نئی دہلی: (ملت ٹائمز) جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی ایک ٹی وی چینل کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مدارس کو پیسہ دینا اور ان کی امداد کرنا سرکار کو بند کردینا چاہیے ۔ مدسہ قائم کرنا مسلمانوں کی اپنی ذمہ داری ہے ۔ جنہیں ضرورت ہوگی وہ مدرسہ قائم کریں گے ۔
#BREAKING
जितने भी सरकारी मदरसे चल रहे हैं उन सभी को पैसा देना सरकार को बंद कर देना चाहिए
मौलाना महमूद मदनी अध्यक्ष जमीयत उलामा ए हिंद pic.twitter.com/2ATlnJtNRo— Shams Tabrez Qasmi (@ShamsTabrezQ) June 1, 2022
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی دیوبند میں جمعیت کا دوروزہ اجلاس منعقد کرنے کے بعد لگاتار ٹی وی چینلوں کے دفتر میں جاکر متعدد چینلوں کو انٹرویو دے رہے ہیں ۔ ان کا ایک خصوصی انٹرویو آج تک نیوز چینل نے بھی اپنے تھرد ڈگری پروگرام میں بھی کیاجس میں ان سے سوال کیاگیا کہ یوپی سرکار نے نئے مدرسوںکو پیسہ دینا بند کردیا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہاکہ یوگی سرکار کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے اور میں اس کی تائید کرتا ہوں بلکہ میں کہوں گا کہ پرانے مدرسوں کو بھی پیسہ دینا سرکار کو بند کردینا چاہیے ۔ مدرسہ چلانا کمیونٹی کی ذمہ داری ہے۔ انہیں مزید کہاکہ مسلم علاقوں میں اسکول کھولنا چاہیے تاہم مدرسوں کو امداد دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مولانا محمود مدنی نے یہی مطالبہ انڈیا ٹی وی کے پروگرام میں بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ مدرسوں کو پیسہ دینا سرکار کو بند کردینا چاہیے ۔
مولانا محمود مدنی نے اپنے پروگرام میں گیان واپی مسجد پر جاری تنازع کے تعلق سے کہاکہ معاملہ کورٹ میں ہے جو بھی فیصلہ آئے گا ہمیں منظور ہوگا ۔ انہوں نے عدالت کی بحث کو 1991 ورشپ ایکٹ قانون کے خلاف نہیں بتایا اور نہ ہی یہ کہاکہ عدالت کو اس سلسلے میں سنوائی کرنے سے گریزکرنا چاہیے بلکہ کہاکہ عدالت کا ہر فیصلہ منظور ہوگا ۔ مولانا محمود مدنی نے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے معاملہ میں بھی یوگی سرکار کی تعریف کی اور کہاکہ انہوں نے بغیر بھید بھاؤ کے کام کیا ہے ۔
واضح رہے کہ یوپی ، بہار ، آسام ، بنگال سمیت دسیوں صوبوں میں مدرسہ بورڈ کا نظام قائم ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں علماء روزگار سے وابستہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ان مدارس سے سرٹفیکٹ ملنے کے بعد یونیورسٹیز میں داخلہ لینے میں مدارس کو طلبہ کو بہت زیادہ آسانی ہوجاتی ہے ۔ یونیورسٹیز میں داخلہ لینے والے طلبہ زیادہ تر مدرسہ بورڈ کی سرٹفیکٹ کو ہی بنیاد بناتے ہیں خواہ وہ دارالعلوم کے فضلاء ہوں ، دارالعلوم ندوہ کے فضلاء ہوں یا کسی اور مدرسہ کے ۔اگر جمعیت علماء ہند کے صدر کے مطالبہ کو حکومت تسلیم کرلیتی ہے تو مسلمانوں اور خاص کر دینی تعلیم سے وابستہ افراد اور طلباء کو شدید پریشانیوں اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔