، بنارس کے کئی نام اس کی تاریخ اور مذہبی حوالے سے ہمارے سامنے آتے ہیں ، مثلاً کاشی ،ورانسی ، بنارس، ادی مکتا، آنند بھون وغیرہ وغیرہ لیکن ورانسی ، کاشی ، بنارس کے ناموں کو شہریت ملی ، بنارس ، ہندو مت، بدھ مت ، جین مت ، سکھ مت کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے بھی مرکز توجہ رہا ہے ،گرچہ محمود غز نوی ، کا معروف جرنیل احمد نیالگتین لاہور سے چل کر بنارس ہوتے ہوئے بہار کی سرحد تک گیا تھا، تاہم مستقل طور سے مسلم سلطنت کا حصہ اس وقت بنا جب 1194ءمیں شہاب الدین غوری نے راجا جے چند کو شکست دے کر بنارس پر کنٹرول حاصل کیا۔ قطب الدین ایبک نے تخت نشیں ہونے کے ساتھ محمد باقر کو بنار س کا صوبہ دار بنایا لیکن بنارس میں مسلمانوں کی آبادی اس سے پہلے ہی دسویں صدی عیسوی سے ہی شروع ہوگئی تھی ، سلطان شمس الدین نے تخت نشیں ہونے کے ساتھ بنارس کو مرکزی شہر میں بدل دیا، مغلوں اور پٹھانوں ، بابر ، ہمایوں ، شیر شاہ ، سلاطین شرقی وغیرہم کا بنارس پر کنڑول اور بے دخلی ہوتی رہی ہے ، مغل آخری حکمراں خاندان ہے ، اس کے کسی حکمراں کے متعلق کوئی ایسا واضح حوالہ نہیں ملتا ہے کہ کوئی مندر توڑ کر کسی مسجد کی تعمیر کی تھی ، ہم بہت دنوں سے سبرامنیم سوامی اور دیگر ہندو تو وادی عناصر اور ٹی وی اینکرز سے سنتے اور دعوے کرتے دیکھتے رہتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں خصوصاًاور نگ زیب نے ہندو مندر، توڑ کر اس کی جگہ مسجد یں تعمیر کرائی ہیں ، یہ محض دعوی اور بکیتی ہے ، کسی انگریز کے لکھ دینے اور یہاں وہاں کی چیزوں کو جوڑ کر یہ کہہ دینے سے افواہ، سچ اور تاریخ نہیں بن سکتی ہے کہ مندر توڑ کر اس کی جگہ اور باقیات پر مسجد کی تعمیر کردی گئی ہے ، انگریزوں نے اپنی سیاست اور اپنی حکمرانی کی زندگی بڑھانے کے لیے ہند و ، مسلم کے درمیان نفرت و تفرقا پھیلانے کے لیے مندر کی جگہ مسجد بنانے کی شرارت کی ہے ، بنارس کی جامع مسجد جو گیان واپی مسجد سے مشہور ہے ، اورنگ زیب سے پہلے سے موجود ہونے کا ذکر ملتا ہے ، 1809ءمیں پہلی بار گیان واپی مسجد کو لے کر فرقہ وارانہ فساد ہو ا تھا، جب کہ اورنگ زیب کی وفات 1707ءمیں ہو چکی تھی ، مسجد کی تعمیر اور اور نگ زیب کے زمانے میں مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا ذکر کسی ہندو مورخ یا تذکرہ نگار نے کیوں نہیں کیا ہے ؟ اکبر کے عہد سے ہندو ﺅں کو پوری آزادی حاصل تھی ، ان کی زبان و قلم پر کوئی پہرہ نہیں تھا، اورنگ زیب کے حکومتی اور فوجی عملے میں ہندوﺅں کی تعداد ، اکبر سے بھی زیاد ہ تھی ، اکبر سے اورنگ زیب تک کسی طرح کی بے جا پابند کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے ، 1574ءمیں اکبر نے جون پور ، چنار کے ساتھ بنار س کی حکومت اپنے پاس رکھی تھی ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اکبری عہد ہندو مذہب کے لیے فال نیک ثابت ہوا جو بدھوں کے دور عروج میں تقریباً ختم ہو چکا تھا ، بعد میں ہندو ﺅں نے اپنے دور عروج میں بدھ وہارں کو منہد م کیا تھا ۔ اکبر نے اپنے عہد حکومت میں اپنی سیاسی پالیسی اور اپنے ایجاد کر دہ مذہب دین الہی کے فروغ کے تحت بنارس کو مرکزی اور مقد س شہر بنا دیا اور راجا مان سنگھ اور پورے ہندستان کے ہندو راجاﺅں کو بنارس میں مندر کی تعمیر کی کھلی آزادی دی، راجا مان سنگھ ہی نے وشو ناتھ مندر کو از سر نو بنایا تھا، ہمیں کوئی ایسا مستند حوالہ نہیں ملتا ہے کہ اورنگ زیب نے ہندوﺅں کے مذہبی عمل پر روک اور مندروں کو توڑ کر مسجدوں کی تعمیر کاسلسلہ شروع کیا ہو ، مرقع بنارس، تاریخ بنارس، تاریخ آثار بنارس ،کاشی کا اتہاس،ورانسی ویبھو، بنارس گورو،کاشی اور وشو ناتھ ، جیسی درجنوں کتابیں جاری افسانے کی تردید کرتی ہیں، اس سلسلے میں وسیع تر ملکی و قومی مفاد میں منظم و مربوط کام کر کے اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ کم از کم معروف مسلم تنظیموں کو چاہیے کہ وہ تاریخی و تہذیبی ورثے اور حقائق کو صحیح منظر، پس منظر کے ساتھ سامنے لائیں ، تاکہ تاریخی صداقت اور قومی یک جہتی کو افواہ و افسانہ کے سمندر میں پھینک دینے کی مہم پر قد غن لگ سکے ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com